Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 127
لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْ یَكْبِتَهُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآئِبِیْنَ
لِيَقْطَعَ : تاکہ کاٹ ڈالے طَرَفًا : گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَوْ : یا يَكْبِتَھُمْ : انہیں ذلیل کرے فَيَنْقَلِبُوْا : تو وہ لوٹ جائیں خَآئِبِيْنَ : نامراد
تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے ‘ یا ان کو ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کے ساتھ پسپا ہوجائیں ۔
اس کے بعد اس نصرت کی حکمت بھی یہاں بیان کردی جاتی ہے ‘ کیسی فتح ؟ وہ فتح جس کے مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی انسان کی ذات سے وابستہ نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فتح اللہ کی جانب سے آتی ہے ۔ وہ اللہ کی تقدیر کو ظاہر کرتی ہے ۔ کسی رسول اور اس کے ساتھیوں کو فتح کی صورت میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ملتا ۔ نہ اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض ہوتی ہے۔ نیز حصول فتح میں نہ رسول کا دخل ہوتا ہے نہ اس کے ساتھ اس میں دخیل ہوتے ہیں ۔ وہ تو تقدیر الٰہی کے ظہور کے لئے ایک مظہر ہوتے ہیں ۔ قدرت انہیں جس طرح چاہتی ہے ‘ استعمال کرتی ہے ۔ وہ اس فتح ونصرت کا نہ سبب حقیقی ہوتے ہیں نہ اس کے صانع ہوتے ہیں ۔ وہ نہ فاتح ہوتے ہیں اور نہ ہی اس فتح کے نتیجے میں مفادات حاصل کرتے ہیں ۔ دست قدرت اپنے بعض اشخاص کو حرکت میں لاتا ہے ۔ پھر خود ان کی تائید کرتا ہے تاکہ اللہ کے پیش نظر جو حکمتیں ہوں ان کا ظہور ہو اور جو مقاصد ہوں وہ بروئے کار لائے جائیں ۔ لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا……………” تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے۔ “ وہ قتل ہوں اور ان کی افرادی قوت کم ہو ‘ ان کی اراضی ان ہاتھوں سے نکلے اور ان کا رقبہ کم ہوتا جائے۔ یا ان کی جابرانہ حکومت کا دائرہ تنگ ہوجائے۔ ان کی دولت میں بوجہ مال غنیمت کمی آجائے اور ہزیمت اور شکست کے نتیجے میں ان کی سرگرمیوں میں کمی آجائے۔ أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ……………” یا ان کو ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کے ساتھ پسپا ہوجائیں ۔ “ یعنی ذلیل ہوکر ہزیمت اٹھائیں اور اپنے مقاصد میں ناکام ہوکر لوٹیں جبکہ وہ دبے ہوئے ہوں۔
Top