Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
وہ لوگ جو اللہ کی ہدایات واحکامات ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں ‘ جو خلق خدا سے راستی اور عدل کا حکم دینے کے لئے اٹھیں ‘ ان کو دردناک سزا کی خوشخبری سنادو
یہ ہے ان لوگوں کا حتمی انجام ‘ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ‘ یہ عذاب دنیا وآخرت دونوں میں ہوگا ۔ یہاں بھی وہ اس کی توقع کریں اور آخرت میں تو یقینی ہے ہی………دنیا اور آخرت میں ان کے اعمال باطل ہوں گے ‘ بےاثر ہوں گے ۔ یہ عجیب تصویر کشی ہے ‘ حبوط کا لغوی معنی ہے ۔ کسی مویشی کا زہریلی گھاس چر کر پھول ۔ بظاہر تو اس صورت میں ایک مویشی خوب موٹاتازہ ہوجاتا ہے ‘ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر کار برباد اور ہلاک ہوجاتا ہے ‘ یہاں بظاہر تو ان کے بڑے بڑے کارنامے ہیں لیکن قیامت میں ان کا کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ ان کا کوئی حامی و مددگار ہوگا۔ قرآن کریم نے آیات الٰہی کا انکار کے ساتھ ساتھ انبیاء (علیہم السلام) کے قتل کا ذکر بھی کیا ۔ جو ناحق قتل کئے گئے ‘ اس لئے کہ قتل انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ کبھی حق یکجا نہیں ہوسکتا۔ اور ساتھ ہی یہ ذکر کیا کہ وہ لوگ ان افراد کو بھی قتل کرتے تھے جو عدل و انصاف کا حکم دیتے تھے ۔ یعنی وہ لوگ انہیں اس لئے قتل کرتے تھے کہ وہ نظام الٰہی کے قائل اور داعی تھے جو عادلانہ نظام تھا۔ اور اس کے سوا کسی دوسرے نظام کے ذریعہ عدل کا قیام ممکن ہی نہ تھا۔ ان تمام صفات کے ذکر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ توبیخ اور تخویف یہود کے لئے تھی ۔ کیونکہ یہ ان کی تاریخی صفات ہیں اور ان صفات کے ساتھ وہ مشہور ہیں ۔ جہاں بھی ان کا ذکر ہو ذہن اس کی طرف جاتا ہے ۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں نصاریٰ سے خطاب ہو ‘ کیونکہ نزول قرآن کے زمانے تک انہوں نے بھی اپنے مذہب کے مخالفین کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا تھا۔ کیونکہ جو شخص بھی رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کے خلاف ہوتا تھا وہ اسے قتل کردیتے تھے ۔ ان میں وہ مسیحی بھی شامل تھے جو توحید کے قائل تھے ۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بشر سمجھتے تھے ۔ اور یہ لوگ ایسے تھے جو نظام حکومت میں عدل و انصاف کا پرچار بھی کرتے تھے ۔ یہود ونصاریٰ کے علاوہ یہ حکم ہر زمان ومکان میں تمام ان لوگوں پر صادق آتا ہے جو اس قسم کی متشددانہ حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں اور ہر دور میں کبھی بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ قرآن کے الفاظ ” وہ لوگ جو آیات کا انکار کرتے ہیں ۔ “ سے مراد کیا ہے ۔ ان سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی آیات الٰہی کا انکار کرکے کلمہ کفر ادا کردے ۔ اس لفظ کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ کوئی وحدت الٰہ یا عقیدہ توحید کا قائل نہ ہو ‘ پھر وہ صرف اللہ کی بندگی کا قائل نہ ہو ۔ اور اس میں یہ بات از خود آجاتی ہے کہ کوئی مصدر اور منبع کا قائل نہ ہو جہاں سے انسانی زندگی کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے اور حسن وقبح کی اقدار کا تعین کرنا ہے یعنی کتاب اللہ کا ‘ اس لئے جو شخص ان امور میں بھی اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرے گا وہ بھی مشرک تصور ہوگا اور الوہیت کا منکر شمار ہوگا۔ اگرچہ وہ فقط زبان سے اسے ایک ہزار بار جھپتا رہے۔ اس مفہوم کا اظہار آنے والی آیات میں ملے گا۔
Top