Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
(لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر وبیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ‘ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لئے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے ‘ اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسا کرے اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے ۔
درس نمبر 40 ایک نظر میں : یہ سبق درس سابق کے ساتھ مربوط ہے اور ان دونوں کے درمیان کئی ربط ہیں ۔ اس میں بعض آیات تو درس سابق کے واقعہ کی باز گشت ہیں ۔ اس واقعہ اور وحی الہی کے بعد بشر ابن ابیرق جو چوری میں ملوث تھا ‘ مرتد ہوگیا تھا اور رسول اللہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا تھا ۔ اور اسلام کے بعد دوبارہ جاہلیت میں چلا گیا تھا ۔ چناچہ اس حوالے سے اس سبق میں جاہلیت کی بات کی گئی ہے ۔ جاہلی خیالات ‘ تصورات اور اس نظام میں شیطان کی کارستانیاں وغیرہ ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان سرحد شرکیہ عقاید ہیں ۔ اللہ کے نظام میں شرک کی معافی نہیں ہے ۔ اس کے سوا سب کچھ قابل معافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سبق میں راتوں کو خفیہ سازشوں سے بھی منع کیا گیا ہے اور جو کام بھی خفیہ ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر اچھے نہیں ہوتے ۔ مثلا درس سابق میں چوری کے واقعہ میں جو نجوی ہوا ۔ نجوی کی ممانعت کے بعد اس میں بھلائی معروف مشورے اور لوگوں کے درمیان اصلاح وغیرہ کی اسکیموں کو اس سے مستثنی کیا گیا ۔ اس لئے کہ یہ تو کارثواب ہے ۔ پھر آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں جزا اس کے اپنے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے اور اس میں کسی کی ذاتی چاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ نہ مسلمانوں اور نہ ہی اہل کتاب کی چاہت کا اس میں داخل ہوگا ۔ سب کام اللہ کے بےقید انصاف کے مطابق ہوگی ۔ اور سچائی کے مطابق ہوں گے اور اگر سچائی لوگوں کی چاہتوں کے پیچھے چلے تو زمین و آسمان کا تمام نظام فاسد ہوجائے ۔ غرض یہ سبق اپنے موضوع اور اپنے رخ کے اعتبار سے ۔ سابق کے ساتھ پوری طرح مربوط ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ امت مسلمہ کی تربیت کی ایک نئی کڑی ہے جسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا پیش نظر تھا ۔ اس طرح کہ وہ تنظیم میں فوقیت رکھتی ہو اور اسکی نظر میں ہو کہ اس کی صفوں میں کہاں کہاں کمزوریاں ہیں اور کہاں کہاں ابھی تک آثار جاہلیت باقی ہیں تاکہ وہ انکی اصلاح کرسکے ۔ یہ وہ مقصد ہے کہ اس پوری سورة میں اس کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ اس سے متعلق کئی موضوع زیر بحث آئے اور پورے قرآن کریم کے مقاصد میں سے بھی یہ ایک اہم موضوع ہے ۔ درس 40 تشریح آیات : 114۔۔۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 126 (آیت) ” نمبر 114۔ قرآن کریم میں نجوی کی بار بار ممانعت کی گئی ہے ۔ نجوی یہ ہے کہ کوئی گروہ اسلامی جماعت سے علیحدہ اور اسلامی قیادت سے علیحدہ کوئی بات سوچے اور اس کیلئے جمع ہو ۔ اسلامی تربیت کا طریق کار یہ تھا کہ لوگ اپنی تمام مشکلات اور مسائل کو لے کر اسلامی قیادت کے پاس آتے اور اگر بات ذاتی ہوتی تو وہ تنہائی میں پیش کرتے تاکہ عوام الناس میں بات پھیل نہ جائے اور اگر بات کی نوعیت عمومی ہوتی تو اسے علانیہ پوچھتے یعنی اگر بات کا خصوصا پوچھنے والے سے تعلق نہ ہوتا ۔ اس پالیسی میں حکمت یہ تھی کہ اس کی وجہ سے جماعت مسلمہ کے اندر کوئی بلاک یا گروہ نہ بن سکتے تھے اور نہ ہی یہ ہو سکتا تھا کہ جماعت کے کچھ حصے اپنے تصورات اور اپنی مشکلات کو لے کر الگ ہوجائیں یا وہ اپنے رجحانات اور اپنے افکار کے مطابق اپنی راہ لیں ۔ یہ صورت حال بھی نہ ہو کہ جماعت کے کچھ لوگ رات کو مشورہ کرکے ایک بات کا فیصلہ کرلیں اور دن کے وقت جماعت کے اندر بطور ایک فیصلہ شدہ امر پیش کردیں ۔ اگرچہ حضور ﷺ کے دور میں تو کوئی بات مخفی نہ رہ سکتی تھی ‘ وہ جو کچھ مشورہ کرتے اللہ انکے ساتھ ہوتا اور بوقت ضرورت حضور اکرم ﷺ کو اطلاع دے دیتا ۔ مسجد نبوی جماعت مسلمہ کی پارلیمنٹ تھی ۔ وہاں لوگ باہم ملتے تھے ۔ نماز پڑھتے تھے اور زندگی کے تمام معاملات وہاں ہی طے ہوا کرتے تھے ۔ پھر اسلامی معاشرہ ایک کھلا معاشرہ (Open Society) تھا اس میں وہ تمام معاملات پیش ہوتے تھے جو جماعت کے جنگی اسرار و رموز سے متعلق نہ ہوتے یا ایسے مسائل نہ ہوتے جن کا تعلق لوگوں کی ذات اور خاندانوں سے ہو اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ لوگوں کے علم میں آئیں ۔ اسلامی سوسائٹی چونکہ ایک کھلی سوسائٹی تھی اس لئے وہ آزاد اور پاک وصاف سوسائٹی تھی اور اس سوسائٹی میں علیحدہ جنبہ بنا راتوں کو مشورہ وہی لوگ کرتے تھے جو اس کے خلاف سازش کرتے تھے یا اس کے اصولوں میں سے کسی اصول کے خلاف جمع ہوتے تھے اور یہ لوگ عموما منافقین ہوا کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی نجوی ہوا ‘ اس میں منافقین شریک رہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ اسلامی معاشرہ میں اس سے پاک وصاف ہونا چاہئے اس میں جن لوگوں کو کسی چیز کے بارے میں کوئی بھی خلجان ہو ‘ اسے چاہیے کہ وہ اسے قیادت عامہ کے سامنے پیش کرے ۔ یا اگر کوئی مشکل پیش آئے یا کوئی تجویز انکے سامنے ہو یا کوئی رجحان نظر آئے تو ان معاملات میں اسے قیادت کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ یہاں قرآن مجید نے نجوی کی ایک قسم کو جائز رکھا ہے ۔ دراصل وہ نجوی ہی نہیں ہے اگرچہ شکل نجوی کی ہے ۔ (آیت) ” الا من ابر بصدقۃ اومعروف او اصلاح بین الناس (4 : 114) (ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لئے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے) مثلا دو اچھے اور نیک آدمی جمع ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ مشورہ کریں کہ کیا فلاں شخص کی مدد کے لئے یا فلاں کام میں روپیہ خرچ کرنا چاہئے اس لئے کہ اس شخص کو ضرورت ہے اور مجھے اس کی ضرورت کا علم ہے یا یہ کہ فلاں کام میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے ‘ آئیے یہ کام کریں ۔ یا یہ کہ فلاں اور فلاں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ‘ آئیے ان کے درمیان مصالحت کرا دیں ۔ ایسے لوگوں کی کوئی انجمن یا سوسائٹی بھی بن سکتی ہے جو مشورہ کرکے کسی نیک کام میں باہم تعاون کرسکتی ہے بشرطیکہ یہ کام نہ نجوی ہوں اور نہ اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ۔ اگرچہ ظاہری شکل میں یہ نجوی بھی ہوگا لیکن قرآن نے اسے ” امر “ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس قسم کی محدود ساسائٹی بعض اوقات اپنے امور رات کو تنہائی میں طے کرتی ہے اور ان کا مقصد معروف اور بھلائی کا کام ہوتا ہے ۔ لیکن اس قسم کی سوسائٹی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی تشکیل اور سرگرمی کی رضا مندی کے حصول کے لئے ہو۔ (آیت) ” ومن یفعل ذلک ابتغآء مرضات اللہ فسوف نوتیہ اجرا عظیما (4 : 114) (اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسا کرے گا تو اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے) یعنی کسی شخص پر صدقہ کرنے اور فلاں اور فلاں کے درمیان اصلاح حال کرنے کا مقصد یہ نہ ہو کہ یہ کام کرنے والے لوگ اس طرح مشہور ہوجائیں کہ لوگ کہیں کہ خدا کی قسم یہ بہت ہی اچھے لوگ ہیں کہ صدقہ و خیرات کے لئے لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اصلاح کا کام کرتے ہیں ۔ غرض اس کام میں انکے پیش نظر رضائے الہی کے حصول کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو ۔ یہ ہے وہ فرق و امتیاز جو محض رضائے الہی اور اجر اخروی کے لئے کئے جانے والے کام اور اس کام کے درمیان ہوتا ہے ‘ جو کسی اور غرض کے لئے کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ بظاہر دونوں کام ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ایک کا اندراج بھلائی کے رجسٹر میں ہوتا ہے اور دوسرے کا اندراج برائیوں کے رجسٹر میں ہوتا ہے ۔
Top