Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 65
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَھْلَ : اے الْكِتٰبِ : اہل کتاب لِمَ : کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْٓ : میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَآ : اور نہیں اُنْزِلَتِ : نازل کی گئی التَّوْرٰىةُ : توریت وَالْاِنْجِيْلُ : اور انجیل اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم عقل نہیں رکھتے
اے اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑتے ہو ؟ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہیں ‘ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ہو۔
درس 25 ایک نظر میں سورت کا یہ حصہ بھی انہیں خطوط پر چلتا ہے ‘ جس پر ابتداء ً یہ سورت چلی آرہی ہے ۔ یعنی اہل کتاب اور جماعت مسلمہ کے درمیان برپا معرکہ آرائی ‘ یعنی فریقین کے درمیان نظریاتی جنگ ‘ اور دشمنان دین اور دین اسلام کے خلاف جو حیلہ سازی ومکاری یعنی جو فریب کاری اور دھوکہ بازی ‘ جو کذب وافتراء اور مختلف قسم کی سازشیں اور تدابیر اختیار کرکے حق و باطل میں ہر وقت التباس پیدا کرتے تھے ۔ شکوک و شبہات پھیلاتے تھے ۔ اور جس طرح اس امت کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر وقت گھات میں بیٹھے رہتے تھے اور جس طرح وہ بلا ناغہ مسلسل کام کررہے تھے ۔ ان کا ازالہ اور جواب ‘ اور اس حصے میں مسلمانوں کو سمجھایا جارہا تھا کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ اس طرح کریں کہ جس حق پر قائم ہیں اس پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں اور یہ یقین پیدا کریں کہ ان کے دشمن باطل موقف پر کھڑے ہیں۔ نیز اس سورت میں متنبہ کیا گیا تھا کہ دشمن تمہارے بارے میں کیا کیا منصوبے بناتے ہیں ۔ آخر میں پھر ان دشمنوں کی تشریح بھی کردی گئی تھی ۔ اور بتایا گیا تھا کہ ان کا مزاج ‘ ان کے اخلاق ‘ ان کے اعمال اور ان کی نیتیں کیسی ہیں ۔ اور یہ باتیں کھول کر جماعت مسلمہ کے سامنے رکھدی گئیں تاکہ وہ اپنے دشمنوں کو اچھی طرح جان لے ۔ اور وہ جس علم ومعرفت کا دعویٰ کرتے تھے ۔ اس کی قلعی بھی کھول دی گئی تھی ۔ اور پھر جن مسلمانوں کو وہ دھوکہ دے رہے ‘ ان کا اعتماد ان پر سے اٹھادیا تھا۔ انہیں ان سے متنفر کیا گیا ۔ اور ان کی مکاریوں کو طشت ازبام کردیا گیا تھا کہ وہ نہ کسی کو دھوکہ دے سکیں اور نہ طمع کاری کرسکیں ۔ یہ تھے مضامین پہلے سبق کے ۔ لیکن اس سبق میں بھی اہل کتاب یعنی یہود نصاری کے ساتھ بحث ہے ‘ لیکن یہاں بتایا گیا ہے کہ خصوصاً ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کا موقف اور نظریہ تو بادی النظر میں غلط ہے ۔ یہودی سمجھتے تھے ‘ کہ وہ یہودی تھے ‘ عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ وہ عیسائی تھے ۔ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودیت اور نصرانیت دونوں کے وجود میں آنے سے بھی پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ وہ تورات وانجیل کے نزول سے بھی پہلے تشریف لائے تھے ۔ لہٰذا ان کے بارے میں اس قسم کے دعوے کرنا محض وہم ہے ۔ جس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو دین حنیف پر تھے ۔ جو سیدھے راستے کا نام ہے ۔ اور ان کے دوست اور پیروکار کہلانے کے مستحق وہی لوگ ہیں جو اس طریقے پر ہوں ۔ اور اللہ بھی اہل ایمان کا دوست ہوتا ہے ۔ لہٰذا ان لوگوں کے بارے میں یہ دعوے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو اور دوست ہیں باطل قرار پاتے ہیں ۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ رسولوں کے بارے میں اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اہل اسلام تمام رسولوں کو برحق تسلیم کرتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ……………” ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور اللہ صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔ “ (68 : 3) اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اہل کتاب یہ مجادلہ کیوں کرتے ہیں ؟ اس میں پردہ راز کیا ہے ؟ بتایا جاتا ہے کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین کے معاملے میں گمراہ کردیں ‘ ان کے عقائد میں شبہات پید اکئے جائیں ۔ چناچہ اس سلسلے میں ان کی گوشمالی کی جاتی ہے ۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (70) يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اے اہل کتاب کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کررہے ہو ‘ اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔ “ اس کے بعد جماعت مسلمہ کو ان سازشوں کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ۔ جو سازشیں وہ اہل ایمان کے عقائد ‘ ان کے اعتماد اور ان کے اطمینان کے خلاف وہ خفیہ طور پر کرتے تھے ۔ اور نہایت ہی مکاری سے کام لیتے تھے اور وہ اسکیم یہ تھی کہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام کا اعلان کریں گے اور شام کو پھر واپس اپنے کفر کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اس کا مقصدیہ تھا کہ اہل اسلام میں سے جو لوگ ثابت قدم نہیں ہیں ان کے دل میں یہ خلجان ڈالدیں کہ اہل کتاب صبح مسلمان ہوئے اور شام کو انہوں نے کفر کیوں اختیار کرلیا ‘ اور ظاہر ہے کہ ہر جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ثابت قدم نہیں ہوتے ۔ خصوصاً جبکہ ان کے نزدیک اہل کتاب کتب اور ادیان کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے ۔ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ” اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کردو ‘ شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں۔ “ یہ ان کا نہایت ہی مذموم منصوبہ تھا ۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے ‘ اہل کتاب کے اجتماعی اخلاق کیا ہیں اور یہ کہ معاہدات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کی امانت ودیانت مسلم ہے ۔ لیکن ان میں اکثر ایسے ہیں ان میں دیانت نام کو نہیں ہے ۔ اور انہوں نے اپنی اس بددیانتی اور بدعملی سے اپنے مذہبی عقائد میں سے بعض دلائل تلاش کرلئے تھے ۔ حالانکہ اہل کتاب کا اصل دین ایک برحق دین ان باتوں کے ساتھ ان کے دین کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے ‘ کہ اگر تم اس کے اعتمادپر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دیدو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کردے گا ‘ اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملے میں اس پر بھروسہ کرو وہ ادا نہ کرے گا۔ الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ “ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ۔ یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر کیا ہے ۔ یہ کہاں سے اٹھتا ہے اور یہ کہ اس کا تعلق کس طرح اللہ خوفی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (76)إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خلاق لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا ۔ وہ اللہ کا محبوب بنے گا ۔ کیونکہ پرہیز گار لوگ اللہ کو پسند ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے عہد اور قسموں کو تھوڑی قیمت دے کر بیچ ڈالتے ہیں تو ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اللہ قیامت کے روز ان سے بات کرے گا ‘ اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ۔ بلکہ ان کے لئے تو سخت دردناک سزا ہے۔ “ یہ سبق آگے بڑھتا ہے اور اب اس میں اہل کتاب کی ایک کج روی کو منظر عام پر لایا جاتا ہے ۔ اور بتایا جاتا ہے کہ وہ دین کے معاملے میں جھوٹ تک بولنے میں کس قدر بیباک ہیں۔ اور یہ کام وہ دنیاوی مفادات اور نہایت ہی کم قیمت مفادات کے لئے کرتے ہیں ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو کہ ‘ جو کچھ وہ پڑ رھے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے ۔ حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں ‘ یہ خدا کی طرف سے ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ “ اور منجملہ اور امور کے ‘ جو وہ اپنی چالاکی سے کتاب میں داخل کرتے تھے ‘ ایک یہ بات تھی کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) الٰہ ہیں اور یہ کہ روح القدس بھی الٰہ ہیں۔ چناچہ یہاں اللہ تعالیٰ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نہ کوئی ایسی آیت لے کر آئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو ایسے عقائد رکھنے کا کوئی حکم دیا ہے۔ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ (79) وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (80) ” کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی بجائے تم میرے بندے بن جاؤ ‘ وہ تو یہی کہے گا کہہ سچے ربانی ہوجاؤ۔ جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے ہو اور پڑھاتے ہو ۔ وہ تم سے ہرگز نہ کہے گا کہ فرشتوں کو اپنا رب بنالو ‘ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم مسلم ہو۔ “ اور اس مضمون کی مناسبت یہاں مسلسل دنیا میں بھیجے جانے والے انبیاء کے باہمی تعلق اور تعاون کے سلسلے میں لیے جانے والے اقرار کو بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر سابق نبی یہ میراث آنے والے کے سپرد کرے گا اور اس کی مدد کرے گا۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (81) ” اور یاد کرو ‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ ” آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے ‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے ‘ جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے ۔ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ “ یہ ارشاد فرماکر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو “ انہوں نے کہا ہاں ‘ ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ! اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ “ یہی وجہ ہے اہل کتاب پر یہ بات فرض ہوجاتی ہے کہ وہ نبی آخرالزمان پر ایمان لائیں اور اس کی امداد کریں ۔ لیکن ان کا وطیرہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے نہ ان وعدوں کی پابندی کرتے ہیں جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے اور نہ ان معاہدوں کی جو انہوں نے سابقہ رسولوں کے ساتھ کئے ۔ ان مقدمات کا فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین یعنی دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اپنے لئے تلاش کرتا ہے ۔ تو گویا وہ پوری کائنات کے نظام قدرت سے بغاوت کرتا ہے جیسا کہ اللہ نے اس کا ارادہ کیا ہے ۔ أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ” کیا یہ لوگ اللہ کے دین کا طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار وناچار اللہ ہی کے تابع ہیں (مسلم ہیں ) اور اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے ۔ “ پس وہ لوگ جو اسلام سے خارج ہوتے ہیں ‘ ان کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو اسلامی نظام کی مکمل اطاعت نہیں کرتے ‘ ان کا معاملہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قدر نافرمان ہیں اللہ کے اس تکوینی نظام سے بھی خارج ہیں۔ یہاں رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو اللہ وحدہ کے دین پر ثابت قدمی کا اعلان کردیں اور دین ان ہدایات کے اندر ہے جو رسول ﷺ اللہ کی جانب سے لے کر آئے اور آپ سے قبل دوسرے رسول لے کر آئے اور اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ انسانوں کی جانب سے صرف اسی دین کو قبول کرے گا۔ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ……………” اور جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے گا تو یہ اس کی جانب سے قبول نہ کی جائے گی اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ “ اب جو لوگ اس دین پر ایمان نہیں لاتے تو ان کے لئے ہدایت پانے کی کوئی امید نہیں ہے اور نہ ان کے لئے اللہ کی پکڑ سے بچنے کی کوئی امید ہے ۔ الا یہ کہ وہ توبہ کریں ۔ رہے وہ لوگ جو کفر کی حالت میں اس دنیا سے چلے جائیں تو انہیں وہ تمام مال و دولت کچھ فائدہ نہ دے گی جو انہوں نے بھلائی کی راہ میں خرچ کی ۔ اور اگر وہ اپنے اس کفر کا اس کرہ ارض کو بھر کر سونا ادا کریں تو بھی یہ فدیہ قبول نہ ہوگا۔ اللہ کی راہ میں خرچ اور قربانی کے اس مقام پر اہل اسلام کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ اپنے مال و دولت سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں خرچ کریں جو انہیں پسند ہیں ۔ لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَاتُنفِقُوامِن شَیئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیمٌ……………” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی وہ چیز خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو ۔ اور جو کچھ تم خرچ کروگے اللہ اس سے بیخبر نہ ہوگا۔ “ غرض اس مختصر حصے میں ‘ اس قدر عظیم حقائق اور بیشمار ہدایات جمع کردی گئی ہیں ۔ اور یہ اس عظیم معرکہ میں ایک مختصر جملہ ہے جو اس پوری سورت میں برپا ہے ۔ اور اس کے فریق امت مسلمہ اور اس کے دشمنان ہیں۔ اور یہ معرکہ صدیوں سے یونہی برپا ہے ۔ آج بھی امت معرکہ میں اسباب اور وسائل بالکل مختلف استعمال ہورہے ہیں ‘ لیکن لائن آج بھی وہی ہے لیکن آج یہ معرکہ طویل خطوط پر ہے۔ محمد بن اسحاق ‘ محمد سعید بن جبیر ‘ یا عکرمہ اور حضرت ابن عباس ؓ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا نجران کے نصاریٰ اور یہودیوں کے احبار رسول ﷺ کے پاس جمع ہوئے اور فرمایا آپ سے مباحثہ شروع کردیا ‘ احبار نے کہا ابراہیم یہودی تھا ‘ نصاریٰ نے کہا وہ نصرانی تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ……………” اہل کتاب ! تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ “ چاہے ان آیات کا شان نزول یہ ہو یا نہ ہو ‘ بہرحال آیات بظاہر اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ اہل کتاب کے بےبنیاد دعوؤں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کا یہ تنازعہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تھا یا رسول ﷺ کی موجودگی میں وہ آپس میں جھگڑتے تھے اور ان کے جھگڑے کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ان کی اولاد میں نبوت رہے گی تو اس طرح وہ یہ فضیلت اور ہدایت اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے تھے ۔ یہ تھا ان اصل مقصد ‘ دوسرے یہ کہ وہ اس طرح رسول ﷺ کے اس دعویٰ کی تکذیب کرنا چاہتے تھے کہ رسول ﷺ اور آپ کی امت دین حنیف کے پیروکار ہیں اور حنفیت اولیٰ کے وارث ہیں ۔ نیز اس طرح وہ مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ یا کم ازکم بعض اہل اسلام میں وہ شک ڈالنا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان کی سخت ترین الفاظ میں تردید فرماتے ہیں اور ان کی خوس فہمی کو طشت ازبام کرتے ہیں ‘ جو کسی علمی دلیل پر مبنی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تورات سے بھی پہلے گزرے ہیں اور انجیل سے بھی پہلے گزرے ہیں ۔ پس کس طرح ممکن ہے کہ وہ یہودی ہوں یا نصرانی ہوں ‘ لہٰذا یہ دعویٰ مکمل طور پر خلاف عقل ہے ۔ صرف پیغمبروں کی تاریخ پر اچٹتی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا دعویٰ باطل ہے۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالإنْجِيلُ إِلا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ” اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑتے ہو ؟ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ “
Top