Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ
: اور (یاد کرو) جب
تَقُوْلُ
: آپ فرماتے تھے
لِلَّذِيْٓ
: اس شخص کو
اَنْعَمَ اللّٰهُ
: اللہ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَنْعَمْتَ
: اور آپ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
اَمْسِكْ
: روکے رکھ
عَلَيْكَ
: اپنے پاس
زَوْجَكَ
: اپنی بیوی
وَاتَّقِ اللّٰهَ
: اور ڈر اللہ سے
وَتُخْفِيْ
: اور آپ چھپاتے تھے
فِيْ نَفْسِكَ
: اپنے دل میں
مَا اللّٰهُ
: جو اللہ
مُبْدِيْهِ
: اس کو ظاہر کرنے والا
وَتَخْشَى
: اور آپ ڈرتے تھے
النَّاسَ ۚ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
اَنْ
: کہ
تَخْشٰىهُ ۭ
: تم اس سے ڈرو
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کرلی
زَيْدٌ
: زید
مِّنْهَا
: اس سے
وَطَرًا
: اپنی حاجت
زَوَّجْنٰكَهَا
: ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا
لِكَيْ
: تاکہ
لَا يَكُوْنَ
: نہ رہے
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
حَرَجٌ
: کوئی تنگی
فِيْٓ اَزْوَاجِ
: بیویوں میں
اَدْعِيَآئِهِمْ
: اپنے لے پالک
اِذَا
: جب وہ
قَضَوْا
: پوری کرچکیں
مِنْهُنَّ
: ان سے
وَطَرًا ۭ
: اپنی حاجت
وَكَانَ
: اور ہے
اَمْرُ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
مَفْعُوْلًا
: ہوکر رہنے والا
اے نبی ﷺ ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ ” اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو “۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا
واذ تقول للذی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کان اللہ بکل شیء علیما (37 – 40) اس سورة کے آغاز ہی میں معبنی بنانے کی رسم کو ختم کردیا گیا تھا اور یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ ایسے لوگوں کو اب ان کے حقیقی آباء کی طرف منسوب کردیا جائے اور عائلی تعلقات حقیقی نسب پر قائم ہوں گے ، کہا گیا تھا۔ وما جعل ادعیآء کم ۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (33: 4 – 5) ” نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔ مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو نبی پر حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہاں کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ نادانستہ جو بات تم کہو ، اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا دل سے ارادہ کرو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے “۔ عربی سوسائٹی میں منہ بولے بیٹوں کے پختہ رسم و رواج تھے اور گہرے آثار تھے۔ ان آثار کو منانا اس قدر آسان نہ تھا جس قدر نفس معبنی کو مٹانا آسان تھا۔ اس لیے کہ اجتماعی رسم و رواج دلوں پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی رسومات کو مٹانے کے لیے ان کے بالمقابل سخت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالعموم پہلے پہل جو اقدامات کیے جاتے ہیں ان کے خلاف شوروغل بھی ہوتا ہے اور ابتدا میں اس کے اثرات بھی نفوس پر پڑتے ہیں۔ اس سے قبل یہ بات آگئی ہے کہ حضرت نبی ﷺ نے زید ابن حادثہ کی شادی کرائی تھی۔ یہ آپ کے معبنی تھے اور ان کو زید ابن محمد کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد زید ابن حارثہ کہلانے لگا۔ یہ شادی زینب بنت جحش سے کرائی گئی تھی جو آپ کی پھوپھی زاد تھیں ، مقصد یہ تھا کہ غلاموں کو عرب سوسائٹی میں جو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا تھا ، اسے دور کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے شرافت و کرامت کا جو اصول مقرر فرمایا ہے اسے بروئے کار لایا جائے۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقالکم ” تمہارے اندر زیادہ شریف وہی ہے ، جو زیادہ متقی ہے “۔ اور یہ مثال عملاً قائم کی جائے جو فی الواقعہ مثال ہو۔ اس کے بعد مشیت الہیہ کا تقاضا یوں ہوا کہ رسالت کی ذمہ داریوں میں اس ذمہ داری کا اضافہ کردیا جائے کہ معبنی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کی مثال بھی حضور ﷺ خود قائم کریں تاکہ معبنی کی رسم کے جو گہرے آثار تھے ، وہ بھی مٹ جائیں اور حضور ﷺ یہ نمونہ معاشرے کے سامنے پیش کریں۔ ان حالات میں کہ کسی اور کی ہمت اس کام کے لیے نہ ہوسکتی تھی اگرچہ رسم معبنی قانوناً اور شرعاً اس سے قبل ختم ہوگئی تھی۔ اللہ نے حضرت نبی ﷺ کو بذریعہ وحی بتا دیا کہ زید عنقریب اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے اور آپ کو یہ نکاح کرنا ہوگا۔ یہ تقاضائے حکمت الہیہ ہے۔ اس دوران زید اور زینب کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور آثار بتا رہے تھے کہ یہ نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرت زید بار بار رسول اللہ ﷺ سے یہ شکایت کر رہے تھے کہ ان کی زندگی زینب کے ساتھ بہت مضطرب ہے اور یہ کہ وہ مزید ان کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ ﷺ بڑی بےباکی سے اسلامی نظریہ حیات کی تبلیغ فرماتے تھے اور اس سلسلے میں کسی کی پرواہ نہ فرماتے تھے لیکن زینب کے ساتھ نکاح کرنے کے معاملے میں آپ بھی متامل تھے۔ اس سلسلے میں آپ بھی عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے اور آپ ہمیشہ زید سے کہتے ، جن پر اللہ کا انعام ہوا تھا کہ وہ مسلمان ہوئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے قریب ہوئے اور رسول اللہ ﷺ آپ سے محبت فرماتے تھے اور یہ محبت ایسی تھی کہ بلا استثناء سب سے زیادہ تھی۔ پھر رسول اللہ نے ان پر یہ مہربانی کی کہ انہیں آزاد کردیا۔ ان کی تربیت کی اور ان سے بہت پیار کرتے۔ حضرت زید سے رسول اللہ ﷺ یہی کہتے۔ امسک علیک زوجک واتق اللہ (33: 37) ” کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو “۔ اور دراصل حضور اکرم ﷺ اس طرح اس عظیم معاملے کو موخر کرنا چاہتے تھے جس کے وقوع کے بعد آپ کو عوام کا سامنا کرنے میں تردد تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی۔ وتخفی فی نفسک ۔۔۔۔۔۔ ان تخشہ (33: 37) ” اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے جس کا اللہ نے آپ کو یہ سبب بتا دیا تھا کہ اگر حضرت زید ان کو طلاق دیں گے تو آپ ﷺ کو نکاح کرنا ہوگا۔ یہ معاملہ صریح حکم نہ تھا ، ورنہ حضور ﷺ اس میں تردد نہ فرماتے ، نہ موخر کرتے اور نہ یہ کوشش کرتے کہ کسی طرح ٹل جائے اور حضور ﷺ اس وقت اس کا اعلان کردیتے۔ نتائض جو بھی ہوتے ، البتہ حضور ﷺ کے دل میں بطور الہام یہ بات ڈال دی گئی تھی اور حضور ﷺ اس وقت پریشان تھے کہ لوگ غوغا آرائی کریں گے یہاں تک کہ خدا کے حکم سے زید نے طلاق دے دی اور یہ تصور نہ زید کا تھا اور نہ زینب کا کہ اس کے بعد حضور ﷺ سے نکاح ہوگا کیونکہ عربوں میں یہ قانونی رواج تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ نکاح جائز نہ تھا۔ یہاں تک کہ معبنی بنانے کے قانون اور رواج کو ختم کردینے کے بعد بھی لوگ مطلقہ معبنی کو حرام سمجھتے تھے اور ابھی ان کے حلال ہونے کا حکم بھی نہ آیا تھا۔ صرف اس واقعہ سے یہ رسم ختم ہوئی لیکن یہ واقعہ بہرحال اس سوسائٹی میں ایک دھماکہ اور ایک انوکھی اور نئی بات تھی۔ اس تفسیر سے وہ تمام روایات ختم ہوجاتی ہیں جن پر اعتماد کرکے دشمنان اسلام نے قدیم دور میں بھی اور جدید دور میں بھی افسانے تصنیف کیے ہیں اور حاشیہ آرائیاں کی ہیں۔ معاملہ بس اس قدر تھا۔ فلما قضی زید۔۔۔۔۔ منھن وطرا (33: 37) ” پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں “۔ اور یہ واقعہ رسالت کی ان بھاری ذمہ داریوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہ ﷺ نے خود اٹھایا۔ یوں آپ نے ایک ایسے معاملے میں جاہلی معاشرے کی ایک رسم متانے میں نمونہ پیش کیا جسے ایام جاہلیت میں ایک مکروہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ یہ فعل اس قدر مکروہ سمجھا جاتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ نے اسلامی نظریہ حیات کے حوالے سے بڑی بڑی باتوں میں تامل نہ فرمایا تھا مگر اس میں مترو و تھے۔ مثلاً عربوں کے خود ساختہ الٰہوں کی مذمت آپ نے بےدھڑک فرمائی اور یہ آپ نے بر ملا اعلان فرمایا کہ ہمارے آباء و اجداد غلطی پر تھے۔ وکان امر اللہ مفعولا (33: 37) ” اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا “۔ حضرت زینب سے حضور اکرم کا نکاح عدت پوری ہونے کے بعد طے ہوا تھا “۔ یعنی اسے ردنہ کیا جاسکتا تھا اور نہ اس سے کوئی مفر تھا۔ یہ ایک حقیقت تھی اور اٹل حقیقت تھی اور اس سے کوئی پہلو تہی نہ کرسکتا تھا۔ آپ کا نکاح زینب سے عدت گزر جانے کے بعد ہوا اور حضور ﷺ نے ان کو انہیں حضرت زید کے ذریعہ پیغام بھیجا تھا۔ یہ زید حضور ﷺ کو بہت ہی محبوب تھے۔ یہ گئے اور انہوں نے حضور ﷺ کا پیغام ان کو دیا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب زینب کی عدت ختم ہوگئی تو حضور ﷺ نے زید ابن حارثہ سے کہا ” آپ جائیں اور زینب کو میرے لیے پیغام دیں “۔ زید گئے ، اس وقت وہ آٹے میں خمیر ڈال رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو میرا انکے ساتھ سامنا کرنا مشکل ہوگیا۔ میں ان کو دیکھ نہ سکا اور نہ کہہ سکا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کا تذکرہ کیا ہے میں نے ان کی طرف اپنی پیٹھ پھیرلی اور واپس جاتے ہوئے یہ کہا ” اے زینب تمہارے لیے خوشخبری ہے ، حضور ﷺ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں ان کا پیغام آپ تک پہنچا دوں “۔ اس نے کہا ” میں کوئی بات اس وقت تک کرنے والی نہیں ہوں جب تک میں اپنے رب کے ساتھ اس معاملے میں مشورہ نہ کرلوں۔ وہ اٹھی اور اپنی جائے نماز پر نماز پڑھنے لگی “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ اس کے بعد اس سے اجازت لینے کے بغیر اس کے پاس آگئے۔ (روایت احمد ، مسلم اور نسائی بطریقہ سلیمان ابن مغیرہ) ۔ بخاری شریف میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت زینب دوسری ازواج مطہرات پر یہ فخر کرتی تھی کہ تمہارا نکاح تمارے رشتہ داروں نے کیا ہے اور میرا نکاح اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ یہ معاملہ اسی طرح آسانی سے طے نہ پا گیا بلکہ اسلامی سوسائٹی میں اس کی وجہ سے ایک بھونچال آگیا اور منافقین کو ایک مسئلہ مل گیا کہ حضور ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ اسلامی معاشرے میں قانون اصلاحات سے متعلق تھا اور اسلامی معاشرے کے لیے ایک نیا اصول طے کرنا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کی تاکید مزید کردی اور پھر اس میں لوگوں کے نزدیک جو انوکھا پن تھا اسے یوں زائل کیا اور معاملات کو اپنی اصل حقیقت کی طرف لوٹا دیا۔ ما کان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ (33: 38) ” نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہو “۔ اللہ نے نبی پر فرض کردیا تھا کہ زینب کے ساتھ اس کا نکاح ہوتا کہ یہ جاہلی رسم ٹوٹے کہ کسی کا نکاح ان کے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نہیں ہوسکتا جبکہ اس نے اسے طلاق دے دی ہو یا مر گیا ہو ، اور یہ کہ نبی ﷺ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل (33: 38) ” یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملے میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں “۔ تو یہ معاملہ سنت الہیہ کے مطابق جا رہا ہے اور اس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ان رسوم اور رواجات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکتا رہا ہے جو معاشرے میں رائج رہی ہیں اور جن کی کوئی حقیقت و افادیت نہ تھی۔ وکان امر اللہ قدرا مقدورا (33: 38) ” اور اللہ کا حکم قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے “۔ اللہ کا حکم نافذ ہوتا ہے اور اسے نافذ کیا جانا ہی چاہئے۔ اس کے سامنے کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی اور نہ بننا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمام امور کو نہایت مہارت سے طے کرتا ہے ، نہایت حکمت سے طے کرتا ہے اور اس کی تہہ میں وہ مقاصد ہوتے ہیں جو اللہ کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ اللہ ہی ان احکام کی ضرورت اور کسی زمان و مکان میں ان کی اہمیت کو جانتا ہے اور اللہ نے رسول اللہ کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس عادت کو محو کردیں ، اس کے عملی آثار کا بھی قلع قمع کردیں اور یہ کام وہ بنفس خود کریں۔ اللہ کے حکم کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی اور اللہ کے رسولوں کی یہ سنت رہی ہے۔ تمام گزرے ہوئے رسولوں کی : الذین یبلغون رسلت۔۔۔۔۔۔۔ الا اللہ (33: 39) ” جو لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے “۔ ایسے لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نظام کو عملاً قائم کرتے ہیں اور لوگوں کی باتوں سے نہیں ڈرتے۔ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ وہ اللہ کے احکام پہنچاتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں۔ وکفی باللہ حسیبا (33: 39) ” اور محاسبہ کے لیے اللہ ہی کافی ہے “۔ حساب و کتاب نیک و بد کا اللہ ہی لے گا اور لوگوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے نبی کا محاسبہ کریں۔ ما کان محمد ابآ احد من رجالکم (33: 40) ” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں “۔ لہٰذا زینب محمد کے کسی بیٹے کی مطلقہ نہیں ہے۔ زید ابن محمد دراصل زید ابن حارثہ ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اگر حقیقت پسند انہ نظروں سے دیکھا جائے حضرت محمد ﷺ اور تمام لوگوں کا آپس میں تعلق نبی اور قوم کا تعلق ہے وہ ان میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔ ولکن رسول اللہ وخاتم النبین (33: 40) ” وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں “۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ قانون بناتے ہیں۔ اور یہ دائمی اور آخری شریعت ہے اور یہ قیامت تک رہنی ہے۔ اس کے بعد ان قوانین میں کوئی تغیر و تبدل ہونے والا نہیں۔ وکان اللہ بکل شئ علیما (33: 40) ” اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے “۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ انسانیت کیلئے کون سا قانون مفید ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے نبی پر یہ کام کرنا فرض کیا اور اس کیلئے یہ آسائش مقرر کی تاکہ لوگوں کے لیے منہ بولے بیٹوں کے معاملہ میں پابندی ختم ہو۔ جبکہ وہ کسی بیوی کو طلاق دت چکے ہوں اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرچکے ہوں اور ان کو آزاد کرچکے ہوں۔ اللہ نے اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرمایا ہے اور اللہ ہی ہے جو اپنی حکمت اور علم کے مطابق قانون بنانے والا ہے۔ اب سیاق کلام میں اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کو یاد کرو ، صبح و شام ، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے رہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مہربانی اور رحمت سے تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کیا۔ وہ مومنین پر کس قدر رحیم ہے۔ جب یہ مومنین قیامت میں حاضر ہوں گے تو ہر طرف سے مبارک سلامت ہوگی۔
Top