Fi-Zilal-al-Quran - Faatir : 39
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗ١ؕ وَ لَا یَزِیْدُ الْكٰفِرِیْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًا١ۚ وَ لَا یَزِیْدُ الْكٰفِرِیْنَ كُفْرُهُمْ اِلَّا خَسَارًا
هُوَ : وہی الَّذِيْ : جس نے جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا خَلٰٓئِفَ : جانشین فِي الْاَرْضِ ۭ : زمین میں فَمَنْ كَفَرَ : سو جس نے کفر کیا فَعَلَيْهِ : تو اسی پر كُفْرُهٗ ۭ : اس کا کفر وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں بڑھاتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كُفْرُهُمْ : ان کا کفر عِنْدَ : نزدیک رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : سوائے مَقْتًا ۚ : ناراضی (غضب) وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں بڑھاتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كُفْرُهُمْ : ان کا کفر اِلَّا : سوائے خَسَارًا : خسارہ
” وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے ، اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں
درس نمبر 204 ایک نظر میں یہ اس سورة کا آخری سبق ہے اور یہ وسیع مطالعاتی اسفار پر مشتمل ہے۔ اس میں جابجا دل و دماغ کو تیز احساس دلایا گیا ہے اور اشارات و ہدایات دی گئی ہیں۔ انسان کی تاریخ کی طویل وادی میں دور تک یہ سفر ہے ، جس میں بیشمار نشیب و فراز آتے ہیں۔ بعض اقوام و ملل کیا اور بعض کچھ ہیں۔ پھر زمین و آسمان کا ایک سفر بھی اس میں ہے جس میں سعی بسیار کے باوجود اللہ کا کوئی شریک اور ہمسر نہ ملا۔ پوری کائنات کو چھان مارا۔ پھر ایک سفر اس مطالعہ کے لیے ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ نے کس طرح تھام رکھا ہے وہ مہین توازن کیا ہے جس کی وجہ سے کائنات کے یہ دیوہیکل کرے باہم نہیں ٹکراتے۔ پھر ایک سفر اس قوم کی وادیوں میں ہے جس نے ہدایت کو ٹھکرا دیا ہے حالانکہ اس سے قبل یہ قوم دعائیں کرتی تھی کہ اگر اس کے اندر کوئی رسول آگیا تو وہ دو امتوں میں سے کسی ایک کے مقابلے میں کم از کم زیادہ ہدایت پر ہوں گے۔ لیکن جب ان کے ہاں رسول بشیر و نذیر بھیجا گیا تو وہ اپنے وعدے کو بھلا بیٹھے اور بےحد نفرت کرنے لگے اپنے مطلوب رسول سے۔ اور پھر انسانی تاریخ کی طویل وادیوں میں ہلاک کردہ اقوام کی سیر جن پر عذاب آئے اور ہلاک ہوئیں لیکن آج کے لوگ ان مصائب سے کوئی عبرت نہیں لیتے اور پھر اس سبق کا خوفناک خاتمہ۔ ولو یواخذ اللہ ۔۔۔۔۔ من دابۃ (35: 45) ” اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑتا “۔ لیکن یہ اللہ کا عظیم فضل ہے کہ وہ لوگوں کو مہلت دئیے جا رہا ہے اور ان پر تباہ کن عذاب نازل نہیں فرماتا حالانکہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ درس نمبر 204 تشریح آیات 39 ۔۔۔ تا۔۔۔ 45 ھو الذی جعلکم۔۔۔۔۔۔ کفرھم الا خسارا (39) “۔ زمین کے اوپر نسلوں کا آنا اور جانا اور اس کا تسلسل اور ایک نسل کا مٹنا اور دوسری کا اس کی جانشینی کے مقام کو پانا ، ایک مملکت کا ختم ہونا اور دوسری کا قیام عمل میں آنا ، ایک شعلہ جوالہ کا بجھنا اور دوسرے کا اشتعال پذیر ہونا ، ایک قوم کا مٹنا اور دوسری کا ظاہر و غالب ہونا اور صدیوں سے ایسا ہوتے چلے جانا۔ تاریخ کی اس رفتار پر غور و فکر کرنے سے انسان کو بہت سا سبق اور عبرت حاصل ہوتی ہے اور حاضر اقوام یہ سوچتی ہیں کہ انہیں بھی اسی طرح نیست و نابود ہونا ہے۔ ان کے آثار پر بھی آنے والے اسی طرح غور کریں گے جس طرح ہم جانے والوں کے آثار پر غور کرتے ہیں۔ یوں غافل سے غافل شخص بھی ہوش کے ناخن لے سکتا ہے۔ یوں ایک گور کرنے والا یہ غور کرسکتا ہے کہ وہ دست قدرت کیا ہے جس کی یہ سب کرشمہ سازیاں ہیں کہ کسی کی عمر کم ہے اور کسی کی زیادہ۔ آج ایک حکومت ہے اور کل دوسری۔ آج ایک ملک پر قابض ہے اور کل دوسرا قابض ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کی جانشین ہے۔ ہر چیز جاری ہے۔ اس کی انتہاء ہو رہی ہے اور باقی ہے صرف نام اللہ کا۔ جو نہ زائل ہوتا ہے اور نہ اس کے لیے انتہاء ہے۔ جو چیز جانے والی ہے اور اس کا وجود ختم ہوتا ہے وہ دائمی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح ایک مسافر کسی منزل پر رکتا ہے۔ کل اسے آگے جانا ہوتا ہے۔ اور بعد میں دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس نے کیا کیا اور کیا چھوڑا۔ اور اس کا انجام یہ ہونے والا ہے کہ اس کا حساب کیا جائے کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہ کیا۔ لہٰذا ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی قلیل زندگی میں اچھے کام کرے اور اپنے پیچھے ذکر جمیل چھوڑے۔ کچھ ایسے کام کرے جو اس کے جائے آرام میں اسے کام آئیں۔ یہ ہیں بعض وہ خیالات جو دل و دماغ کی دیواریں پھلانگ کر آتے ہیں لیکن اس وقت جب کوئی اقوام کے عروج وزوال کو دیکھتا ہے۔ طلوع و غروب پر غور کرتا ہے۔ عروج پانے والی قوتوں اور مٹ جانے والی قوتوں کے امور پر غور کرتا ہے اور ایک قوم کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسری قوم کی وارث ہوجاتی ہے۔ ھو الذی جعلکم خلئف فی الارض (35: 39) ” وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے “۔ اس موثر ، مسلسل اور دیکھے جانے والے منظر کے سائے میں ، انسانوں کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ذمہ داری انفرادی ہے۔ لہٰذا قیامت میں کوئی کسی کی جگہ کوئی ذمہ داری نہ اٹھا سکے گا اور کوئی کسی کے مقابلے میں مدافعت نہ کرسکے گا۔ یہاں اشارہ کیا جاتا ہے کہ تم جس طرح منہ پھیرتے ہو ، جس طرح کفر کرتے ہو ، جس طرح گمراہی ہی مبتلا ہوتے ہو ، آخر کار اس کا انجام نہایت ہی گھناؤنا ہوگا فمن کفر فعلیہ۔۔۔۔۔ کفرھم الا خسارا (35: 39) ” اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے ، اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں “۔ مقت کا مفہوم شدید غضب ہے اور جس پر اللہ کا شدید غضب ہوجائے تو اسے جان لینا چاہئے کہ کس قدر بر انجام اس کے انتظار میں ہے۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ دوسرا سفر آسمانوں کی وسعتوں میں ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ جن لوگوں کو یہ اللہ کا شریک بناتے ہیں آیا ان کے کسی کارنامے کے کوئی آثار زمین و آسمان میں ہیں۔ زمین و آسمان میں تو ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے اور نہ کچھ آثار ہیں۔
Top