Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 155
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ تَوَلَّوْا : پیٹھ پھیریں گے مِنْكُمْ : تم میں سے يَوْمَ : دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : آمنے سامنے ہوئیں دو جماعتیں اِنَّمَا : درحقیقت اسْتَزَلَّھُمُ : ان کو پھسلا دیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بِبَعْضِ : بعض کی وجہ سے مَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اعمال) وَلَقَدْ عَفَا : اور البتہ معاف کردیا اللّٰهُ : اللہ عَنْھُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : حلم ولا
تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیرگئے تھے ان کی لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگاڈئیے تھے ۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا ‘ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔
اللہ کو ان باتوں کا علم ہے جو ذہن کے اندر تھیں ۔ انہوں نے شکست کھائی اور جب اس غزوہ میں انہیں دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ کمزوری دکھائی ‘ پیٹھ دکھائی ‘ کیوں اس لئے کہ انہوں نے اپنے کمانڈر کی نافرمانی کی تھی ۔ اس کی وجہ سے ان کے نفوس متزلزل ہوگئے ۔ اس راہ سے شیطان ان کے دلوں میں داخل ہوگیا اور انہیں لغزش میں ڈال دیا اور یہ لوگ پھسل پڑے ۔ فرماتے ہیں ۔ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ” تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادئیے تھے ۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا ‘ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ “ اس سے مراد وہ تیر انداز ہوسکتے ہیں جن کے دل میں مال غنیمت کی لالچ نے جوش مارا تھا ۔ جس طرح ان کے دلوں میں یہ بات بھی آگئی تھی کہ شاید رسول اللہ ﷺ انہیں ان کا حصہ نہ دیں گے۔ یہ وہ بات تھی جو انہوں نے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کمائی تھی ۔ اور اسی وجہ سے شیطان نے انہیں لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ لیکن اپنے عموم کے اعتبار سے وہ نفس انسانی کی اس حالت کی تصویر ہے جب اس سے کسی غلطی کا ظہور اور ارتکاب ہوتا ہے ۔ اسے اپنے اوپر قابو نہیں ہوتا۔ اللہ کے ساتھ اس کا رابطہ کمزور پڑجاتا ہے ۔ اس کی شخصیت کا توازن ختم ہوجاتا ہے ‘ اسے اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا ۔ اور وہ خلجان اور وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اللہ سے ختم ہوجاتا ہے اور اسے اللہ کی رضامندی کا بھروسہ نہیں رہتا ۔ یہ مقام ہوتا جہاں شیطان حملہ آور ہوتا ہے ۔ وہ انسان کے نفس کے اندر داخل ہوجاتا ہے ۔ اب یہ ایسے شخص کی نکیل اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس سے لغزشوں پر لغزشیں کرواتا ہے اور یہ نفس اللہ کی پرامن اور مضبوط بارگاہ سے دور چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اللہ پرستوں نے نبیوں کے ساتھ مل کر جنگ کی انہوں نے کفار کے مقابلے میں سب سے پہلے جس ہتھیار کی توجہ کی وہ استغفار تھا۔ کیونکہ استغفار کے ذریعہ ان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مڑجاتی تھی ۔ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق اس کی وجہ سے مضبوط ہوجاتا ۔ ان کے دلوں میں سے تمام خلجان اور غیر یقینی حالت ختم ہوجاتی ۔ تمام وساوس دور ہوجاتے اور وہ دروازہ بند ہوجاتا جس میں سے شیطان درآتا۔ اور یہ دروازہ ہمیشہ تب کھلتا ہے جب اللہ سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ انسان کی اس کی حمایت اور پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہے اور اس سوراخ سے جب شیطان داخل ہوتا ہے تو وہ ان کے پاؤں کو متزلزل کردیتا ہے ۔ وہ بار بار ڈگمگاتے لگتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ انہیں اللہ کی پناہ گاہ سے بہت دور لے جاکر بےآب وگیاہ صحراء میں سرگرداں کردیتا ہے۔ اللہ بتاتے ہیں کہ میری رحمت ان کے شامل ہوگئی ہے ۔ اس لئے شیطان انہیں مجھ سے کاٹ نہ سکا۔ لہٰذا وہ معاف کردیئے گئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اپنا ذاتی تعارف بھی کراتے ہیں کہ وہ غفور ہیں ‘ بخشنے والے ہیں اور بردبار ہیں ۔ غلط کاروں کو راندہ درگاہ نہیں کرتے اور نہ ہی سزادہی میں جلدی کرتے ہیں ۔ جب اللہ نے جان لیا کہ ان کے اندر اللہ کی تلاش کا داعیہ موجود ہے اور وہ اس سے جڑنا چاہتے ہیں اور اس نے جان لیا کہ وہ سرکشی نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ جان چھڑانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی غلامی سے فرار چاہتے ہیں تو وہ پھر اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔
Top