Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ
: اللہ
لَآ
: نہیں
اِلٰهَ
: معبود
اِلَّا ھُوَ
: اس کے سوا
الْحَيُّ
: ہمشہ زندہ
الْقَيُّوْمُ
: سنبھالنے والا
اللہ وہ زندہ جاوید ہستی جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ‘ حقیقت میں اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔
یوں اس سورت کا آغاز ان منکرین اسلام اہل کتاب پر تنقید سے ہوتا ہے ‘ جو رسول ﷺ کی رسالت کا انکار کررہے تھے ‘ حالانکہ وہ اپنے دین کی بنیاد پر اور اہل کتاب ہونے کے ناطے نبوت ‘ رسالت ‘ کتب سماوی اور وحی الٰہی کے تصور سے واقف تھے ‘ اس لئے ان کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسلام لاتے اور رسول ﷺ کی تصدیق کرتے بشرطیکہ ان کی تصدیق صرف دلیل اور حجت کے اطمینان پر موقوف ہوتی۔ اس فیصلہ کن حملے میں ‘ ان تمام شبہات کی بیخ کنی کردی جاتی ‘ جو اہل کتاب کے دلوں میں پائے جاتے تھے ‘ یا جنہیں وہ جان بوجھ کر مومنین کے دلوں میں ڈالنا چاہتے تھے ‘ اس لئے ان کا پروپیگنڈا کرتے تھے ۔ اس تنقید میں ان راستوں اور ان دروازوں کی نشان دہی کردی گئی ہے جن کے ذریعہ یہ شبہات داخل ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انسدادی طور پر بتادیا گیا کہ اللہ کی آیات سے متعلق سچے مومنوں کا موقف کیا ہے اور ان کے بارے میں مخالفین اور منحرفین کی سوچ کیا ہے ۔ سورت کے اس آغاز میں سچے اہل ایمان کا تعلق باللہ ‘ اللہ کے دربار میں ان کی عاجزی اور ان کی التجاؤں کی ایک خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں ۔ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ “ یہ خالص اور صاف ستھری توحید دراصل ایک مسلمان کے عقیدہ اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیتی ‘ جن میں ملحدین اور مشرکین بھی شامل ہیں اور منحرفین اہل کتاب بھی شامل ہیں چاہے یہودی ہوں یا نصاریٰ ہوں ‘ اپنے تصورات اور عقائد کے اختلاف کے مطابق ‘ غرض توحید ایک مسلم اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز ہے ‘ اس لئے کہ یہاں نظام زندگی کا تعین تصور حیات اور عقائد پر ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ ہی جو نظام زندگی کا تعین کرتا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ خدائی میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ‘ وہ زندہ ہے ‘ اور حیات اس کی ذاتی صفت ہے ۔ وہ ہر قید سے آزاد ہے ، زندہ مطلق ہے ‘ وہ القیوم ہے ‘ اس کائنات کو اسی نے تھاما ہوا ہے ‘ زندگی اس کی وجہ سے قائم ہے ‘ ہر موجود اس کی وجہ سے موجود ہے ۔ پھر وہ سب کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ اس لئے اس کے بغیر کائنات میں نہ کوئی ہستی موجود رہ سکتی ہے اور نہ موجود ہوسکتی ہے۔ یہ ہے خط امتیاز ایک تصور حیات اور عقیدہ میں اور یہی فرق ہے ایک مسلم کے طرزعمل اور نظام زندگی میں بمقابلہ ایک غیر مسلم ‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اسلامی تصور توحید اور اسلامی عقائد اور ان کے عقائد باطلہ اور عقائد جاہلیت کے اندھیروں کے درمیان بھی امتیاز ہوجاتا ہے ۔ جاہلیت کے تصورات میں مشرکین عرب کے اس وقت کے تصورات بھی شامل ہیں اور یہود ونصاریٰ کے وہ منحرف شدہ تصورات بھی جن کے وہ قائل تھے ۔ قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ‘ یہ بات نقل کی ہے کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کا مقام دیتے تھے ‘ قرآن کریم نے یہودیوں کے جس باطل عقیدے کا ذکر کیا ہے آج یہودی جس کتاب مقدس کے قائل ہیں اس میں موجود ہے ‘ مثلاً سفر تکوین اصحاح ششم میں ذکر ہے۔ ” جب روئے زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور ان کی بیٹیاں پیدا ہوئیں ‘ تو خدا کے ” بیٹوں “ نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے جنا ان سے بیاہ کرلیا۔ تب خداوند نے کہا کہ میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوگی ۔ ان دنوں میں زمین پر جبار تھے اور بعد میں جب خداوند کے بیٹے انسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے تو ان کے لئے ان سے اولاد ہوئی ۔ یہی قدیم زمانے کے سورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے۔ “ مسیحی تصور ات میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ‘ قرآن کریم نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ تینوں میں سے ایک ہے “ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثٌ ثَلَاثَة……………اور ان کا یہ قول اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ المَسِیحُ ابنُ مَریَمَ……………” کہ اللہ مسیح بن مریم ہیں “ اور یہ کہ انہوں نے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو اللہ کے سوا دوالٰہ بنالیا تھا۔ اور انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو بھی اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا ‘ مشہور مصنف آرنلڈ اپنی کتاب تبلیغ اسلام میں لکھتے ہیں : ” ظہور اسلام سے تقریباً ایک سو سال پہلے قیصر یوستینیان روسی سلطنت میں اتحاد پیدا کرنے میں بظاہر کامیاب رہا تھا ‘ مگر اس کی وفات کے بعد سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ‘ کیونکہ دارالسلطنت اور صوبجات کے درمیان ایک مشترکہ قومیت کا جذبہ بالکل باقی نہیں رہا تھا ۔ ہرقل نے کوشش کی تھی کہ شام کے ملک کو مرکزی حکومت کے ساتھ دوبارہ وابستہ کرے اور اسے اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی تھی ‘ مگر بدقسمتی سے اس نے مصالحت کے لئے جو طریقے اختیار کئے ‘ ان سے اختلاف رفع ہونے کی بجائے اور شدید ہوگیا ‘ لوگوں کے دلوں میں مذہبی تعصبات نے قومی جذبے کی جگہ لے رکھی تھی لہٰذا قیصر نے کوشش کی کہ دین مسیحی کی تفسیر وتشریح ایسے طریق پر کرے جس سے مخالف فرقوں کے باہمی مناقشات مٹ جائیں اور جو لوگ دین سے منحرف ہوچکے ہیں ان کو آرتھوڈوکس ‘ کلیسا اور مرکزی حکومت کے ساتھ متحد کردیں ۔ خلقیدونہ کے مقام پر مسیحی علماء کی جو مجلس 451 ء میں بیٹھی تھی اس نے اس عقیدے کا اعلان کیا تھا کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو اقنوم تسلیم کرنے چاہئیں ‘ اس طور پر کہ ان میں کوئی اختلاط یاتبدیلی یا تقسیم یا علیحدگی نہیں ہے ۔ ان کی فطرتوں کا جو اختلاف ہے جو ان کے اجتماع سے باطل نہیں ہوجاتا بلکہ ہر اقنوم کے خواص برقرار ہیں اور ایک ذات اور ایک وجود میں موجود ہیں ۔ مگر اس طرح نہیں کہ یہ خواص دوہستیوں میں منقسم یا الگ الگ ہوں بلکہ وہی ایک بیٹا ہے ، اکلوتا ، کلمۃ اللہ مگر مونوفرائٹ (Monophysites) فرقے نے اس عقیدے کو رد کردیا کیونکہ وہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ” مسیح کی ذات میں صرف ایک اقنوم ہے ‘ یہ ذات مرکب ہے جس میں تمام ربانی اور انسانی صفات شامل ہیں ۔ مگر وہ وجود جس میں یہ صفات ہیں ‘ اس میں دوئی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب وحدت ہے ۔ “ اس فرقے کے لوگ خاص طور پر شام ‘ مصر اور رومی سلطنت کے باہر ملکوں میں آباد تھے ۔ چناچہ ان دونوں فرقوں کے درمیان اس مسئلے پر دوصدیوں تک گرماگرم مباحثہ جاری رہا ‘ یہاں تک کہ ہرقل نے آکر فریقین کے درمیان مونوتھیلتزم (Monotheletism) کے عقیدے کے ذریعے سے مصالحت پیدا کرنی چاہی ۔ اس عقیدے کا مفہوم یہ تھا کہ اقانیم کی دوئی کو تسلیم کرتے ہوئے مسیح کی واقعی زندگی میں ذات کی وحدت کو قائم رکھا جائے ‘ اس لئے کہ ایک واحد ذات میں حرکت وعمل کے دوسلسلے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ چناچہ مسیح ‘ جو ابن اللہ ہیں ‘ ایک ہی ذریعے اور وسیلے سے انسانی اور ربانی دونوں قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘ یعنی کلمہ مجسم میں ایک ہی مشیئت کارفرما ہے۔ “ ” مگر ہرقل کا بھی وہی انجام ہوا جو بہت سے صلح کرانے والوں کا ہوا کرتا ہے ‘ کیونکہ نہ صرف مناظرے کی آگ اور بھڑک اٹھی بلکہ لوگوں نے قیصر پر بےدینی کا الزام لگایا اور دونوں فرقوں کو مورد عتاب بننا پڑا۔ “ ایک دوسرے مسیحی مسٹر کینن ٹیلر لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے وقت مشرقی عیسائیوں کی حالت یہ تھی کہ یہ لوگ درحقیقت مشرکین تھے ‘ وہ شہداء کے ایک طبقے کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی طرح عیسائی پیروں اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اور ان کا کم سے کم جو شرکیہ عقیدہ تھا وہ یہ ہے کہ بقول ان کے وہ ان الہٰوں کی بندگی محض اس لئے کرتے ہیں کہ کی بندگی کی وجہ سے انہیں قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى …………… غلط اعتقادات اور تصورات کے اس جنگل اور ڈھیر میں ‘ جن کی طرف اس سے قبل ہم اشارہ کرچکے ہیں ‘ اسلام آیا اور اس نے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا فیصلہ کن ‘ صریح اور واضح ممتاز تصور دیا۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ ‘ وہی زندہ ہے اور وہی ہے جو تھامنے والا ہے ۔ “………یہ عقیدہ اور یہ تصور حیات ایسا تھا کہ اس نے فریقین کے راستے جدا کردئیے ۔ دونوں کا طرز عمل اور دونوں کا طریق زندگی جدا کردیا ………جس شخص کے نظریہ اور شعور میں یہ ہو کہ اللہ ایک وحدہ لاشریک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ وہ زندہ ہے اور اس کے سوا اس مفہوم میں کوئی زندہ نہیں ہے ‘ تمام دوسرے موجودات کا وجود اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور وہی ہے جو تمام موجودات اور تمام زندوں کو تھامے ہوئے ہے ………جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اور ان صفات کے ساتھ ہو ‘ اس کا نظام زندگی اور طرز حیات یقیناً اس شخص سے مختلف ہونا چاہئے جس کی ذہنی دنیا پر غلط اور وہم پرستانہ تصورات کے بادل چھائے ہوئے ہوں جن کا اوپر ہم نے ذکر کیا ۔ اس قسم کے غلط تصورات کے حامل شخص کی زندگی پر وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ جو اس شخص کی زندگی پر ہوسکتے ہیں ایسے خدا کا قائل ہو جو اس کی زندگی میں فعال اور متصرف ہے اور علی کل شیئ قدیر ہے۔ یہ صرف توحید خالص کی برکت ہے جس کے نتیجے میں ایک انسان صرف ایک ہی الٰہ کی بندگی کرسکتا ہے ۔ ایسے تصور میں کوئی شخص کسی غیر اللہ سے کوئی امداد طلب نہیں کرتا ۔ وہ صرف اللہ سے نصرت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ نہ وہ غیر اللہ سے نظام حیات اور نظام قانون اخذ کرتا ہے ‘ نہ وہ اخلاق وآداب غیر اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ نہ وہ اجتماعی اور اقتصادی نظام اغیار سے لیتا ہے ۔ غرض ایک موحد اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں غیر اللہ سے کچھ اخذ نہیں کرتا اور نہ ہی حیات بعد الممات کے تصور میں غیر اللہ کو اہمیت دیتا ہے ۔ رہے وہ کھوٹے ‘ ٹیڑھے ‘ پیچیدہ شرکیہ جاہلی عقائد تو ان کے حاملین کا ایک رخ ہوتا ہے نہ ان کو قرار وثبات حاصل ہوتا ہے ‘ نہ ان میں حدود حلال و حرام ہوتے ہیں ‘ نہ ان میں صحیح اور غلط کے اندر کوئی تمیز ہوتی ہے ‘ نہ نظام اور شریعت میں ‘ نہ آداب واخلاق میں ‘ نہ طرزعمل اور سلوک میں ‘ غرض یہ تمام امور تب طے ہوتے جب کسی شخص کے عقیدے اور نظریے میں ان کی جہت طے ہوتی ہے ‘ اس کے بعد ایک انسان ‘ اس مصدر ‘ اس جہت کی طرف متوجہ ہوکر اس کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے۔ اور جب اسلام نے طے کردیا کہ …………… اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُتو اس طرح ایک مسلمان اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس طرح اس کے اور دوسرے عقائد والوں کے راستے جدا ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اعتقادی جدائی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی کا مزاج بالکل علیحدہ ہوگیا ہے ۔ اسلامی زندگی ‘ اپنے تمام عناصر ترکیبی کے ساتھ پوری کی پوری اسلامی تصور حیات سے تشکیل پاتی ہے ۔ اور اسلامی تصور حیات ایک خالص اور مکمل توحید پر مبنی ہے اور یہ عقیدہ توحید اس وقت انسانی ضمیر میں مستقلاً قرار نہیں پکڑتا جب تک اس کے کچھ عملی آثار زندگی میں مرتب نہ ہوں ‘ مثلاً زندگی کے ہر شعبے میں عقیدہ توحید کے ساتھ انسانی نظام شریعت بھی اللہ تعالیٰ سے اخذ کرے اور زندگی کی ہر سرگرمی اور تگ ودو میں ذات خداوندی کی طرف متوجہ ہو۔ توحید خالص کے بیان کے بعد ‘ ایسی جامع توحید کہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا کوئی شریک نہ اور اس کی صفات میں کوئی شریک نہ ہو ‘ اب اس منبع اور مصدر کا بیان ہوتا ہے جس سے کہ ایک مسلمان اپنا دین اخذ کرتا ہے۔ جہاں سے کتب سماوی اور رسولوں کی تعلیمات نازل ہوتی ہیں ۔ یعنی جہاں سے ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں نے اپنے نظام زندگی اخذ کیا ہے ۔
Top