Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ‘ ان سے ڈرو “ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
محمد بن اسحاق نے عبداللہ ابن جارحہ ‘ ابوالسائب سے روایت کی ہے کہ رسول ﷺ کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب جو بنو عبدالاشہل سے تعلق رکھتے تھے ‘ وہ احد میں شریک تھے ۔ اس نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احد میں شریک ہوئے تھے ۔ میں تھا ‘ میرا بھائی تھا ‘ ہم لوٹے دونوں زخمی تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے موذن نے اعلان کیا کہ نکلو ‘ دشمن کا تعاقب کرنا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا یا بھائی نے مجھ سے کہا کیا اب ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ جنگ رہ جائے گی ۔ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور ہم دونوں شدید زخمی بھی ہیں ۔ ہم دونوں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکل پڑے ۔ میرا زخم بھائی سے ذرا کم تھا۔ جب اس کی طبیعت خراب ہوتی تو میں اسے پیچھے سے تھامتا ‘ یہاں تک کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ گئے ۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ احد کی جنگ بروز ہفتہ 15 شوال کو ہوئی تھی ۔ دوسرے دن 16 شوال کو رسول ﷺ کے موذن نے اذان دی ۔ اور حکم دیا کہ دشمن کا تعاقب کرنا ہے ۔ اور موذن نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہمارے ساتھ صرف وہ لوگ جائیں گے جو کل کے معرکے میں شریک ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھی جابر ابن عبدللہ ابن عمرو ابن حرام نے کہا کہ میرے باپ نے مجھے اپنی بہنوں کی نگرانی کے لئے چھوڑدیا تھا۔ میری سات بہنیں تھیں ۔ میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ ” برخوردار نہ یہ میرے لئے مناسب ہے اور نہ آپ کے لئے مناسب ہے کہ آپ ان سات عورتوں کو چھوڑ کر جہاد کے لئے نکلیں ۔ “ اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کا شرف تمہیں دے دوں۔ اس لئے تم بہنوں کے پاس رہو ۔ صرف ان کو رسول ﷺ نے اجازت دے دی اور وہ آپ کے ساتھ نکلے ۔ جب اس عظیم حقیقت کا اعلان ہوا ‘ تو اس قسم کے عظیم اور بےمثال واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔ لوگوں کی ذہنی دنیا میں انقلاب آیا۔ ایسے تربیت یافتہ نفوس قدسیہ تیار ہوئے جو صرف اللہ کو اپنا وکیل و مددگار سمجھتے تھے۔ وہ صرف ذات باری پر راضی تھے ‘ ذات باری ہی کو کافی سمجھتے تھے ۔ وہ ذات باری ہی کو یاد کرتے تھے اور جب سخت سے سخت حالات پیش آتے تو ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا اور جب لوگ انہیں مشکلات سے ڈراتے تو ان کا جواب یہ ہوتا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ” ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ۔ “
Top