Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے اس امانت کو آسمانوں ، اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا ، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے
انا عرضنا الامانۃ ۔۔۔۔۔۔ ظلوما جھولا (72) ” “۔ زمین و آسمان اور زمین کے اندر بڑے بڑے پہاڑ ، دراصل ایک عام انسان کے لیے عظیم مخلوق ہیں ، جن کا یہاں قرآن نے ذکر کیا ہے اور جن کے اندر انسان رہتا ہے ، ان کے مقابلے میں انسان بہت ہی ضعیف اور حقیر ہے۔ یہ مخلوقات اپنے خالق کو اچھی طرح جانتی ہے اور اللہ کے تکوینی نظام اور قانون کے مطابق چل رہی ہے۔ اللہ کے احکام کو براہ راست پاتی ہے اور ان پر عمل پیدا ہے۔ یہ اس ناموس فطرت کے مطابق چلتی ہے جو اللہ نے اس کے اندر جاری کیا ہے۔ آغاز تخلیق سے یہ کائنات یونہی ، نظام قضا و قدر کے مطابق جاری وساری ہے۔ نہ اللہ کی اطاعت سے نکلتی ہے اور نہ اللہ کے ناموس فطرت سے سرمو انحراف کرتی ہے اور نہ کرسکتی ہے۔ یہ سب مخلوق اپنا فریضہ منصبی ادا کر رہی ہے ، چاہے اسے شعور ہو یا نہ ہو۔ چاہے اس کا کوئی اختیار ہو یا نہ ہو۔ یہ سورج اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے اور اس کے دورے میں کوئی خلل نہیں آتا۔ یہ چمک رہا ہے اور جہاں تک اللہ کا حکم ہوگا ، کائنات کو گرم اور روشن کرتا رہے گا۔ پھر اس سورج کا کنبہ بھی اس کے دائرے کے اندر ٹھیک ٹھیک اپنے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور اپنا فریضہ منصبی ادا کر رہا ہے۔ یہ زمین اپنے مدار میں گردش کر رہی ہے۔ اس گردش کے نتیجے میں فصلیں اگتی ہیں۔ انسانوں کے رزق کا انتظام ہو رہا ہے ۔ یہ مردوں کو سمیٹتی ہے۔ اس کے اندر سے چشمے پھوٹتے ہیں اور یہ سب کام سنت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے بغیر زمین کے ارادہ کے۔ یہ چاند اور یہ ستارے و سیارے ، یہ ہوائیں اور یہ بادل یا یہ پانی اور یہ سمندر ، یہ پہاڑ اور یہ میدان سب کے سب اپنے رب کے حکم سے اور اپنے خالق کی تقدیر سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور یہ تمام اشیاء یہ فرائض بغیر جہد و مشقت کے ادا کرتی ہیں۔ یہ ارکان کائنات نہ اٹھاسکے ، ڈر گئے اور سہم گئے۔ یہ اس عظیم امانت کو نہ اٹھا سکے۔ یہ امانت کیا تھی ، ذاتی ارادے اور اختیار سے اپنے فرائض کو سرانجام دینا اور اپنے اعمال اور افعال کا ذمہ دار ہونا۔ لیکن ! وجعلھا الانسان (33: 72) ” مگر انسان نے اسے اٹھا لیا “۔ انسان جو اللہ کو اپنے شعور اور اپنے ادراک سے جانتا ہے ، اپنے تدبر اور اپنی بصیرت سے ناموس قدرت کو معلوم کرتا ہے ، اور اپنی سعی و جدوجہد سے اس ناموس کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے ، وہ اپنے ارادے سے اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور بالا رادہ ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ اور اپنے میلانات اور خواہشات پر قابو پاتا ہے۔ اپنی زندگی کے ہر قدم پر وہ متحرک بالارادہ ہے۔ اپنی راہ کا ادراک رکھتا ہے۔ جان بوجھ کر اپنے لیے راہ اختیار کرتا ہے اور علی وجہ البصیرت کسی کی راہ پر چلتا ہے۔ یہ ہے وہ عظیم امانت جو اس انسان نے اٹھائی حالانکہ انسان بہت ہی ضعیف ، کمزور اور چھوٹا اور بےطاقت تھا۔ جس طرح اس کی قوت محدود تھی اس طرح اس کی عمر بھی محدود تھی اور پھر اس ضعیف انسان پر ہر طرف سے میلانات خواہشات اور طبیعی شہوات کی افواج حملہ آور تھیں۔ اس زوایہ سے اس ضعیف انسان نے اپنے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری اٹھالی۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ اپنے نفس پر اس نے ظلم کیا کہ یہ بھاری بوجھ اس پر ڈالا اور اپنی قوت کی کمی سے وہ بیخبر تھا۔ لیکن جب انسان اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اس نے اٹھائی اور جب وہ اپنی معرفت اور اپنے ادراک سے باری تعالیٰ تک پہنچ جائے تو وہ براہ راست ناموس الٰہی کی معرفت حاصل کرلیتا ہے ، اور پوری طرح اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوجاتا ہے۔ یہ معرفت ، یہ ہدایت اور یہ اطاعت اپنی حقیقت کے اعتبار سے اور اپنے آثار کے اعتبار سے ایک بلند مقام تک پہنچ جاتی ہے اور اس قدر خود کار طریقے سے کام کرتی ہے جس طرح آسمان اور زمین اور پہاڑ بڑی سہولت سے ، براہ راست ہدایت ، معرفت اور اطاعت پذیر ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ تمام مخلوقات براہ راست اللہ کی معرفت حاصل کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ براہ راست اللہ کی ہدایت کے تحت چلتے ہیں۔ براہ راست اطاعت کرتے ہیں اور ان کے اور باری تعالیٰ کے درمیان کوئی حائل اور کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور کوئی چیز ان کو اللہ کی اطاعت سے روکنے والی نہیں ہوتی ، تو جب انسان بھی اس پوری کائنات کی طرح اللہ کی معرفت ، ہدایت اور اطاعت کا پابند ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ واصل باللہ ہوجاتا ہے اور تب اللہ کی مخلوقات میں اس کا مقام منفرد ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارادہ ، ادراک اور اختیار اور ذمہ داری اٹھانا ہی انسان کی امتیازی خصوصیات ہیں اور انہی کی وجہ سے انسان ان ان مخلوقات کے اندر ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یہی وہ کرامت اور شرف ہے جس کا اعلان اللہ نے عالم بالا میں کیا تھا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور قرآن کے اندر یہ اعلان قیامت تک ثبت کردیا۔ ولقد کرمان بنی آدم ” حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی “۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی اس تکریم کی اصلی وجہ سمجھے اور اللہ نے اس کے حوالے جو امانت کی ہے اور اس نے جسے قبول کیا ہے اور جس کے اٹھانے سے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں نے انکار کیا ، اور ڈرگئے اسے اچھی طرح ادا کرے۔ یہ امانت یا ذمہ داری اللہ نے انسان کے اوپر کیوں ڈالی ؟
Top