Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ
: جب
قَالَتِ
: جب کہا
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
يٰمَرْيَمُ
: اے مریم
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُبَشِّرُكِ
: تجھے بشارت دیتا ہے
بِكَلِمَةٍ
: ایک کلمہ کی
مِّنْهُ
: اپنے
اسْمُهُ
: اس کا نام
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
وَجِيْهًا
: با آبرو
فِي
: میں
الدُّنْيَا
: دنیا
وَالْاٰخِرَةِ
: اور آخرت
وَمِنَ
: اور سے
الْمُقَرَّبِيْنَ
: مقرب (جمع)
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ تجھے ایک فرمان کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ دنیا وآخرت میں معزز ہوگا ‘ اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔
حضرت مریم (علیہ السلام) اپنی پاکیزگی ‘ اپنی یکسوئی اور اپنی پیہم عبادت گزاری کی وجہ سے اس بات کی اہل ہوئیں کہ وہ اس کے اس فعل کو قبول کرسکیں اور اس عظیم واقعہ کے لئے تیار ہوسکیں ۔ اور دیکھئے اب وہ تیار ہیں اور اب ملائکہ ان کے ساتھ ہمکلام ہورہے ہیں ۔ انہیں اطلاع دی جاتی ہے ۔ إِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ” اور جب فرشتوں نے کہا ” اے مریم ! اللہ تجھے ایک فرمان کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اس کا نام مسیح بن مریم ہوگا۔ دنیا وآخرت میں معزز ہوگا ‘ اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی اور وہ ایک مرد صالح ہوگا۔ “ اس آیت میں بات پوری طرح کھول کر انہیں بشارت دی گئی ہے ۔ یہ بشارت اللہ کے کلام (فرمان) سے متعلق ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ نحو کے اعتبار سے لفظ مسیح کلمہ کا بدل یعنی کلمہ مسیح ابن مریم ہیں ۔ اب اس تعبیر کلام کے بعد کوئی بات ہی نہیں رہتی ………یہ اور اس قسم کے دوسرے بیشمار امور ‘ اصل غیبی امور ہیں اور ان کی ماہیت تک رسائی پوری طرح ممکن نہیں ہوتی ۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ امور ان متشابہات میں سے ہوں ‘ جن کے بارے میں اس سورت کے آغاز میں کہا گیا : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ” وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے ۔ اس کتاب میں دوطرح کی آیات درج ہیں ‘ ایک محکمات ‘ جو کتاب کی اصل بنیادیں ہیں اور دوسری متشابہات ‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ‘ وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ اور ان کو معنی پہنانے کی توثیق کرتے ہیں ۔ “………لیکن اس معاملے کا سمجھنا بہت ہی آسان ہے اگر ہم اسے اللہ ترسی کے ساتھ سمجھنا چاہیں ۔ اور اللہ کی کاریگری اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہمارے ذہن میں ہوں اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ اللہ کی مشیئت اور حدود وقیود سے آزد ہے جو اس نے اس جہاں رانی کے لئے خود وضع کئے ہیں ۔ اللہ نے جب چاہا تو اس نے مٹی سے آدم کو پیدا کیا ‘ اب تخلیق آدم براہ راست مٹی سے ہوئی اور مٹی میں نفخ روح ہواہو یا ابتدائی جرثومہ پیدا کیا گیا ہو اور وہ وجود آدم پر منتج ہوا۔ میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ تخلیق آدم مجسمے سے ہوئی یا جرثومے سے ۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں میں وہ راز راز ہی رہتا ہے ۔ جسے ہم رازحیات کہتے ہیں ۔ وہ راز جس نے پہلی مخلوق کو حیات عطا کی ۔ یا جس طرح آدم کے پہلے مجسمے میں روح ڈالی گئی یا جرثومے میں ڈالی دونوں صورتوں میں یہ ایک عظیم اعجاز اور معجزہ ہے ۔ اس لئے کہ جرثومہ زندہ ہو یا پورے انسان کی زندگی میں یکدم روح ڈال دی جائے ۔ دونوں صورتیں معجزہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ زندگی کہاں سے آئی ؟ کیسے آئی ؟ بہرحال ہم یہ بات قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ زندگی مٹی اور ان تمام مردہ عناصر سے علیحدہ کوئی چیز ہے ۔ یہ ایک زائد چیز ہے ۔ یہ عناصر سے علیحدہ ایک حقیقت ہے ۔ اس کے کچھ آثار ہیں ۔ اس کی کچھ علامات ہیں جو مٹی یا دوسرے عناصر کے اندر موجود نہیں ہیں ۔ نہ دوسرے مردہ مادیات میں موجود ہوتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ راز یعنی حیات کی اصلیت کیا ہے ؟ یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس حقیقت کا انکار کرنے کے لئے ہم صرف یہ کہہ دیں کہ ہم نہیں جانتے ۔ جیسا کہ آج کل مادہ پرست عاجز آکر یہ کہہ جاتے ہیں لیکن ان کی اس بات کو نہ کوئی عقلمند آدمی اہمیت دیتا ہے نہ کوئی عالم اسے تسلیم کرتا ہے۔ اس راز کو ہم اس حقیقت کے باوجود نہیں جانتے کہ ہم نے راز حیات کے پانے کے سلسلے میں آج تک انتہائی کوششیں کیں لیکن وہ راز ہم نہ پاسکے ۔ اس لئے کہ ہم نے اس راز کو معروف مادی ذرائع سے پانے کی کوششیں کیں ۔ اور وہ اکارت گئیں ۔ ہم نے زندگی کو موت کے جنگل سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔………ہم نہیں جانتے لیکن اللہ جس نے موت وحیات کی تخلیق کی وہ تو جانتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ” اس نے اپنی روح اس میں پھونک دی “ اور اس کا اظہار اس نے لفظ کُن فَیَکُونُ سے کیا ۔ یعنی ” ہوجا “ پس ہوگیا۔ اب یہ نفخ روح کیا ہے ؟ کس طرح حالت موت پر یہ نفخ روح ہوتی ہے اور وہ حالت حیات میں بدل جاتی ہے اور یہ راز لطیف راز فہم سے باہر رہتا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ وہ ماہیت وکیفیت ہے جس کا ادراک عقل بشری کے دائرہ قدرت سے باہر ہے ۔ کیونکہ یہ اس کی شان اور مقام سے باہر ہے ۔ اسے یہ قدرت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اس کا ادراک کرسکے ۔ اس کے کاسہ سر میں یہ سمندروں جیسی حقیقت سماہی نہیں سکتی ؟ اس لئے انسان کا ایک اپنا مقصد تخلیق ہے ۔ اس کے یہاں کچھ فرائض ہیں ۔ یعنی فریضہ خلافت فی الارض اس کے لئے اسے اس راز سے آگاہی ضروری نہیں ہے ۔ وہ یہاں حیات وموت کے کاروبار کے لئے نہیں پیدا کیا گیا تاکہ اسے حیات کی ماہیت بنائی جائے ۔ اسے نفخ روح کی کیفیت سے آگاہ کیا جائے اور زندگی کی یہ پہلی سیڑھی پر اس زندگی کا اتصال ذات آدم سے کیسے ہوا ؟ جب ان میں زندگی کاست ڈالا گیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جب انہوں نے حضرت آدم میں اپنی روح پھونکی تو اس کی وجہ سے حضرت آدم کو یہ اعزاز حاصل ہوا یہاں تک کہ ان کو ملائکہ پر بھی فوقیت دی گئی ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ اعزاز اور یہ حیات جرثومے اور میکر بادت کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے ۔ یہی وہ نفخ روح ہے جس کی وجہ سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر انسان ایک ایسی جنس ہے ۔ اس کی تخلیق خاص طور پر علیحدہ ہوئی ہے ۔ اور اس کائنات میں اس کا معتبر اور مکرم مقام ہے ۔ جو دوسری زندہ چیزوں کو حاصل نہیں ہے۔ بہرحال یہاں ہمارا موضوع تخلیق انسان نہیں ہے ۔ سیاق کلام میں کچھ دیر کے لئے ہم نے اسی نکتے پر اس لئے روشنی ڈالی ہے کہ بعض اوقات ایک قاری کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے۔ کہ انسان کی پیدائش اس طریقے پر کیسے ممکن ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں راز حیات سے ہمیں آگاہ فرماتے ہیں ۔ اگرچہ ہم اس کی ماہیت نہیں پاسکتے ۔ اگرچہ ہم مردہ میں نفخ روح کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتے لیکن راز حیات کو تو سمجھ سکتے ہیں …………حضرت آدم (علیہ السلام) کو براہ راست پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے پھر پیدائش انسانیت کے لئے ایک طبعی راہ متعین کردی ۔ یعنی میاں بیوی کے ملاپ کے نتیجے میں قافلہ انسانیت رواں دواں ہوا۔ یعنی بیوی کے پیدا کردے انڈے کے ساتھ مرد کے جرثومے کے ملاپ یوں گود ہری ہوئیں ‘ نسلیں چلیں جس طرح یہ انڈہ زندہ ہے ۔ اس طرح یہ جرثومہ بھی زندہ ہے ۔ دونوں متحرک ہیں۔ قافلہ حیات اس شاہراہ پر چل پڑا اور لوگ اس کے عادی ہوگئے ۔ اب ایک مقام ایسا آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیش پا افتادہ راستے کو بدل دیا ۔ مروجہ اصل ایک محدود وقت کے لئے معطل کردیا گیا۔ ایک فرد کے بارے میں اس قاعدے کو معطل کردیا اور ایک مثال ایسی پیدا کردی گئی جو آدم (علیہ السلام) کی شکل میں ہو۔ اگرچہ بتمامہ اس جیسی نہ ہو ۔ یہاں اب صرف عورت سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ وہی روح اس عورت میں پھونک دی جاتی ہے جس کی ابتدائی تخلیق ہوئی ۔ اور اس عورت کے رحم میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ۔ یہاں لاہوتی سوالات پیدا ہوئے ۔ کیا یہ نفخ کلمہ ہے ؟ کیا کلمہ ارادے کے متوجہ ہونے کا نام ہے ؟ کیا کلمہ کن ہے ؟ جو کبھی حقیقت ہوتا ہے اور کبھی محض توجہ ارادہ سے کنایہ ہوتا ہے۔ کیا کلمہ خود حضرت عیسیٰ ہیں یاکلمہ وہ ہے جس سے وہ وجود میں آئے ؟…………یہ تمام مباحث ایسے ہیں جن سے شبہات ہی حاصل ہوسکتے ہیں ۔ ان مباحث کے نتیجے میں یقین حاصل نہیں ہوتا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ایک زندگی ایسی وجود میں لانی تھی جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ اس نے اپنے بےقید ارادے کے ذریعے اسے وجود بخشا ۔ اس زندگی میں اپنی جانب سے ایک روح پیدا کی ۔ ہمیں اس روح کے آثار تو نظر آتے ہیں لیکن ہم اس کی ماہیت اور کیفیت ادراک سے قاصر ہیں ۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم اس سے قاصر رہیں ۔ اس لئے کہ اس ادراک کی وجہ سے ہماری اس قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا جو ہمیں اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے ۔ یہ معاملہ ‘ اس صورت میں بہت سہولت کے ساتھ سمجھاجاسکتا ہے اور اس صورت میں اس کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی شبہ بھی پیدا نہیں ہوتا…………غرض ملائکہ نے حضرت مریم کو بشارت دی ۔ اس بشارت میں اللہ کی جانب سے فرمان آنا تھا ‘ اس فرمان کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم بتایا گیا۔ ان کی نوع ‘ ونسب کا بھی ذکر کردیا گیا ۔ نسب نامہ مان کی طرف راجع ہوا۔ بشارت میں ان کی صفات اور اللہ کے ہاں ان کے لئے رتبہ بلند کا ذکر کیا گیا ۔ دنیا وآخرت میں ان کی وجاہت کا ذکر بھی ہوا اور یہ اعلان بھی ہوا کہ وہ اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ اور یہ ذکر بھی ہوا کہ پیدا ہوتے ہی اس سے معجزات کا ظہور شروع ہوگا۔” گہوارے “ ہی میں لوگوں سے باتیں شروع کردے گا ۔ یعنی جوانی میں بھی بات کرے گا ۔ اور اس کی صفات میں سے اہم صفت یہ ہوگی کہ وہ قافلہ صالحین میں سے ہوگا۔
Top