Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 20
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآئِكُمْ١ؕ وَ لَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَحْسَبُوْنَ : وہ گمان کرتے ہیں الْاَحْزَابَ : لشکر (جمع) لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ : نہیں گئے ہیں وَاِنْ يَّاْتِ : اور اگر آئیں الْاَحْزَابُ : لشکر يَوَدُّوْا : وہ تمنا کریں لَوْ اَنَّهُمْ : کہ کاش وہ بَادُوْنَ : باہر نکلے ہوئے ہوتے فِي الْاَعْرَابِ : دیہات میں يَسْاَلُوْنَ : پوچھتے رہتے عَنْ : سے اَنْۢبَآئِكُمْ ۭ : تمہاری خبریں وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا : ہوں فِيْكُمْ : تمہارے درمیان مَّا قٰتَلُوْٓا : جنگ نہ کریں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ آور ہوجائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے
یحسبون الاحزاب لم یذھبوا (33: 20) ” “۔ گویا یہ لوگ ابھی تک کانپ رہے ہیں ، ابھی تک جنگ سے چھپ رہے ہیں ، لوگوں کو روک رہے ہیں ، ان کو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ احزاب تو بھاگ گئے ہیں اور خوف ختم ہوگیا ہے اور امن وامان لوٹ آیا ہے۔ وان یات الاحزاب ۔۔۔۔۔ عن انبآئکم (33: 20) ” “۔ کیا سنجیدہ مزاح ہے ان کے ساتھ اور کس قدر بھونڈی تصویر ہے ان لوگوں کی۔ یوں جس طرح کارٹون ۔ اگر دوبارہ احزاب حملہ آور ہوں تو یہ لوگ چاہیں گے کہ یہ اہل مدینہ ہی نہ ہوں اور دور کہیں بدو باشندے ہوجائیں اور مدینہ والوں کی زندگی اور ذمہ داریوں میں شریک ہی نہ ہوں۔ ان کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اس کے بارے میں ان کو پتہ ہی نہ ہو اور دوسروں سے اہل مدینہ کے حالات اس طرح پوچھیں جس طرح اجنبی ، اجنبی کے بارے میں پوچھتا ہے اور ان کو اہل مدینہ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے اور یہ بزدل جان بچا کر نکل آتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی مضحکہ خیز تمنائیں کرتے ہیں ، یہ معرکے سے دور ہیں اور اس معرکے میں ذاتی طور پر شریک نہیں ہیں نہ براہ راست یہ لوگ اس معاملے کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ دور سے بھی ڈرتے ہیں اور اس قدر بعید ہوکر بھی جزع و فزع کرتے ہیں۔ ولو کانوا فیکم ما قتلوا الا قلیلا (33: 20) ” “۔ یہ آخری لائن ہے جس کے کھینچنے سے یہ تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ یہ ہے تصویر ان منافقین کی جو مدینہ طیبہ میں اٹھنے والی اس نئی اسلامی جماعت کے اندر رہتے تھے۔ ایسے ہی لوگ قیامت تک اٹھنے والی ہر تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہی ہر دور کے منافقین کے خدوخال ہوتے ہیں۔ یہ تصویر یہاں ختم ہوتی ہے اور اہل ایمان کے دل میں ان کی تحقیر ، ان سے نفرت اور ان سے دوری اچھی طرح بٹھا دی جاتی ہے اور یہ لوگ اللہ کے ہاں بھی ہلکے ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی نظروں میں بھی گر جاتے ہیں۔ یہ تو تھا حال ان لوگوں کا جو منافق تھے۔ جن کے دلوں میں روگ تھا ، جو اسلامی صفوں میں بددلی پھیلاتے تھے۔ یہ تھی ان کی مکروہ تصویر ، لیکن جنگ احزاب کے شدید اور ہلا مارنے والے خوف اور بدتر حالات نے تمام لوگوں کو اس طرح مکروہ الصورت نہ بنا دیا تھا۔ ان تاریک اور کربناک حالات میں کچھ روشن چہرے بھی موجود تھے۔ ان ہلا مارنے والے حالات میں ایسے لوگ بھی تھے جو چٹان کی طرح مضبوط کھڑے تھے۔ جن کا اپنے اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔ اللہ کے فیصلوں پر راضی تھے۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ کی نصرت آئے گی باوجود اس کے کہ بظاہر حالات بہت ہی مایوس کن تھے اور ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
Top