Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 132
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور حکم مانو تم اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور اللہ اور رسول کا حکم مان لو ‘ توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے ۔
اس کے بعد یہ آخری تاکید کی جاتی ہے وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ……………” اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کی امید ہوسکے ۔ “ یہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا عام حکم ہے ‘ اور اس طاعت عامہ پر اللہ کے رحم کو موقوف کیا گیا ہے لیکن سودی کاروبار کی ممانعت کے بعد بطور نتیجہ اس رحمت خداوندی کا ذکر خالی از حکمت نہیں ہے۔ اس میں ایک خاص مفہوم اور اشارہ بھی مطلوب ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کسی ایسے معاشرے میں جس کی اقتصادیات سودی نظام پر استوار ہوں قطعاً اللہ اور رسول کی اطاعت ممکن نہیں رہتی ۔ نیز اس دل میں اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول کا جذبہ ہی نہیں رہتا جو سود کھاتا ہو ‘ چاہے وہ کسی بھی شکل اور کسی بھی صورت میں ہو ‘ اس طرح نہی عن الربا کا یہ نتیجہ اور تعقیب بھی ایک طرح کی مزید تاکید مزید ہے کہ اس منحوس نظام کو ختم کردیاجائے۔ یہاں اطاعت اللہ اور اطاعت رسول ﷺ کی اس تاکید کا تعلق کاروبار ربا کے علاوہ جنگ احد کے ان واقعات کے ساتھ بھی ہے جن میں رسول ﷺ کے واضح احکام کی خلاف ورزی کی گئی تھی ۔ اشارہ یہ مقصود ہے کہ فلاح صرف اس صورت میں نصیب ہوسکتی ہے کہ تم لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ‘ صرف یہی جائے امید ہے اور یہی راہ نجات ہے ۔ اس سے قبل سورة بقرہ پارہ سوئم میں جہاں ہم نے سودی نظام پر بحث کی تھی ہم نے بتایا تھا کہ ذکر ربا کے ساتھ ساتھ وہ انفاق فی سبیل اللہ اور فضیلت صدقہ کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ اجتماعی نظام میں یہ دونوں باہم مقابل سمتیں ہیں ‘ جن سے دو علیحدہ علیحدہ نظام ہائے اقتصاد کی طرف اشارہ مطلوب ہے ۔ ایک سودی اقتصادی نظام ہے اور دوسرا باہم تعاون پر مبنی نظام اقتصاد ہے ۔ چناچہ یہاں بھی جب ربا سے بحث کی گئی تو اس کے ساتھ ہی ہر حال میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب بھی دی گئی ۔ چناچہ ربا کی ممانعت اور اس آگ سے ڈرانے کے بعد جو اہل کفر کے لئے تیار کی گئی ہے اور لوگوں کو اللہ خوفی کی دعوت دینے اور انہیں ہر وقت رحمت خداوندی کے امیدوار رہنے کے ساتھ ساتھ انہیں دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر چلیں ۔ وہ بھاگے بھاگے ان جنتوں میں داخل ہوں جو آسمانوں اور زمینوں کی وسعتوں سے بھی زیادہ وسیع ہیں اور جنہیں اہل تقویٰ کے لئے تیار کیا گیا ہے اور متقین کے اوصاف میں سے پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ……………” وہ لوگ جو خوشحالی اور بدحالی دونوں حالتوں میں مال خرچ کرتے ہیں ۔ “ اس لئے یہ لوگ ان لوگوں کے فریق مخالف ہیں جو سودی نظام کھاتے ہیں اور اس کے ذریعہ دوچند چہار چند رقم بٹورتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر متقین کی اور صفات بیان کی جاتی ہیں ۔ پوری آیت یہ ہے : وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135) ” دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف لے جاتی ہے جس کی وسعت زمین وآسمانوں جیسی ہے ‘ اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لئے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوشحال جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاًاللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں …………کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے ………… اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ “
Top