Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Faatir : 2
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَ مَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
مَا يَفْتَحِ
: جو کھول دے
اللّٰهُ
: اللہ
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
مِنْ رَّحْمَةٍ
: رحمت سے
فَلَا مُمْسِكَ
: تو بند کرنے والا انہیں
لَهَا ۚ
: اس کا
وَمَا يُمْسِكْ ۙ
: اور جو وہ بند کردے
فَلَا مُرْسِلَ
: تو کوئی بھیجنے والا نہیں
لَهٗ
: اس کا
مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ
: اس کے بعد
وَهُوَ
: اور وہ
الْعَزِيْزُ
: غالب
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا
اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم ہے
ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (2) ” “۔ اس سورة کی اس دوسری آیت میں اللہ کی قدرتوں کا ایک رنگ دکھایا گیا ہے جبکہ پہلی آیت میں اللہ کی قدرت کا ذکر تھا۔ جب یہ رنگ کسی انسان کے تصور اور عمل میں بیٹھ جاتا ہے تو اس کے تصورات ، اس کا شعور ، اس کا رخ ، اس کے حسن و قبح کے پیمانے بھی اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور اسکی پوری زندگی اس رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ یوں کہ یہ رنگ انسان کو اس کائنات کی پوری قوتوں سے کاٹ کر اللہ کی قوت سے جوڑ دیتا ہے۔ اسے زمین و آسمان کی تمام مشکوک رحمتوں سے مایوس کردیتا ہے۔ صرف اللہ کی رحمت سے جو ڑتا ہے اور اس کے امیدوار بنا دیتا ہے۔ زمین و آسمان کے تمام دروازے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے اور اس کے سامنے زمین و آسمان کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے۔ اس کے سامنے زمین و آسمانوں کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔ اللہ کی رحمت کے مظاہر متعدد ہوتے ہیں ، لا تعداد ہوتے ہیں۔ اللہ نے انسانوں کی جس انداز سے تخلیق کی ، اس کی نفس کے اندر جو ممتاز قوتیں ودیعت کیں اور اپنی مخلوق میں سے جس طرح اسے مکرم بنایا صرف ان رحمتوں کو اگر انسان قلم بند کرنا چاہئے تو وہ انتہاؤں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اللہ نے انسان کے لیے اس کے ماحول کو سازگار بنایا ہے۔ اس کے اردگرد ، اس کے اوپر نیچے ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کیا ہے اور اس کے اوپر جو انعامات کیے ہیں جنہیں وہ جانتا ہے اور وہ انعامات جنہیں وہ نہیں چاہتا ، یہ انعامات بیشمار ہیں ، ان گنت ہیں۔ اللہ کی رحمت ان چیزوں میں بھی موجود ہے جو ممنوع ہیں۔ ان میں بھی موجود ہے ، جن کی اجازت ہے اور جس شخص پر اللہ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ، اسے یہ رحمت ہر چیز میں نظر آتی ہے۔ ہر حال ، ہر ماحول ، اور ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے شعور میں ، اس کے ماحول میں جہاں بھی وہ ہو ، جیسا بھی ہو ، اگرچہ انسان ان تمام نعمتوں سے محروم ہوجائے جنہیں لوگ محرومیت سمجھتے ہیں۔ اس رحمت سے اپنی آپ کو وہ ہر شخص محروم پاتا ہے جس پر اللہ اس کا دروازہ ہر چیز میں بند کردیتا ہے۔ ایسا شخص پھر ہر حال میں ، ہر صورت میں اور ہر جگہ محروم ہی ہوتا ہے اگرچہ اس کے پاس بظاہر وہ سازوسامان موجود ہوں جس کو لوگ خوشحالی تصور کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشمار سازوسامان ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل نہیں ہوتی ، وہ عذاب الٰہی بن جاتے ہیں اور کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوتی ہے۔ یہ مشکلات بذات خود رحمت بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کانٹوں پر سوتا ہے مگر اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ یہ کانٹے اس کے لیے نرم بچھونا ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات نرم و نازک بستر انسان کے لیے کانٹے بن جاتے ہیں اور بہت ہی اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔ انسان مشکل ترین کام کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اللہ کی رحمت ہوتے ہی پر تعیش زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ اس کے لیے مصیبت ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ ایک خوفناک صورت حالات میں گھس جاتا ہے اور وہ اس کے لیے امن ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ مشکلات کے بغیر مراحل عبور کرلیتا ہے اور وہ اس کے لیے ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔ اللہ کی رحمت کے ساتھ کوئی تنگی ، تنگی نہیں رہتی۔ اگرچہ کوئی جیل کی تاریکیوں میں ہو ، یا ہلاکت کی دیواروں میں یا سخت مصائب میں ہو ، بلکہ اللہ کی رحمت کے سوا تمام کشادگیاں تنگی ہوتی ہیں۔ اگرچہ کوئی نعمتوں اور سہولتوں میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ خوشحال ہو ، اسے زندگی کی تمام سہولیات حاصل ہوں۔ جب انسان اللہ کی رحمت کی وجہ سے قلبی طمانیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے تو اس کے اندر سے نیک بختی ، رضا مندی اور اطمینان کے سرچشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور یوں نفس کے اندر قلق ، تھکاوٹ ، واماندگی اور محنت و مشقت کی تکلیف وہ نیش زیناں ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اگرچہ وہ نفس کے اندر جمی ہوئی ہوں۔ اللہ کی رحمت کی کنجی تمام دروازوں کے لیے ماسٹر چابی ہے۔ اس سے تمام دروازے کھل جاتے ہیں ، اس سے تمام چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بند ہوجاتی ہیں اور تمام غلط راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ، انسان بےفکر ہوجاتا ہے ، اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جانے سے پھر وسعتیں ، کشادگیاں اور آرام و سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے کہ اس کے کھل جانے سے تمام نفع بخش دروازے اور راستے کھل جاتے ہیں اور تمام غیر نفع بخش دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جب یہ دروازہ بند ہوجائے تو تمام ایسے دروازے ، کھڑکیاں اور راستے کھل جاتے ہیں جو نفع بخش نہیں ہوتے اور انسان تنگی ، کرب ، سختی ، بےچینی اور داماندگی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اللہ کا یہ فیض انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ، پھر اگر زندگی تنگ ہو یا مالی حالت اچھی نہ ہو ، رہنے اور سہنے کے حالات خراب ہوں تو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ فیض رحمت ہی دوام ، راحت ، سعادت ہے۔ اور جب اس رحمت کا دروازہ بند ہوتا ہے اور دوسری جانب سے رزق کشادہ ہوتا ہے اور ہر سامان کی آمد آمد ہوتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اسے سے تنگی ، حرج اور شقاوت و بدبختی حاصل ہوتی ہے۔ مال و دولت ، صحت و قوت ، شان و شوکت بھی بسا اوقات رنج الم اور تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر دست قدرت اپنا فضل و رحمت کھینچ لے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور متاع حسن اور دنیا کے سازو سامان کو جمع کردیا ۔ پھر کیا ہوتا ہے ہر طرف آرام اور سکون ہوتا ہے۔ دنیا میں عیش و عشرت اور آخرت کے لیے پوری تیاری ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف پھر دنیا پرستوں کے دل میں حسد اور کینہ برپا ہوتا ہے لیکن مال و دولت کے ساتھ ایک شخص کو اگر بخل دے دیا جائے تو وہ محروم ہوجاتا ہے یا مال و دولت کے ساتھ بیماری بھی دے دی جائے تو بھی وہ دنیا کے انعامات سے محروم ہوجاتا ہے اور بعح اوقات مالدار سرکش ہوجاتا ہے اور اس کا مال تلف بھی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات اللہ کسی بو اولاد دیتا ہے اور اس اولاد کے ساتھ رحمت خداوندی بھی شامل ہوتی ہے ۔ پھر یہ اولاد زینت حیات بن جاتی ہے۔ خوشی اوسعادت کا باعث بن جاتی ہے اور آخرت میں ، مزید اجر کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس شخص کے لیے نیک اور اچھے جانشین بن جاتے ہیں اور اسی اولاد کے ساتھ اگر رحمت خداوندی نہ ہو تو یہی میٹھی اولاد زحمت بن جاتی ہے ، بلائے جان ہوتی ہے ، باعث بدبختی اور پریشانی ہوتی ہے۔ راتوں کی نیند حرام کردیتی ہے اور دن کا آرام غارت کردیتی ہے۔ اللہ انسان کو صحت اور قوت دیتا ہے۔ اب اگر اس صحت اور قوت کے ساتھ رحمت خداوندی بھی ہو تو یہ نعمت ہوتی ہے۔ زندگی اچھی طرح بسر ہوتی ہے۔ زندگی کی لذتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس صحت و قوت کے ساتھ رحمت خداوندی شامل نہ ہو تو یہ صحت اور یہ قوت بلائے جان بن جاتی ہے۔ اور ایک صحیح اور قوی شخص مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی صحت اور اپنی قوت کو ان کاموں میں کھپا دیتا ہے جو خود اس کی صحت اور قوت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی روح اور اس کے اخلاق کی تباہی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں کو اللہ مرتبہ اور مقام دیتا ہے اور اس کی رحمت ایسے لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے ۔ یہ مرتبہ و مقام اصلاح کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ملک میں امن قائم ہوجاتا ہے اور یہ مرتبہ و جاہ اس بات کا ذریعہ بن جاتے ہیں کہ انسان اپنے پیچھے اچھے اعمال اور اچھے آثار چھوڑے جو آخرت کا بہترین ذخیرہ ہوں ۔ اگر اللہ کی رحمت اقتدار اور جاہ کے ساتھ شامل نہ ہو تو وہ شخص بےچین رہتا ہے۔ لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔ حد دے تجاوز کرتا اور سرکشی اختیار کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ نہایت بغض اور کینہ رکھتا ہے۔ یہ جاہ و اقتدار ہی ایسے لوگوں کے لیے عداوت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور ایسا شخص پھر ایسے کام کرتا ہے کہ اپنے لیے آخرت میں آگ کا ایک بہت بڑا سرمایہ جمع کرلیتا ہے۔ گہرا علم اور طویل عمر اور جاہ و مرتبہ بدلتے رہتے ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ علم و معرفت کسی کے لیے مفید ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ طویل عمر باعث برکت ہو۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ قلیل عمر ہی برکت کا باعث ہوتی ہے اور نہایت ہی قلیل مال و دولت بڑی سعادت مندی کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ جماعت بھی ایک فرد کی طرح ہوتی ہے اور ملت بھی ایک فرد ہے۔ ہر حال اور ہر صورت میں اور مثالوں پر غور کرنے سے کوئی نتیجہ نکالنا مشکل کام نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت کو محسوس کرے۔ اس طرح اللہ کی رحمت پھر انسان کو سینے سے لگا لیتی ہے اور رحمر الٰہی کی بارش ہوجاتی ہے۔ فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کا یہ شعور کہ اس پر اللہ کی رحمت ہے ، سب سے بڑی رحمت یہی ہے ۔ کسی انسان کا صرف اللہ سے امیدوار ہونا ، اسی پر بھروسہ کرنا رحمت ہے۔ ہر معاملے میں اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا اور اللہ پر اعتماد کرنا ہی رحمت ہے۔ اور حقیقی عذاب یہ ہے کہ انسان اس سے چھپ جائے۔ اس سے مایوس ہوجائے اور اس میں شک کرے۔ یہ ایک ایسا عذاب ہے جو کسی مومن کے کبھی قریب ہی نہیں جاتا۔ انہ لا بیئس ۔۔۔۔۔ الکفرون ” اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہوا کرتے ہیں “۔ اللہ کی رحمت کا اگر کوئی طالب ہو تو وہ ہر کسی کو ہر جگہ مل جاتی ہے۔ کسی کے لیے ناپید نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے آگ میں پایا۔ یونس (علیہ السلام) نے اسے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں پایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے سمندر کی لہروں میں پایا جبکہ وہ طفل ناتواں تھے۔ پھر انہوں نے اسے فرعون کے محل میں پایا جبکہ وہ ان کا دشمن ہوگیا اور اس کی تلاش میں نکل گیا۔ اصحاب کہف نے اسے غار میں پایا جبکہ محلات اور شہروں میں وہ اس سے محروم رہے جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ فاوا الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ (18: 16) ” غار میں پناہ لے لو ، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت کی چادر بچھا دے گا “۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفیق نے اسے غار میں پایا جبکہ کفار ان لوگوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ اور ان کے قدموں کے نشانات کو تلاش کرکے غار کے دھانے تک پہنچ گئے تھے۔ یہ رحمت ہر اس شخص کو ملتی ہے جو تمام دوسرے ذرائع سے مایوس ہوجائے اور اسے بالکل یہ امید نہ رہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور قوت بھی بچانے والی ہے اور وہ پوری طرح یقین کرتا ہے کہ اب اللہ کی رحمت ہی بچانے والی ہے اور تمام دروازوں کو چھوڑ کر وہ اللہ کے در پر سوالی ہوگیا ہو۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کسی پر کھول دے تو اس کا بند کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جب اللہ اپنی رحمت کے دروازے کسی پر بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک سچے مومن کے دل میں کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔ کسی سے کچھ امید نہیں رہتی۔ کسی چیز کے چلے جانے کا خوف نہیں رہتا اور کسی چیز کی امید نہیں رہتی کسی ذریعے کے فوت ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور کسی وسیلے کی موجودگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اللہ کی مطلق مشیت ہی اصل فیکٹر ہے۔ لہٰذا اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو کوئی بند کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہے۔ معاملہ براہ راست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ عزیز و حکیم ہے۔ وہ ایسے اندازے اور تقدیر مقرر کرتا ہے کہ کسی کو روکنے یا عطا کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں رہتا۔ اللہ کی عطا اور اللہ کا روک لینا اس کی اپنی رحمت کے مطابق ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی اپنی حکمتوں کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ کے ہر کام کے پیچھے ایک حکمت کام کر رہی ہوتی ہے۔ ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔ ممسک لھا ” اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا ہی نہیں ہے “۔ اللہ کی رحمت اور لوگوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں۔ لوگ براہ راست اللہ سے براہ راست طلب کرسکتے ہیں۔ وہ بلا وسیلہ طلب کرسکتے ہیں۔ صرف بندے کی طرف سے توجہ ، اطاعت ، امید ، بھروسے اور سر اطاعت ختم کردینے کی ضرورت ہے وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ ” اور جسے وہ بند کر دے اسے پھر اللہ کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں ہے “۔ یہ آیت انسانی ضمیر کو انتہائی قرار و سکون اور انسانی شعور اور تصور کو نہایت ہی نمایاں کرتی اور انسانی اقدار اور پیمانوں کو اونچا معیار عطا کرتی ہے۔ انسانی شخصیت کو وقار اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن زندگی کے لیے بالکل ایک نیا نقشہ تیار کرتی ہے۔ انسانی تصور اور شعور کو نہایت مستحکم قدریں عطا کرتی ہیں۔ ایسی قدریں جن میں نہ تزلزل ہے ، نہ جھکاؤ اور نہ وہ وقتی باتوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ اثرانداز ہونے والے فیکٹر آئیں یا جائیں ، بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں ، عظیم ہوں یا چھوٹے ہوں ، ان کا مبدا لوگ ہوں یا واقعات ہوں ، یا اشیاء ہوں۔ ان سے یہ قدریں متاثر نہیں ہوتیں۔ یہ زندگی کی ایک صورت ہے اگر یہ عقیدہ انسانی زندگی میں بیٹھ جائے تو وہ واقعات ، اشیاء ، افراد ، بڑی بڑی قوتوں ، اقدار اور حالات کے سامنے پہاڑ کی طرح سینہ سپر ہو کر کھڑا ہوجائے۔ اگرچہ اس پر جن و انس باہم مل کر ، سب کے سب ٹوٹ پڑیں۔ یہ تمام جن و انس نہ اللہ کی رحمت کے دروازے کو بند کرسکتے اور نہ اگر بند ہوں تو کھول سکتے ہیں۔ صرف اللہ ہی العزیز اور الحکیم ہے۔ اسلام کے آغاز میں اسلام اور قرآن نے انسانوں کا ایک ایسا ہی گروہ پیدا کردیا تھا۔ یہ ایسا گروہ تھا کہ اللہ نے خود اپنی نگرانی میں اس قرآن کے ذریعہ پیدا کردیا تھا ، تاکہ یہ گروہ قدرت الہیہ کے لیے دست قدرت ہو۔ یہ گروہ اس زمین کے اندر وہ عقائد و تصورات تخلیق کرے جنہیں اللہ چاہتا تھا۔ وہ قدریں عطا کرے جن کو اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ حالات اور صورت حالات پیدا کر دے جو اللہ چاہتا تھا اور دنیا کے اندر ایک ایسی زندگی ، عملی زندگی قائم کرکے چلا جائے جس کے بارے میں آج جب ہم پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں افسانہ اور قصے نظر آتے ہیں۔ وہ گروہ جو اللہ کی تقدیر تھا ، اسے اللہ جس پر چاہتا تھا ، مسلط کردیتا تھا۔ اس کے ذریعہ اللہ نے کچھ کو اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور کچھ کو قائم کردیا۔ جنہیں اللہ مٹانا چاہتا تھا یا جنہیں اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لیے کہ یہ یہ گروہ اس قرآن کے الفاظ ہی کے ساتھ معاملہ نہ کرتا تھا ، نہ خوبصورت نطریات و تصورات ہی سے بحث کرتا تھا بلکہ اس نے قرآن کو اپنی زندگیوں کے اندر عملاً قائم کردیا تھا اور وہ گروہ قرآن کی دنیا میں زندہ رہتا تھا۔ وہی قرآن لوگوں کے پاس موجود ہے۔ یہ قرآن اب بھی ایسے گروہ پیدا کرسکتا ہے جو دنیا سے اقوام کو مٹا دیں اور دوسری اقوام کو اٹھا دیں۔ لیکن یہ تب ہوگا کہ قرآنی تصورات کسی گروہ کی زندگی میں ٹھوس شکل میں ، عملی شکل میں بیٹھ جائیں ، رائج ہوجائیں اور قرآن کسی گروہ کی زندگی میں چلتا پھرتا نظر آئے ۔ اسے لوگ آنکھوں سے دیکھ سکیں اور ہاتھوں سے چھو سکیں۔ اب میں اس طرح آتا ہوں کہ اس مختصر آیت کے ذریعے میں نے معلوم کرلیا ہے کہ اللہ کی مجھ پر خاص رحمت ہے۔ میں نے جب اس آیت کا سامنا کیا تو میں روحانی لحاظ سے نہایت ہی خشک ، فکری لحاظ سے بہت تنگ ، نفسیاتی لحاظ سے بہت ہی پریشان ، جسمانی اور سازوسامان کے لحاظ سے مشکل حالات میں تھاما۔ ایسے سخت اور شدید حالات میں ، میں نے اس آیت کا مطالعہ کیا۔ اللہ نے مجھے اس آیت کی حقیقت تک پہنچا دیا۔ یہ حقیقت میری روح میں انڈیل دی گئی۔ گویا وہ ایک شراب طہور ہے جو میرے جسم کی رگ رگ میں سرایت کر رہی ہے اور میں اسے محسوس کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے جس کا میں ادراک کر رہا ہوں۔ محض تصور نہیں ہے۔ یہ حقیقت بذات خود میرے لیے رحمت ہے اور یہ آیت میرے سامنے خود اپنی تفسیر بیان کر رہی ہے۔ یہ ایک واقعی اور عملی تفسیر تھی۔ جس طرح اس آیت کے اسرار و رموز میرے سامنے کھلے اسی طرح اللہ کی رحمت کے دروازے بھی میرے سامنے کھلے۔ اس سے قبل میں اس آیت کو پڑھتا رہا اور اس آیت کے پاس سے اس سے قبل میں بارہا گزرا ہوں لیکن آج یہ آیت مجھ پر رحمت کا فیضان کر رہی ہے۔ میں اس کے معانی اور مفہومات سے سیراب ہو رہا ہوں۔ میں اس آیت کی حقیقت کو صاف صاف دیکھ رہا ہوں۔ یہ آیت مجھے پکار رہی ہے کہ آئیے میں ادھر ہوں۔ میں اللہ کی رحمت ہوں ، جس کا دروازہ کبھی کبھی کھلتا ہے۔ ذرا دیکھئے اللہ کی رحمت کے کرشمے۔ غور کیجئے میرے ماحول کی کوئی چیز نہیں بدلی لیکن میرے احساس نے اب ہر چیز کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ یہ ایک نہایت عظیم رحمت ہے جو کسی پر ہوجاتی ہے۔ اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس طرح اس آیت کے خزانے مجھ پر کھل گئے۔ یہ ایک نعمت خدواندی ہے اور جب یہ کسی پر آتی ہے تو انسان اسے چکھتا ہے۔ اس کے اندر زندگی بسر کرتا ہے لیکن اس کے لیے اس کا بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس احسا کو اور اس ذوق کو قلم بند کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میں ایک عرصہ رحمت خداوندی کے اس فیضان میں زندہ رہا ہوں ، اسے محسوس کرتا رہا ہوں اور اسے پہچانتا رہا ہوں۔ اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات میں مجھ پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اب میری حالت یہ ہے کہ میں کشادگی ، خوشی ، سیرابی ، آزادی اور بےقیدی محسوس کرتا ہوں۔ ہر چیز سے آزادی ، ہر کرب اور ہر رنج سے آزادی محسوس کرتا ہوں اور میں اسی جگہ ہوں ، جہاں تھا۔ یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جس کے دروازے مجھ پر کھل گئے ہیں۔ یہ اللہ کا فیض ہی ہے جس کی مجھ پر اس آیت کے ذریعہ بارش ہو رہی ہے۔ یہ آیت ہے ، قرآن کی بس ایک ہی آیت لیکن اس نے تاریک کوٹھڑی میں روشنی کا ایک طاق کھول دیا ہے۔ اس نے میری سیرابی کے لیے خشک جگہ پر ایک چشمہ آب صافی بہا دیا ہے اور میں اب نہایت ہی کھلی شاہراہ پر رضائے الٰہی کی سمت نہایت ہی اطمینان کے ساتھ بڑھ رہا ہوں۔ اور چشم زون میں۔ اذیت کے بجائے میری زندگی راحت میں بدل گئی ہے۔ الحمدللہ ، حمدا کثیرا ” اے پروردگار ، جس نے اس قرآن کو اللہ کی رحمت بنا کر بھیجا مومنین کے لیے رحمت اور شفاء اور ہدایت “۔ مطالعہ کلام الٰہی کے دوران یہ ایک چمک تھی جسے میں نے قلم بند کردیا۔ اب دوبارہ ہم سورة کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلی دو آیات کے اندر جو اشارات تھے وہی تیسری آیت میں بھی ہیں۔ لوگوں پر ان کے حوالے سے اللہ کے انعامات اور رحمتوں کا ذکر ہے۔ اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ مالک اور حاکم اور رازق نہیں ہے۔ تعجب انگیز اسلوب سے کہا جاتا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ لوگ یہ اختیارات اللہ کے سوا کسی اور معبود کو دیتے ہیں۔
Top