Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے ۔ مگر ایک دوسرا گروہ ‘ جس کے لئے ساری اہمیت بس اپنی ذات ہی کی تھی ‘ اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلاف حق تھے ۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اس کام کو چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ “ ان سے کہو (کسی کا حصہ نہیں) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ “ دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں ‘ اسے تم پر ظاہر نہیں کرتے ۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اگر (قیادت) کے اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے ۔ “ ان سے کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔ “ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ‘ یہ تو اس لئے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے ‘ اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے ۔
جب اس ہزیمت کا خوف وہراس فرو ہوگیا ‘ اس کی افراتفری ختم ہوگئی تو اہل ایمان پر ایک عجیب سکون طاری ہوگیا۔ اہل ایمان جو اپنے رب کی طرف دوبارہ پلٹ آئے اور نبی ﷺ کے اردگرد جمع ہوئے تو ان پر ایک عجیب اونگھ طاری کردی گئی ۔ انہیں ایک ناقابل فہم سکون حاصل ہوگیا اور وہ مطمئن ہوگئے ۔ اس نئی معجزانہ فضائے امن و سکون کی تعبیر نہایت ہی تعجب انگیز ہے ۔ وہ نہایت شفاف ‘ نرم اور خوشگوار فضا ہے اور اس کے زمزمہ اور خوشگوار چھاؤں کی تصویر کشی ان الفاظ میں ہے ۔ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ……………” اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم پر ایسی اطمینان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے ۔ “ یہ ایک ایسی فضاتھی جس سے رحمت الٰہی کا اظہار ہورہا تھا اور اللہ کے خاص مومن بندوں پر یہ خاص رحمت نازل ہوا کرتی ہے ۔ یہ ایک اونگھ تھی اور خوفزدہ اور پریشان حال مجاہدین پر جب اونگھ آجائے ‘ اگرچہ ایک لحظہ کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ ان کے جسم کے اندر ساحرانہ اثر کرتی ہے ‘ اونگھ دور ہوتے ہی وہ تروتازگی محسوس کرتے ہیں ‘ گویا وہ ایک نئی مخلوق ہیں ‘ دلوں پر اطمینان کی حالت طاری ہوجاتی ہے ۔ جسم آرام محسوس کرتا ہے ۔ اس اونگھ کی کیا حقیقت ہے ‘ اس کی حقیقت اور ماہیت اور کیفیت کا ادراک ہم نہیں کرسکتے ۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے شدید پریشانی کے عالم میں ایسی حالت کو محسوس کیا ہے ۔ میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ اس میں اللہ اللہ کی رحمت کی شبنم ہے ۔ اور اس قدر معجزانہ کہ ہمارے الفاظ اس کے بیان سے قاصر ہیں ۔ ترمذی ‘ نسائی ‘ حاکم نے حماد ابن سلمہ کے واسطہ سے ثابت کی روایت حضرت انس ؓ نے ابوطلحہ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں ” میں نے احد کے دن اپنا سر اٹھایا اور دیکھنے لگا ‘ ہر شخص کا سر ہودج پر جھکا ہوا ہے ۔ اور ایک دوسری روایت ابوطلحہ سے یہ ہے ” ہم احد کے دن میدان جنگ میں تھے ‘ کہ ہم پر ایک خاص اونگھ طاری ہوگئی ۔ میری تلوار گرتی اور میں اسے اٹھاتا ‘ گرتی اور میں دوبارہ اٹھاتا۔ “ ایک گروہ کا حال تو یہ تھا اور دوسرے گروہ کا حال یہ تھا کہ وہ متزلزل الایمان تھا۔ یہ لوگ تھے جنہیں صرف اپنی جان کی فکر تھی ‘ اسی کو اہمیت دیتے تھے ۔ یہ لوگ ابھی تک جاہلیت کے تصورات سے نکل کر باہر نہیں آئے تھے ۔ نہ انہوں نے پوری طرح اپنے آپ کو اس تحریک کے سپرد کردیا تھا ‘ نہ وہ پوری طرح تن بتقدیر الٰہی ہوگئے تھے ۔ وہ اس بات پر مطمئن نہ تھے کہ انہیں جو چوٹ لگی ہے وہ ان میں چھانٹی کے لئے لگی ہے ‘ آزمائش کے لئے یہ سب کچھ ہوا ہے ۔ یہ اس لئے نہیں ہوا کہ اللہ نے اپنے دوستوں اور حامیوں کو دشمنوں کے حوالے کردیا ہے اور نہ کہیں اللہ نے یہ آخری فیصلہ کردیا ہے کفر ‘ شر اور باطل کو اب آخری غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔ اور انہیں اب پورا کنٹرول حاصل ہوگیا ہے ۔ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الأمْرِ مِنْ شَيْءٍ ” مگر ایک دوسراگروہ جس کے لئے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی ‘ اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا جو سرا سر خلاف حق تھے ۔ یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ ” اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے۔ “ اسلامی نظریہ حیات ‘ اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کی جان میں ان کا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ تو سب کے سب اللہ کے ہیں اور جب وہ جہاد فی سبیل اللہ کے نکلتے ہیں تو وہ اللہ کے لئے نکلتے ہیں ‘ وہ اللہ کے لئے حرکت میں آتے ہیں اور اللہ ہی کے لئے جنگ کرتے ہیں ۔ جہاد کے اس عمل میں ان کی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس میں پھر وہ اپنے آپ کو اللہ کی تقدیر کے سپرد کردیتے ہیں اور اللہ کی تقدیر ان پر جو حالات بھی لاتی ہے وہ اسے قبول کرتے ہیں ‘ مکمل تسلیم ورضا کے ساتھ جو بھی ہو سو ہو۔ رہے وہ لوگ جو اپنی ذات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ان کی سوچ اور ان کے اندازے ان کی اپنی ذات ارد گرد گھومتے ہیں ‘ ان کی سرگرمی اور ان کے تمام اہتمام صرف اپنی ذات کے لئے ہوتے ہیں ‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایمان کی حقیقت ابھی تک جاگزیں ہی نہیں ہوتی ۔ یہ دوسرا طائفہ جس کا ذکر یہاں ہورہا ہے وہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا ۔ یہاں قرآن کریم نے ان پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا ۔ اس گروہ کے نزدیک ساری اہمیت ان کی ذات کے لئے تھی ۔ وہ نہایت کرب اور پریشانی میں مبتلا تھے ۔ انہیں یہ احساس کھائے جارہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحتیوں کو ایسے کام میں ضائع کررہے ہیں ‘ جو ان کے ذہن میں واضح نہیں ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ بغیر ان کی مرضی کے اس معرکے میں شریک ہونے پر مجبور ہوگئے ‘ انہیں اس میں خواہ مخواہ جھونک دیا گیا اس کے باوجود ان کو یہ تلخ چوٹ لگی اور وہ خوامخواہ اس قدر بھاری قیمت ادا کررہے ہیں ‘ قتل ہورہے ہیں ‘ زخمی ہوگئے ہیں اور پریشان کا تو حال نہ پوچھو ۔ یہ لوگ اللہ کی صحیح معرفت سے محروم ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بدگمانیاں کرتے ہیں جس طرح جاہل لوگ کیا کرتے تھے اور سب سے بڑی بدگمانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس معرکہ میں ضائع کررہا ہے ‘ جس کے انتظام میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بس انہیں تو یہاں دھکیل کر لایا گیا ہے تاکہ وہ مریں ‘ زخمی ہوں ۔ اللہ تو نہ انہیں بچاتا ہے اور نہ ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ نے انہیں دشمنوں کے لئے لقمہ تر بنادیا ہے ۔ وہ پوچھتے ہیں هَلْ لَنَا مِنَ الأمْرِ مِنْ شَيْءٍ ” اس کام میں ہمارا بھی حصہ ہے ۔ “ ان کے اس اعتراض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس معرکے کے لئے قیادت نے جو منصوبہ بنایا اس میں ان کی ایک نہ سنی گئی۔ شاید اس گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر لڑا جائے اور باہر جاکر لڑنے سے پرہیز کیا جائے لیکن اس کے باوجود وہ عبداللہ ابن ابی کے ساتھ لوٹ نہ گئے تھے ۔ لیکن ان کے دل اس منصوبے پر مطمئن نہ تھے ۔ اس سے قبل کہ اس سیاق کلام میں ان کی بدگمانیوں کی بات ختم کی جائے ‘ درمیان میں مختصر سا جواب دیا جاتا ہے اور اس میں ان کے اس اعتراض کو رد کردیا جاتا ہے ۔ قُلْ إِنَّ الأمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ……………” کہہ دو کہ اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ “ کسی کے لئے کوئی اختیار نہیں ہے ‘ نہ ان کا کوئی اختیار اور کسی کا کوئی اختیار ہے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کو یہ حکم دے دیالیسَ لَکَ مِنَ الاَمرِ شَئٌ……………” اس کام میں کوئی اختیار تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ “ لہٰذا اس دین کے تمام معاملات ‘ اس کی خاطر جہاد ‘ اس کے نظام کا قیام ‘ لوگوں کے دلوں کے اندرہدایت داخل کرنا وغیرہ یہ سب کام اللہ کے لئے ہیں ۔ ان اختیارات میں کوئی انسان شریک نہیں ہے ۔ بشر کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دے ۔ وہ اپنے وعدہ ایمان کے تقاضے پورے کرے ۔ یہ اب صرف اللہ کا کام ہے کہ اس جدوجہد کے کیا نتائج نکلتے ہیں ۔ اور وہ کیا نکالتا ہے ۔ اس موقعہ پر اللہ ان کے دل کے اندر ایک چھپی ہوئی کمزوری کو بھی طشت ازبام کردیتے ہیں يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لا يُبْدُونَ لَكَ……………” یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں تم پر ظاہر نہیں کرتے ۔ “ ان کا یہ سوال کہ ” کیا ان کے لئے بھی اس معاملے میں کوئی اختیا رہے ؟ “ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کے شعور اور لاشعور میں یہ بات تھی کہ انہیں ایک ایسے کام میں ڈال دیا گیا ہے جس میں وہ از خود نہیں آئے ۔ یہ کہ قیادت کی غلطیوں کی وجہ سے وہ قربانی کا بکرابن گئے ہیں ۔ اگر وہ خود اس معرکے کا نقشہ تیار کرتے تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَا هُنَا……………” ان کی اصل بات یہ ہے کہ اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا کوئی حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے ۔ “ یہ ایک وسوسہ ہے ‘ جو اس وقت تک دلوں میں پیدا ہوتا ہے ‘ جب تک وہ نظریہ کے لئے خالص اور یکسو نہیں ہوجاتے ۔ جب ایسے لوگوں کو کسی موقعہ پر شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے ‘ جب ان پر مصائب آتے ہیں ‘ جب انہیں ان کے تصور اور توقع سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ‘ جب انہیں ناقابل تصور ناگوار نتائج کا سامنا ہوتا ہے ‘ جب ان کے دل و دماغ میں وہ نظریہ حیات اچھی طرح جاگزیں نہیں ہوجاتا اور جب یہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان پر یہ مصائب محض قیادت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ٹوٹ پڑے ہیں اور اگر وہ خود منصوبہ بندی کرتے تو بڑی کامیابی ہوتی ۔ غرض جب لوگوں کی ذہنی صورت حال یہ ہوتی تو اس گدلے تصور کے ہوتے ہوئے ایسا شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ تمام واقعات کے پیچھے حکمت خداوندی کارفرماہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچ سکتا کہ تمام واقعات کے پیچھے حکمت خداوندی کارفرماہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اللہ کی طرف سے یہ آزمائش ہے ۔ ان کے خیال میں ایسی صورت حال میں خسارہ ہی خسارہ ہوتا ہے۔ ہر طرح کا ضیاع ہی ضیاع ہے۔ ایسے تصورات اور وسوسے رکھنے والوں کے خیالات کی درستگی کے لئے اللہ تعالیٰ ایک نہایت ہی گہری سچائی ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ وہ سچائی موت کی سچائی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ابتلا کے اندر جو حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اس کے بارے میں بھی وضاحت ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں : قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (154) ” ان سے کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی ‘ وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے ۔ اور یہ معاملہ جو پیش آیا ‘ یہ تو اس لئے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے ۔ اللہ اسے آزمالے ۔ اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے ‘ اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ “ اگر تم گھروں میں بھی ہوتے اور اسلامی قیادت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ‘ اس معرکے میں نہ کود پڑتے ‘ اور تمام معاملات تم خود اپنی مرضی سے طے کرتے ‘ تو تم میں سے بعض لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنے مقتل کی طرف دوڑے آتے ۔ اس لئے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ اس سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے ۔ ہر شخص کی موت کے لئے ایک جگہ بھی مقرر ہے اور ہر شخص لازماً اس جگہ کی طرف کھنچا آئے گا اور وہاں دم توڑ دے گا ۔ جب موت کا وقت قریب ہوگا تو وہ شخص اپنے پاؤں پر چل کر وہاں پہنچے گا ۔ دوڑتا ہوا آئے گا ۔ کوئی اسے کھینچ کر نہ لائے گا ۔ نہ کوئی اسے اس طرف دھکیلنے والا ہوگا۔ یہ کیا ہی طرز ادا ہے ؟” اپنی جائے آرام کی طرف “ گویا اس کا مقتل نرم بستر ہے ‘ جس پر اس نے آرام کرنا ہے ۔ اس کے قدم وہاں آرام سے لمبے ہوجائیں گے ۔ تمام لوگ ‘ اس دنیا میں اپنی قتل گاہوں اور اپنی آخری آرام کی جگہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور وہ ان مقامات کی طرف بعض اوقات ایسے محرکات کی وجہ سے آتے ہیں جو ان کے لئے ناقابل فہم ہوتے ہیں بلکہ یہ محرکات ان کے لئے ناقابل کنٹرول ہوتے ہیں ۔ یہ محرکات صرف اللہ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور وہی ان کے نتائج کو جانتا ہے ۔ اور اس کا خاص تصرف ہوتا ہے ‘ جس طرح چاہتا ہے وہ سر انجام دیتا ہے ۔ اس لئے اگر ہم اللہ کے مقرر کردہ جائے قرار پر راضی ہوجائیں تو یہ ہمارے لئے روحانی سکون اور نفیساتی اطمینان اور ہمارے ضمیر کے مفاد میں ہوگا۔ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور اس کے پس پشت جو حکمت کام کررہی ہے وہ یہ ہے لِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ……………” اور یہ معاملہ جو پیش آیا ‘ یہ تو اس لئے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ دے۔ “ اس سے بڑی آزمائش اور کوئی نہیں کہ دلوں کی بات کو ظاہر کردیا جائے ‘ اور جو دلوں کی تہہ میں ہے وہ اوپر آجائے ۔ اس سے کھوٹ اور ریاکاری کو علیحدہ کردیا جائے اور بغیر کسی ملمع کاری اور بغیر کسی کور کے اصل حقیقت سامنے آجائے ۔ یہ بہت بڑی آزمائش ہے ‘ ان باتوں کے لئے جو دل کے خزانے میں پوشیدہ رکھی ہوتی ہیں ۔ حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ یہ ہے تطہیرالقلوب اور تصفیہ القلوب ‘ اس طرح کہ ان میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہ رہے ۔ اس طرح نظریات صحیح ہوکر صاف صورت میں سامنے آجاتے ہیں اور ان میں کوئی نقص اور ملاوٹ نہیں رہتی۔ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ……………” اللہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے ۔ “ ذات الصدور سے مراد وہ خفیہ راز ہیں جو دلوں کی تہہ میں ہوتے ہیں اور ہر وقت دل میں ہوتے ہیں جو دل سے جدا نہیں ہوتے اور نہ روشنی میں آتے ہیں ۔ اللہ ان بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے ۔ ان بھیدوں کو اللہ لوگوں پر اس لئے ظاہر کرتا ہے کہ لوگ خود بھی بعض اوقات ان خفیہ باتوں سے بیخبر ہوتے ہیں یعنی یہ ان کے لاشعور میں ہوتے ہیں ‘ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انہیں سطح پر لے آتے ہیں ۔
Top