Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ﷺ پر درود بھیجے ہیں ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم بھی ان پر دوروسلام بھیجو۔
ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واعد لھم عذاب مھینا (56 – 57) اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا میں نبی کی تعریف کی جاتی ہے اور فرشتوں کی طرف سے درود کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبی ﷺ کے لیے دعا کرتے ہیں۔ کیا ہی عظیم مرتبہ ہے حضور ﷺ کا اللہ کے ہاں کہ یہ پوری کائنات آپ کے لیے دعا گو ہے۔ اس کے ذریعہ پوری کائنات منور ہوجاتی ہے اور اللہ کی جانب سے یہ ثنا اور تعریف ہوتی ہے اور جو باقی ہے اور ازلی اور ابدی ہے اور پوری کائنات اس کی ہمقدم ہے۔ اس نعمت اور تکریم سے بڑی اور نعمت کیا ہوسکتی ہے۔ ہم انسانوں کے درودوسلام کا اللہ اور پوری کائنات کے درود وسلام سے کیا مقابلہ۔ انسانوں سے صلوۃ وسلام کا مطالبہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کی یہ حقیر آواز بھی کائنات کی گونج سے مل کر اس عظیم ثنا میں شریک ہوجائے اور اس طرح انسان بھی اس بڑی تقریب میں شرکت کے مدعی بن جائیں جبکہ اللہ کی جانب سے صلوٰۃ وسلام تو ازلی اور ابدی ہوگا۔ اس عظیم حمد و ثنا کو دیکھتے ہوئے جس میں رب تعالیٰ ، فرشتے ، کائنات اور انسان بھی شریک ہیں۔ اگر کوئی بدبخت نبی ﷺ جیسے ممدوح کائنات اور رب کائنات کو اذیت دیتا ہے تو اسکا یہ فعل کس قدر گھناؤنا ، کسی قدر قبیح اور قابل ملامت ہوجاتا ہے ان الذین یوذون اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ واعدلھم عذابا مھینا (33: 57) ” جو لوگ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کردیا ہے۔ یہ فعل اور بھی قبیح ہوجاتا ہے کہ ایک مخلوق اپنے خالق کو اذیت دیتی ہے۔ حالانکہ لوگ اللہ کو اذیت دے ہی نہیں سکتے۔ بلکہ انداز کلام یہ بتاتا ہے کہ وہ رسول اللہ کو اس قدر سخت اذیت دیتے ہیں جس سے گویا اللہ جل و شانہ کو اذیت پہنچتی ہے۔ لہٰذا ان کی یہ حرکت بہت بری ، بہت قبیح اور نہایت گھناؤنی ہے۔ اس کے بعد مومنین و مومنات کی ایذا کا ذکر آتا ہے ان کو اذیت دینا ، ان پر بہتان باندھنا ، کہ ان میں کوئی عیب نہیں جیسے یہ منافقین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
Top