Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
: (اے نبی ﷺ کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ، اپنے رب سے ڈرو۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے ، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بےحساب دیا جائے گا “۔
آیت نمبر 10 کہو اے میرے بندو ، جو ایمان ہوئے ہو ، قل یٰعباد الذین اٰمنوا (39: 10) اہل ایمان کی طرف نہایت ہی نظر کرم ہے۔ اصل میں عربی عبارت یوں ہے : قل یٰعباد الذین اٰمنوا (39: 10) یعنی ان سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ متقی بن جاؤ۔ اپنے رب سے ڈرو۔ لیکن اللہ نے اسے براہ راست پکارہ کے صیغے میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک قسم کا اعلان اور تنبیہہ ہے۔ رسول اللہ ؐ تو مسلمانوں کو (یاعبادی) کہہ کر نہیں پکارتے تھے آپ تو عباد اللہ کہہ کر انہیں پکارتے تھے لیکن یہ اللہ کی نظر کرم ہے کہ وہ حضور ﷺ سے فرماتا ہے کہ (یاعباد) کہہ کر پکارو۔ یوں یہ پکار اللہ کی جانب سے ہو اور حضور اکرم ﷺ اللہ کے ڈائریکٹ خطاب کی حکایت فرمائیں۔ قل یٰعباد الذین اٰمنوا اتقوا ربکم (39: 10) ” اے نبی کہو ، اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ، اپنے رب سے ڈرو “۔ تقویٰ کیا ہے ، وہی دل کی حساسیت۔ اللہ کی طرف ڈر اور خشیت کے ساتھ دیکھنا ۔ امید اور طمع کے ساتھ دیکھنا ۔ اس کے غضب ، ناراضگی سے ڈرتے رہنا۔ یہ ہے بہترین تصور اہل ایمان کی۔ اس آیت میں جو تصویر کشی کی گئی ہے اور اس میں جو رنگ بھرے گئے ہیں وہ وہی ہیں جو آیت سابقہ میں ہیں ، البتہ یہ عملی رنگ ہیں۔ للذین احسنوافی ھٰذہ الدنیا حسنة (39: 10) ” جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ، ان کے لیے بھلائی ہے “۔ کیا خوب جزاء ہے کہ اس دنیا میں اچھا سلوک کرو۔ تو یہاں اس حقیر دنیا میں بھی اچھائی پاؤ اور آخرت میں بھی اچھائی پاؤ۔ جو دار بقا دار دوام ہے۔ لیکن یہ انسان پر فضل وکرم ہے اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ انسان کس قدر ضعیف اور ناتواں ہے۔ اس لیے اللہ نے اس پر بےپناہ کرم کیا۔ وارض اللہ واسعة (39: 10) ” خدا کی زمین وسیع ہے “۔ لہٰذا زمین کی محبت اور کسی ایک جگہ کے ساتھ الفت تمہیں بہاکر نہ رکھ دے۔ نسب ، رشتہ داری اور دوستی کے روابط تمہیں بڑے کاموں سے روک نہ دیں۔ ہجرت ایک عظیم مقصد کے لیے ہوتی ہے ۔ اگر کوئی جگہ تمہارے دین کے لیے تنگ ہو اور جہاں تم اسلام کا محسنانہ نظام جاری نہیں کرسکتے تو پھر زمین سے چمٹے رہنا شیطان کی حرکت ہے۔ اور یہ انسان کے دل میں شرک کا ایک رنگ ہے۔ یہ قرآن کا نہایت ہی لطیف اشارہ ہے ، اس طرف انسان کے دل و دماغ میں خفی اس طرح سرایت کرتی ہے کہ بات اللہ کی وحدانیت اور اللہ سے ڈرنے کی ہورہی ہے۔ اور اس میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا سرچشمہ وہی ذات باری ہے جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ کیونکہ انسان کے دل و دماغ کا یہ علاج وہی ذات کرسکتی ہے جو انسان کی خالق ہے اور جو انسان کے بارے میں پوری معلومات رکھتی ہے۔ اور انسان کی شخصیت کے خفیہ گوشوں کو جانتی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ ہجرت انسانوں کے لیے کس قدر مشکل کام ہے۔ دنیا کے ان رابطوں کو یکلخت ترک کردیتا ، کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک چالو زندگی کو ترک کرنا ، رزق کے ایسے وسائل جن کا انسان عادی ہوجائے۔ ان کو ترک کرنا ، چلتے ہوئے کاروبار کو چھوڑنا ، اور بالکل ایک نئی سرزمین پر ازسرنو زندگی شروع کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس کے لیے انسان مشکل سے تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس معاملے کو بڑا صبر کہا گیا ہے اور اس پر بڑے اور پورے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ انما۔۔۔۔ حساب (39: 10) ” صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا “۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسانی دلوں کو نہایت ہی برمحل یہ احساس دلاتا ہے اور ان کو اس کام کے لیے آمادہ فرماتے ہیں جو بالعموم انسانوں کے لیے بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔ اور ہجرت جیسے شدید حالات میں اللہ ان پر اپنی رحمت اور شفقت اور اپنے قرب کی شبنم گراتا ہے۔ اور وطن کے روابط ، الفت و محبت اور اہل و عیال اور رشتہ داریوں اور دوستوں کو قربان کرنے پر بعض بےحساب اجر کا وعدہ فرماتا ہے ۔ پاک ہے وہ ذات جو انسان کے بارے میں حلیم وخبیر ہے۔ اور انسانی قلوب کے ساتھ یہ مشفقانہ معاملہ کرتی ہے۔ اور انسانی نفسیات کے نشیب و فراز کے اندر گہرائیوں تک پائے جانے والے نہایت ہی خفیہ احساسات کو جانتی ہے اور ان کا مداوا کرتی ہے۔
Top