Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لئے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون ؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات پیش نظر رہے کہ تمام واقعات کی پشت پر اللہ کی تقدیر ہوتی ہے اور اس میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ‘ جس کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے ۔ ہر معاملہ جو پیش آتا اور ہر حادثہ جو واقعہ ہوتا ہے اس کی پشت پر اللہ کی تقدیر ہوتی ہے ۔ ہر حرکت اور ہر سکوں کے پیچھے دست تقدیر ہوتا ہے اور اس کائنات میں جو وقوعہ بھی پیش آتا ہوتا ہے اس کی پشت پر تقدیر ہوتی ہے ۔ وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ……………” جو نقصان لڑائی کے دن جب دو گروہ متقابل ہوئے ‘ تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا ۔ “ یہ نقصان محض اتفاق سے یا سوئے اتفاق سے ازخود پیش نہیں آیا۔ نہ وہ خوامخواہ بطور عبث پیش آیا۔ اس لئے کہ اس کائنات کے اندر ہونے والی ہر حرکت منصوبے اور دست قدرت کے مطابق ہوتی ہے اور مجموعی لحاظ سے ان واقعات کے پیچھے حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور مجموعی لحاظ سے یہ واقعات اس پوری کائنات کی اسکیم کے مطابق ہوتے ہیں ۔ اور اس کے باوجود وہ اس کائنات کے اندر جاری سنن الٰہیہ اور ان اٹل قوانین کے مطابق ہوتے ہیں جن کا کبھی بھی نہ تخلف ہوتا ‘ نہ ان میں کوئی تعطل ہوتا ہے اور نہ ہی وہ قوانین کسی کے ساتھ رورعایت کرتے ہیں۔ تقدیر کے مسئلے میں اسلامی تصور حیات اس قدر کامل ‘ شامل اور متوازن ہے ‘ جس کا مقابلہ آغاز انسانیت سے لے کر آج تک کوئی تصور حیات نہیں کرسکتا۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق اس کائنات کا ایک اٹل قانون ہے اور بعض ناقابل تعطل سنن الٰہیہ ہیں ۔ ان اٹل قوانین فطرت اور ناقابل انحراف سنن الٰہیہ کے پیچھے اللہ کا ارادہ کام کرتا ہے اور اللہ کی آزاد مشیئت ہے ‘ جو کسی قید میں مقید نہیں ہے ۔ اور ان سب یعنی سنن الٰہیہ اور مشیئت الٰہیہ کی پشت پر پھر اللہ کی حکمت مدبرہ ہے ۔ اور یہ تمام پھر اللہ کی حکمت مدبرہ کے موافق چلتے ہیں ۔ ناموس کی حکمرانی ہے اور سنن الٰہیہ میں ہر چیز جاری ہیں ، انسان بھی ان ان کا تابع و محکوم ہے ۔ انسان ان سنن الٰہیہ کے دائرے میں اپنے فعل ارادی کے ساتھ اپنے دائرہ اختیار کے اندر کام کرتا ہے ۔ اور وہ اپنی سوچ اور اپنی تدابیر کے مطابق جو کام کرتا ہے ‘ یہ سنن ان افعال پر بھی منطبق ہوتی ہیں اور اس پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ اللہ کی تقدیر اور مشیئت کے مطابق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں اللہ کی کوئی حکمت اور تدبیر بھی کام کرتی ہے ۔ اس نظام میں انسان کا ارادہ ‘ اس کی حرکت ‘ اس کی سوچ ‘ اس کی قوت عمل یہ سب کچھ سنن الٰہیہ کا ایک حصہ ہیں ۔ وہ ناموس کائنات کا حصہ ہیں ۔ ان انسانی افعال کے ساتھ بھی اللہ اپنا کام کرتے ہیں ‘ ان کو بھی وہ موثر بناتے ہیں اور یہ سب کچھ پھر بھی اس کے دائرہ قدرت کے اندرہوتا ہے ۔ ان میں سے کوئی چیز نوامیس فطرت اور سنن الٰہیہ کے دائرے سے خارج نہیں ہوتی ۔ اور نہ انسان کی کوئی حرکت اور سوچ ان سنن کے ساتھ متضاد ہوتی ہے یا ان کے بالمقابل ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ ترازو کے ایک پلڑے میں اللہ کے ارادے کے بالمقابل ہو۔ یہ صورت حال بالکل ممکن نہیں ہے ۔ اسلامی تصورحیات ایسا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان اس کا شریک بالمقابل نہیں ہے۔ نہ انسان اللہ کا دشمن ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اس کا وجود ‘ اس کی فکر ‘ اس کا ارادہ بخشا تھا ‘ اس کی تقدیر ‘ اس کی تدبیر اور زمین کے اندر اس کی فاعلیت اسے عطاکی تھی تو اس نے اس وقت ان انسانی قوتوں اور سنن الٰہیہ کے درمیان کوئی تضاد نہ رکھا تھا اور نہ ان کے درمیان کوئی مقابلہ رکھا تھا۔ نہ یہ چیزیں مشیئت الٰہیہ کے خلاف تھیں ۔ نہ اللہ کے نزدیک یہ سب امور اللہ کی گہری حکمت سے باہر تھے ۔ جو اللہ کی تقدیر کی پشت پر کارفرما ہے۔ اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کے اندر یہ بات رکھی گئی تھی کہ انسان اپنی تدبیر سے کام لے ۔ وہ متحرک ہو اور اس کائنات میں مؤثر ہو ۔ وہ سنن الٰہیہ کے بالمقابل کھڑا ہو اور وہ اس پر منطبق ہوں اور اللہ کی سنن کے تحت اس دنیا میں اسے لذت والم ‘ آرام وبے آرامی ‘ سعادت و شقاوت سے دوچار ہونا پڑے اور پھر اس کی ان تمام سرگرمیوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کرے جس کے احاطے میں یہ پوری کائنات ہے ‘ نہایت ہی توازن اور تناسق کے ساتھ ۔ یہ واقعات جو احد میں وقوع پذیر ہوئے ‘ وہ اسلامی تصور حیات کی مثال تھے ‘ یعنی تقدیر کے حوالے سے جو ہم بات کر آئے ہیں ۔ ان واقعات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سکھایا کہ فتح وشکست کے بارے میں اس کی سنت کیا ہے ۔ انہوں نے اللہ کی سنت اور اس شرط کی خلاف ورزی کی جو اس نے فتح کے لئے رکھی ہوئی تھی تو اس نے انہیں ان آلام اور ان مصائب سے دوچار کیا جو احد میں انہیں پیش آئے۔ لیکن بات یہاں آکر ختم نہیں ہوگئی ۔ اس مخالفت اور رنج والم کے پیچھے یہ تقدیر کام کررہی تھی کہ ان کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اسلامی صفوں میں منافقین کو چھانٹ کر علیحدہ کردے۔ اہل ایمان کے دلوں کو صاف کردے اور ان کے تصورات کے اندر جو ملاوٹ اور میل تھی اسے دور کردے یا ان کے کردار میں جو ضعف اور کمزوری تھی وہ دورہوجائے۔ بظاہر وہ رنج والم سے دوچار ہوئے ‘ لیکن اپنی جگہ اہل ایمان کے حق میں مستقبل کے اعتبار سے یہ خیر تھا ۔ اگرچہ یہ رنج والم بھی سنت الٰہی کے عین مطابق تھا ‘ اللہ کے سنن میں سے ایک سنت یہ بھی ہے جو مسلمان اسلامی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے آگے سرتسلیم خم کریں گے اور عموماً اسلامی نظام کی اطاعت کریں گے ‘ اللہ ان کی حمایت ورعایت کرے گا اور ان کی غلطیاں بھی ‘ اپنی انتہاء پر جاکر وسیلہ ظفر اور ذریعہ خیر ہوں گی ۔ اگرچہ وہ رنج والم سے دوچار ہوں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ رنج والم اور مصائب وشدائد کے ذریعہ تربیت ہوتی ہے ‘ اسلامی صفوں سے کھوٹ دور ہوتا ہے اور آئندہ مرحلے کی خوب تیاری ہوتی ہے ۔ اس مضبوط اور کھلے موقف پر مسلمانوں کے قدم جم جائیں گے ‘ ان کے دل مطمئن ہوں گے ‘ ان میں کوئی تزلزل نہ ہوگا ‘ کوئی حیرانی نہ ہوگی اور کوئی پریشانی نہ ہوگی ۔ اس طرح وہ اللہ کی تقدیر کو انگیز کریں گے ‘ اس کائنات میں سنن الٰہیہ کے مطابق اپنے معاملات سر انجام دیں گے ۔ انہیں یقین ہوگا کہ اللہ ان کی ذات اور ان کے ماحول میں فعال لمایرید ہے اور یہ کہ وہ تقدیر الٰہی کے آلات اور ذریعہ کا رہیں ۔ اللہ جس طرح چاہے اپنے آلات کار کو استعمال کرسکتا ہے ‘ یہ کہ ان کے درست فیصلے ‘ ان کے صائب فیصلے اور درست فیصلوں کے اثرات اور غلط فیصلوں کے نتائج سب کے سب اللہ کی تقدیر کے پردے سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ان میں اس کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور جب تک وہ اس راہ انقلاب پر گامزن رہیں گے ‘ ان کے لئے ہر مرحلہ خیر ہی خیر ہوگا۔
Top