Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
(ایسے مومنوں کے اجر کو) جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا ……ان میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے
یہ وہ لوگ تھے جنہیں جنگ احد کی دوسری صبح رسول اللہ ﷺ نے پکارا نکلو کہ ابھی تلخ معرکہ ختم نہیں ہے اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے زخموں سے ابھی تک خون جاری ہے ۔ اور وہ کل ہی جان لڑا کر موت کے منہ سے نکلے تھے ۔ اور ابھی تک انہوں نے کل کے معرکہ کی ہولناکیوں کو بھولانہ تھا۔ ہزیمت کی تلخی ان کے منہ میں باقی تھی ‘ درد کی شدت میں ابھی تک کمی نہ آئی تھی ۔ مزید یہ کہ انہوں نے اعزہ و اقارب کی قیمتی جانوں کا نذرانہ کل ہی تو پیش کیا تھا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت بری طرح زخمی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پکارا تھا اور صرف انہیں پکارا تھا اور یہ دعوت اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی طرف سے لبیک کہنا ‘ ایک ایسافعل تھا جس کے اندر گہرے اشارات پائے جاتے ہیں ۔ اور یہ بڑے حقائق پر مشتمل ہے ۔ اور اس میں گہری حکمت پوشیدہ تھی ۔ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے ہوں کہ اس معرکے میں اہل ایمان کی آخری بات اور ان کا آخری شعور یہ نہ ہو کہ انہیں ہزیمت ہوئی ہے ۔ اور وہ شکست کھاچکے ہیں اور اس زخموں کی حالت میں کراہ رہے ہیں ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ کپڑے جھاڑیں اور قریش کا تعاقب کریں ۔ ان کا پیچھا کریں تاکہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ تو ایک ابتلاتھی ‘ ایک تجربہ تھا اور یہ اس معرکے کا کوئی آخری فیصلہ نہ تھا ۔ اور اس کے بعد بھی مسلمانوں کی قوت اپنی جگہ موجود ہے ۔ اور یہ کہ دشمن ابھی تک ضعیف ہیں ۔ یہ تو ایک بار تھی جس میں اچانک شکست ہوگئی ۔ اور ہم اس کا بدلہ لیں گے ۔ اگر ہم نے کمزوری اور بےاتفاقی کو دور کردیا اور اللہ اور رسول کے حکم کو تسلیم کیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ رسول اللہ قریش کے ذہنوں سے یہ بات نکالنا چاہتے ہوں کہ وہ فتح کے پھریرے اڑاتے ہوئے مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ اس لئے آپ نے اس معرکے میں شریک ہونے والوں کی معیت میں ان کا تعاقب کیا۔ اور اس سے قریش کو یہ جتلانا مقصود تھا کہ انہوں نے ابھی تک مسلمانوں کی قوت کو توڑا نہیں ہے ۔ اور یہ کہ ابھی تک ان میں تعاقب یا دوسری جنگ کی قوت باقی ہے ۔ جس طرح سیرت کی روایات میں آتا ہے اس تعاقب سے یہ دونوں مقاصد پورے ہوگئے۔ شاید رسول اکرم ﷺ مسلمانوں اور پوری دنیا کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ اس دنیا میں ایک نئی حقیقت کا ظہور ہوچکا ہے اور وہ نئی حقیقت جو اپنے ظہور کے بعد اب قائم ہوچکی ہے وہ یہ ہے کہ اس نئی تحریک کا اصل سرمایہ اس کا عقیدہ ہے ۔ یہی اس کا نصب العین ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی مقصد حیات نہیں ہے اور اس کے سوا اس کو زندگی میں کوئی اور ترجیح نہیں ہے ۔ مسلمان اس نظریہ حیات ہی کے لئے زندہ ہیں ‘ اس لئے اس نظریہ حیات کے بعد ان کے نفوس کی کوئی اور تمنا نہیں ہے ۔ اور وہ اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ اس وقت اس کرہ ارض پر یہ ایک بالکل نئی بات تھی ۔ لہٰذا یہ بات ضروری تھی کہ پوری دنیا کو معلوم ہوجائے اور خود مسلمانوں کو بھی اس کا شعور ہوجائے ‘ کہ یہ جدید نظریہ اب قائم ہوچکا ہے اور اب یہ اس کرہ ارض پر ایک انمٹ حقیقت ہے ۔ اور اس حقیقت کا اس سے بڑا اظہار نہ ہوسکتا تھا کہ احد میں اس قدر زخم کھانے کے بعد فدایان اسلام اپنے رستے زخموں کے ساتھ ایک غالب قوت کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوں ۔ ان کی جانب سے یہ اقدام ایک واضح روشن اور بالکل ایک خوفناک اقدام تھا ۔ اس میں توکل علی اللہ کی روشن مثال پائی جاتی تھی ۔ اور لوگ ان جانبازوں کو جو ڈرا رہے تھے کہ قریش پھر سے جمع ہورہے ہیں ‘ جس طرح ابوسفیان کے نمائندوں نے انہیں یہ بات پہنچائی تھی اور منافقین نے بھی قریش کے اس منصوبے کو خوفناک انداز میں پیش کیا کہ وہ ایسا کرنے والے ہیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ……………” جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ان سے ڈرو ‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا۔ اور انہوں نے جواب دیا ‘ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہتر کارساز ہے ۔ “ اس خوفناک صورت حال میں یہ تعاقب دراصل یہ اعلان تھا کہ اس کرہ ارض پر اب انقلاب اور یہ عظیم انقلاب اب حقیقت بن چکا ہے ۔ غرض یہ تھے وہ بعض پہلو جو رسول ﷺ کے اس حکیمانہ اقدام سے واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ سیرت کی بعض روایات سے ان لوگوں کے حالات کا پتہ چلتا ہے جنہوں نے زخموں کے اندر چکنا چور ہونے کے باوجود رسول ﷺ کی کال (پکار) پر لبیک کہا۔
Top