Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 20
لٰكِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّةٌ١ۙ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ۬ وَعْدَ اللّٰهِ١ؕ لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ الْمِیْعَادَ
لٰكِنِ : لیکن الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : جو لوگ ڈرے رَبَّهُمْ : اپنا رب لَهُمْ : ان کے لیے غُرَفٌ : بالاخانے مِّنْ فَوْقِهَا : ان کے اوپر سے غُرَفٌ : بالاخانے مَّبْنِيَّةٌ ۙ : بنے ہوئے تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَعْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کا وعدہ لَا يُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْمِيْعَادَ : وعدہ
البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرکر رہے ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل نبی ہوئی ، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔
آیت نمبر 20 اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے منزل بنی ہوئی بلند عمارتوں یعنی بالاخانوں کا یہ منظر اہل جہنم کے اس منظر کے بالمقابل ہے جن سے اوپر بھی چھتریاں ہوں گی آگ کی اور نیچے بھی ہوں گی۔ یہ تقابل قرآن کے انداز کلام کا ایک حصہ ہے۔ اور یہ ان تمام مناظر میں پایا جاتا ہے جو قرآن مجید میں تقابلی مناظر کے طور پت پیش کئے گئے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کا وعدہ ہمشہ واقع ہوکر رہتا ہے۔ جن مسلمانوں نے سب سے پہلے اس قرآن کوسنا۔ انہوں نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ان کے لیے کوئی وعدہ یا وعید دورنہ تھا ۔ ان کے قلوب اور ان کے احساسات تو ان کی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ وعدے اور وعید تو ان کے لیے مشاہدہ تھے۔ یہ وعدے اور وعید سن کر وہ کانپ اٹھتے تھے اور ان کے نفوس اس طرح اپنا رخ قرآن کے ساتھ بدل دہتے تھے۔ جس طرح بادنما ہوا کے ساتھ رخ کو بدل دیتا ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کو اخروی مناظر کے مطابق بدل دیئے تھے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مناظر قیامت میں زندہ رہ رہے تھے۔ یہی رویہ ہونا چاہئے ایک مسلمان کا قرآن کے حوالے سے کہ وہ قرآن کو سمجھے اور اپنی عملی زندگی کے رخ کو قرآن کے رخ پر ڈالتا رہے۔
Top