Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 168
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا١ؕ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالُوْا : انہوں نے کہا لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کے بارے میں وَقَعَدُوْا : اور وہ بیٹھے رہے لَوْ : اگر اَطَاعُوْنَا : ہماری مانتے مَا قُتِلُوْا : وہ نہ مارے جاتے قُلْ : کہدیجئے فَادْرَءُوْا : تم ہٹادو عَنْ : سے اَنْفُسِكُمُ : اپنی جانیں الْمَوْتَ : موت اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
یہ وہی لوگ ہیں جو خودتو بیٹھے رہے اور ان کے جو بھائی بند لڑنے لگے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خودتمہاری موت جب آئے ‘ اسے ٹال کر دکھادینا۔ “
اہل اسلام کے دلوں کے اندر سکون پیدا کرنے ‘ ان کے دلوں اور ان کے ضمیر کو ‘ ان سنن الٰہیہ پر مطمئن کرنے کے بعد جو اس کائنات میں جاری اور ساری ہیں ‘ انہیں یہ بتانے کے بعد کہ تمام کام اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں ‘ اور یہ سمجھانے کے بعد کہ اللہ کی تقدیر کے پیچھے اللہ کی حکمت اور تدبیر کام کررہی ہوتی ہے ۔ اور یہ بات ذہن نشین کرنے کے بعد کہ موت کے لئے وقت مقرر ہے ‘ اس کا وقت پہلے سے طے شدہ ہے اور جنگ میں شریک نہ ہونا اسے موخر نہیں کرسکتا اور جنگ میں شرکت سے موت پہلے نہیں آسکتی اور یہ سمجھانے کے بعد کوئی محافظ موت سے حفاظت نہیں دے سکتا اور کوئی تدبیر موت کو روک نہیں سکتی ‘ غرض ان تمام امور کے بعد اب سیاق کلام میں ایک دوسری حقیقت کو لیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی ذات میں بھی عظیم ہے اور اس کے اثرات بھی نہایت ہی عظیم ہیں۔ یہ حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں وہ مردہ نہیں ہوتے ‘ وہ تو زندہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے رب کے ہاں مہمان خصوصی ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی ‘ مرنے کے بعد ‘ اسلامی جماعت کی زندگی سے منقطع نہیں ہوتی ‘ وہ بعد کے واقعات سے لاتعلق نہیں ہوتے ‘ وہ ان واقعات سے خود بھی متاثر ہوتے ہیں اور واقعات میں ایک موثر فیکٹر بھی ہوتے ہیں اور زندگی عبارت کس چیز سے ہے ؟ تاثیر اور تاثر ہی تو زندگی ہے ۔ یہاں معرکہ احد کے شہداء کی زندگی اور ان واقعات اور حادثات کے درمیان رابطہ قائم کردیا جاتا ہے جو ان کی شہادت کے بعد پیش آئے ۔ اس کے بعد گروہ مومن کی بات متصلاً بیان کردی جاتی ہے ‘ جس نے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پکار پر لبیک کہا۔ درآنحالیکہ وہ زخموں سے چور چور تھے ۔ وہ نکلے ‘ انہوں نے قریش کا تعاقب کیا ‘ یہ قریش اگرچہ جاچکے تھے لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ وہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں ۔ اس گروہ نے لوگوں کے اس ڈرامے کی کوئی پرواہ نہ کی کہ قریش پھر سے جمع ہورہے ہیں ۔ ذات باری پر توکل کی اور انہوں نے اس کارنامے کی وجہ سے اپنے ایمان کو حقیقت کا روپ دیا۔
Top