Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
” تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں اللہ ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا ۔ اگر میت کی وارث دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے
(آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “ اور اس فقرے کے بعد پھر تمام وارثوں کے حصص کا بیان ہوتا ہے ۔ اور یہ تقسیم اور تقرری اس عمومی اصول کے تحت ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہدایت اور وصیت ہے ۔ اس کی تفصیلات دو طویل آیات میں دی گئی ہیں ۔ پہلی آیت میں اصول اور فروع کے درمیان تقسیم میراث ہے ۔ یعنی آیا اور اولاد کے درمیان ‘ اور دوسری آیت میں ازدواجی رشتہ اور کلالہ کے حصص میراث کا بیان ہے ۔ اور پھر بعض تتمہ احکام اس سورت کے آخر میں کلالہ کے بارے میں آتے ہیں (تفصیلات آرہی ہیں ۔ ) (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدة فلھا النصف ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد ، فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابوہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوة فلامہ السدس من بعد وصیة یوصی بھا او دین ابآوکم وابنآوکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما (11) ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیة یوصین بھا اودین ، ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد ، فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیة توصون بھا دین ، وان کان رجل یورث کللة اوامراة ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث من بعد وصیة یوصی بھا اودین غیر مضآر وصیة من اللہ ، واللہ علیم حلیم “۔ (21) ترجمہ :” تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت اور اللہ دانا وبینا اور نرم خو ہے “۔ یہ دو آیات اور اس سورت کی تیسری آیت میں علم میراث کے اصولی قواعد کو منضبط کیا گیا ہے ، اس سورت کی تیسری آیت یہ ہے ۔ (آیت) ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللة ان امرو¿ا ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ما ترک وھو یرثھا ان لم یکن لھا ولد فان کانتا اثنتین فلھما الثلثن مما ترک وان کانوا اخوة رجالا ونسآء فللذکر مثل حظ الانثیین ، یبین اللہ لکم ان تضلوا ، واللہ بکل شیء علیم (671) ترجمہ : ” لوگ تم سے کلالہ کے معاملے میں فتوی پوچھتے ہیں ‘ کہو اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے ‘ اگر کوئی شخص بےاولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی اور اگر بہن بےاولاد مر جائے تو بھائی اس کا وارث ہوگا ۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی اور اگر بھائی اور بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا ۔ اللہ تمہارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ “ ان تین آیات میں علم میراث کے اصولوں کو منضبط کردیا گیا ہے ۔ ان اصولوں کے مزید فروعی مسائل کی وضاحت سنت رسول ﷺ میں اور اقوال صحابہ میں کی گئی ہے ۔ اور اس کے بعد ان اصول و فروع سے فقہائے کرام نے اجتہاد کر کے تفصیلی مسائل بیان کئے ہیں ۔ ان فروعی مسائل کی تفصیلات کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ تفصیلات کا مطالعہ کتب فقہ میں کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں فی ضلال القرآن میں ہم فقط ان آیات کی تشریح کریں گے ۔ نیز ان آیات کے آخر میں جو تعقیبات ہیں اور ان میں اسلامی نظام زندگی کے جو اصولی نظریات بیان ہوئے ہیں ہم انکی تشریح کریں گے ۔ (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “۔ ” تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں اللہ وصیت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا ۔ “ اس افتتاحی آیت سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں کہ علم میراث کا یہ اصل الاصول ہے ۔ اور یہ کہ اس علم کا منبع کیا ہے ۔ اور یہ کہ یہ علم کس مصدر سے نکلا ہے ۔ اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ وادین سے بھی زیادہ رحیم اور شفیق ہے ۔ اور اس نے ان کیلئے جو حصص تجویز کئے ہیں تو یہی ان کے مفاد میں ہیں ۔ اور اس قسم کی تقسیم خود والدین بھی نہیں کرسکتے ۔ یہ دونوں مفہوم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اللہ ہی ہے جو وصیت کرتا ہے ۔ وہی حصص مقرر کرتا ہے اور اور وہی لوگوں کے درمیان میراث تقسیم بھی کرتا ہے بعینہ اسی طرح وہ ہر معاملے میں وصیت بھی کرتا ہے ۔ اور فرائض وواجبات بھی مقرر کرتا ہے اور اسی طرح وہ اس کائنات کے اندر مخلوقات کی روزی بھی تقسیم کرتا ہے ۔ اور یہ تمام ضابطے اور شرائع وقوانین بھی اسی کی جانب سے آتے ہیں ۔ یہ اللہ ہی ہے جس سے لوگ ان کے تمام حالات زندگی میں ضابطے اخذ کرتے ہیں ۔ اور ان میں سے ایک حال لوگوں کے درمیان ترکے کی تقسیم بھی ہے ۔ خود ان کی اولاد کے درمیان اور یہی دین اسلام ہے ۔ اور اگر لوگ اپنی زندگی کے تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کی وصیت اور ضابطوں کو قبول نہیں کرتے تو یہ دین نہ ہوگا ۔ اور یہ حالت اسلامی حالت نہ ہوگی کہ وہ اپنے امور حیات میں ‘ چاہے وہ بڑے امور ہوں یا چھوٹے امور ہوں ‘ کسی دوسرے ماخذ سے ضابطے اخذ کریں ۔ یہ صورت حال یا شرک ہوگی یا کفر صریح ہوگی ، اور یہ پھر وہی جاہلیت ہوگی جس کی جڑیں عوام الناس کی زندگیوں سے اکھاڑنے کیلئے اس دنیا میں اسلام آیا تھا ۔ یہاں اللہ جس چیز کی وصیت فرما رہے ہیں جسے فرض فرما رہے ہیں اور حکم دے رہے ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں میں اس کے مطابق حکم چلے ‘ وہ تمام احکام لوگوں کیلئے نہایت نفع بخش اور مفید ہیں ۔ خصوصا وہ چیزیں جو ان کی مخصوص شخص امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مثلا ان کی دولت کی تقسیم اور اس میں ان کی اولاد کے حصص وغیرہ اور یہ تقسیم ان تقسیمات سے زیادہ مفید ہے جو وہ آپس میں خود کر رہے ہیں ۔ اور جن چیزوں کو وہ اپنی اولاد کیلئے پسند کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ لوگوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے لئے خود جو چاہیں اختیار کریں گے اور یہ کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے لئے کیا مفید ہے اور کیا غیر مفید ہے ۔ اس لئے کہ یہ بات علاوہ اس کے کہ فی نفسہ باطل ہے ‘ یہ بےجا جسارت ہے ‘ خود سری ہے اور اللہ جل شانہ کے مقابلے میں زیادہ علم کا دعوی ہے ۔ اور یہ ایک ایسا ” ادعاء “ ہے جو نہایت بےباک اور جاہل شخص ہی کرسکتا ہے ۔ عوفی نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “ کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب احکام میراث نازل ہوئے اور ان میں اللہ تعالیٰ نے جو حصص مقرر کئے وہ کردیئے ، بیٹے کا حصہ ‘ بیٹی کا حصہ اور والدین کا حصہ تو لوگوں نے اسے بہت ہی برا مانا ۔ یا بعض لوگوں نے اسے ناپسند کیا ۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ عورت کو چہارم اور ہشتم دیا جاتا ہے اور بیٹی کو نصف دیا جاتا ہے ، اور چھوٹے بچے کا حصہ بھی مقرر ہوگیا حالانکہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو لڑائی کے وقت کام آتا ہو اور کوئی بھی نہیں ہے جو لڑائی کے بعد مال غنیمت ہتھیا سکتا ہو ، ان احکام کے بارے میں بالکل خاموش ہو جاو شاید رسول اللہ ﷺ ان احکام کو بھول جائیں یا ہم ان کے بارے میں آپ ﷺ سے سفارش کریں اور آپ ان میں تبدیلی کردیں ۔ چناچہ انہوں نے کہا : اے رسول خدا ! ﷺ آپ ایک لڑکی کو باپ کے ترکے میں سے نصف دیتے ہیں ‘ حالانکہ وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتی اور نہ وہ جنگ میں حصہ لیتی ہے ۔ پھر ایک نابالغ بچے کو میراث دی جارہی ہے اور وہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ اور جاہلیت میں تو وہ اس طرح کرتے تھے کہ وہ میراث صرف ان لوگوں کو دیتے تھے جو جنگ میں حصہ لیتا تھا اور وہ تقسیم میں سب سے بڑے کو اس کے بعد جس کا نمبر ہو اس کو دیتے تھے ۔ (روایت ابن ابی حاتم وابن جریر) غرض عربی جاہلیت کی منطق یہ تھی ‘ اس لئے قانون میراث کے احکامات ان میں سے بعض لوگوں کو کھٹکتے تھے ۔ یہ لوگ اللہ کے فرائض اور اس کی عادلانہ تقسیم کے مقابلے میں آگئے حالانکہ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ تھی ۔ اور آج کی جاہلیت جدیدہ کی بھی یہی منطق ہے جو بعض لوگوں کے دل میں خلجان پیدا کرتی ہے ۔ اس لئے یہ منطق بھی اللہ کے فرائض اور تقسیم کے مقابلے میں سامنے آتی ہے ۔ اگرچہ جاہلیت جدیدہ بعض پہلووں سے جاہلیت عربیہ سے مختلف نوعیت رکھتی ہے ۔ آج کی جاہلیت کی منطق یہ ہے کہ ہم ترکہ ان لوگوں کو تقسیم کرکے کیوں دیں جنہوں نے اس ترکے کی کمائی میں کوئی محنت ومشقت نہیں کی ، اور نہ اس میں کوئی تکلیف برداشت کی ۔ اور یہ ذہنیت بھی ایسی ہے ‘ جس نے حکمت الہیہ کو نہیں پایا ۔ نیز یہ منطق بھی دراصل سخت گستاخی اپنے اندر لئے ہوئے اور گستاخی اور جسارت میں جاہلیت قدیمہ اور جدیدہ دونوں برابر ہیں ۔ (آیت) ” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ ” مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا ۔ یعنی اگر مرد کی وارث صرف اس کی اولاد ہو بیٹے اور بیٹیاں تو سب ترکہ انہیں ملے گا اور مرد کا حصہ عورتوں کے حصے میں دوگنا ہوگا ۔ یعنی لڑکی کا ایک حصہ اور لڑکے کے دو حصے ۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان دونوں کے حصوں میں یہ فرق و امتیاز اس لئے نہیں کیا گیا کہ کسی صنف کو دوسرے پر فضیلت ہے بلکہ حصص کا یہ فرق اس لئے روا رکھا گیا ہے کہ اسلامی نظام نے عائلی زندگی میں مرد اور عورت پر جو ڈیوٹیاں رکھی ہیں یہ فرق حصص ان کے مطابق نہایت ہی متوازن اور عادلانہ ہے ۔ عائلی زندگی سے آگے اسلامی معاشرے کے اجتماعی امور میں بھی عورت کے مقابلے میں مرد پر زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں ۔ ایک مرد عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور وہ اس کا نفقہ بھی دیتا ہے ۔ اس کی اولاد کا نفقہ بھی دیتا ہے ۔ اور یہ ذمہ داریاں اس وقت بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جب یہ مرد اس عورت کو طلاق بھی دے دیتا ہے ۔ رہی عورت تو وہ یا تو خود اپنی ضروریات کی ذمہ دار ہوتی اور یا یہ صورت ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی اس کے نفقے کا ذمہ دار مرد ہی ہوتا ہے ۔ اور وہ خاوند اور اپنی اولاد کے نفقات کی کسی صورت میں بھی ذمہ دار نہیں ہوتی ۔ اب صورت یہ ہے کہ مرد عورت کے مقابلے میں خاندان کی ضروریات کے دو حصے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح اجتماعی معاملات میں بھی مرد کی ذمہ داریاں عورت کے مقابلے میں دو گنا ہیں ۔ اس لئے اللہ کے مقرر کردہ یہ حصص ایک طرف عادلانہ بھی ہیں اور دوسری جانب بمصداق حصہ بقدر جسہ یہ تقسیم منصفانہ بن جاتی ہے ۔ اور اس تقسیم پر ہر اعتراض یا تو جہالت پر مبنی ہے اور یا یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بےجا جسارت اور گستاخی کی وجہ سے وارد کیا گیا ہے ، نیز اس سے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی اور خاندانی نظام کی بنیادوں کو اکھیڑ دیا جائے اور پرسکون زندگی کے اندر افراتفری پیدا کردی جائے ۔ تقسیم کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ باپ دادا کی میراث اولاد پر کس طرح تقسیم ہوگی فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدة فلھا النصف “۔ ترجمہ : ” اگر میت کی وارث دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔ “ یعنی اگر صرف دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں اور لڑکے نہ ہوں تو انہیں دو تہائی دیا جائے گا ۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو اور لڑکا نہ ہو تو پھر نصف اس کا ہوگا بقایا عصبات کو ملے گا ۔ قریب ترین عصبہ کو ۔ عصبات یہ لوگ ہیں باپ ‘ دادا ‘ بھائی حقیقی باپ شریک بھائی ‘ چچا اور پھر باپ داد کی اولاد ‘ اس آیت کی عبارت یہ ہے کہ ” اگر وارث دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو ان کے دو تہائی ہے ۔ “ سوال یہ ہے کہ اگر دو ہوں تو ان کیلئے حکم کیا ہے ۔ ان کا حصہ بھی دو تہائی ہے ‘ جو حدیث سے ثابت ہے ۔ نیز وہ ان دو بہنوں کے حصے پر قیاس کر کے بھی ثابت ہوتا جس کا ذکر اس سورت کی آخری آیت میں مسئلہ کلالہ میں ذکر ہوا ۔ ابو داود ‘ ترمذی اور ابن ماجہ نے عبداللہ ابن محمد ابن عقیل کی روایت حضرت جابر سے نقل کی ہے ۔ کہتے ہیں حضور ﷺ کے پاس سعد ابن ربیع کی بیوی آئی اور عرض کیا حضور ﷺ یہ سعد ابن ربیع کی دو لڑکیاں ہیں ۔ وہ آپ کے ساتھ احد میں شہید ہوگئے ہیں ۔ ان کے چچا نے سب مال لے لیا ہے ‘ اگر ان کے پاس مال نہ ہوگا تو ان کے ساتھ شادی کون کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ اس کے بارے میں ضرور کوئی فیصلہ کرے گا ۔ “ اس موقعہ پر آیت میراث نازل ہوئی ۔ حضور ﷺ نے ان کے چچا کو بلا بھیجا اور حکم دیا سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دیدو اور بیوی کو آٹھواں دیدو اور باقی تمہارا ہے ۔ یہ خود حضور ﷺ کی تقسیم ہے ۔ آپ ﷺ نے دو لڑکیوں کو دو تہائی دیا ۔ اس لئے اگر دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو ان کو دو ثلث ملیں گے ۔ رہا سورت کی آخری آیت پر قیاس تو اس میں بہنوں کے بارے میں ہے ۔ (آیت) ” فان کانتا اثنتین فلھما الثلثن مما ترک “ ترجمہ ” اور اگر وہ بہنیں دو ہیں تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا ۔ “ لہذا کسی باپ کی اگر دو لڑکیاں ہو تو انہیں بطریق اولی دو تہائی ملے گا ۔ دو بہنوں پر قیاس کرتے ہوئے ۔ اس لئے کہ اگر ایک لڑکی ہے تو بھی نصف حصہ ہے ۔ اور اگر ایک بہن (کلالہ میں) تو بھی نصف حصہ ہے ۔ اور دو لڑکیوں کا حصہ بھی وہی ہوگا جو دو بہنوں کا ہوگا ۔ اولاد کے حصہ کے بیان کے بعد اب والدین کے حصص کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ موجود ہوں ۔ یہ حصص اولاد میت کی موجودگی اور عدم موجودگی کی صورت میں مختلف ہیں ۔ ” اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو مال کا تیسرا حصہ دیا جائے گا ۔ “ میراث میں والدین کے حالات متعدد ہوتے ہیں پہلا حال یہ ہوتا ہے کہ والدین بھی ہوں اور میت کی اولاد بھی ہو۔ اس صورت میں دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا ۔ بقیہ میت کے لڑکے یا لڑکے لڑکیوں میں حسب حصص تقسیم ہوگا ۔ مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں دو گنا ہوگا ۔ اب اگر میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو اسے بقیہ کا نصف ملے گا اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا ملے گا ۔ اب بقیہ (61) والد کو بطور عصبہ مل جائے گا اس صورت میں اولاد بطور ذوالفروض بھی حصہ پائے گا اور بطور عصبہ بھی حصہ پائے گا ۔ ہاں اگر میت کی دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو وہ تو انہیں دو ثلث اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میت کی اولاد ‘ بھائی بہن اور خاوند بیوی نہ ہوں ‘ اس صورت میں والدہ بطور ذوالفروض ثلث کی حقدار ہوگی اور باقی سب والد کو بطور عصبہ ملے گا ۔ اس صورت میں والد کا حصہ والدہ سے دو گناہ ہوجائے گا ۔ اب اگر والدین کے علاوہ خاوند بھی ہو یا بیوی بھی ہو ‘ تو خاوند کا نصف ہوگا ‘ اور اگر بیوی ہو تو اس کا چہارم ہوگا اور والدہ کا ثلث ہوگا ۔ (یا تو تمام ترکہ کا ثلث ہوگا یا بقیہ ترکہ یعنی خاوند یا بیوی کا حصہ نکال کر بقیہ کا ثلث ہوگا ‘ جیسا کہ فقہا کے دو اقوال ہیں) اور ماں کے بعد جو بچے گا وہ والد کا ہوگا بطور عصبہ بشرطیکہ کہ والد کا حصہ والدہ سے کم نہ ہوگا ۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ اور میت کے بھائی بہنوں کے ساتھ پائے جائیں ۔ یہ بھائی ماں اور باپ دونوں میں شریک ہوں یا باپ میں شریک یا صرف ماں میں شریک ہوں ۔ اس صورت میں باپ کی موجودگی میں ان بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا اور یہ محروم ہوں گے ۔ اس لئے کہ لڑکے کے بعد میت کیلئے والد قریب ترعصبہ ہیں اور قریب کی موجودگی میں دور کو نہیں ملتا ۔ لیکن محروم ہونے کے باوجود یہ بھائی میت کی ماں پر اثر انداز ہوں گے اور اس کا حصہ ثلث سے چھٹے تک گھٹ جائے گا ۔ اس صورت میں والدہ کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اور بقیہ سب کچھ والد کو ملے گا ‘ بشرطیکہ کہ میت کا خاوند یا بیوی نہ ہوں ۔ ہاں اگر بھائی فقط ایک ہو تو والدہ کا حصہ ثلث ہی رہے گا ‘ جس طرح اس صورت میں تھا جس میں میت کی اولاد اور بھائی نہ ہوں ۔ لیکن والدین کے یہ حصص قرضے کی ادائیگی اور وصیت پورا کرنے کے بعد ہوں گے ۔ (آیت) ” من بعد وصیة یوصی بھا او دین “۔ ترجمہ : ” یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کردی جائے اور جو قرض اس پر ہو ادا کردیا جائے ۔ “ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ۔ ” علمائے جدید وقدیم نے اس بات پر اجماع کرلیا ہے کہ قرضہ وصیت پر مقدم ہے ۔ ” اور وصیت پر قرضے کو مقدم کرنے کی حکمت بہرحال واضح ہے ۔ اس لئے کہ قرضے میں ایک تیسرے شخص کے حقوق کا سوال ہوتا ہے ‘ اس لئے کہ میت کے مال میں سے اس کی ادائیگی لازمی ہے ‘ کیونکہ خود اس نے قرضہ لیا ہوتا ہے ۔ بشرطیکہ میت کا مال موجود ہو ‘ یہ اس لئے کہ شریعت نے میت کو قرضے کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرنے کی بہت تاکید کی ہے تاکہ معاشرے کی اجتماعی زندگی میں باہم اعتماد بحال رہے اور سوسائٹی کے اندر باہم اعتماد کی فضا باقی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعد بھی شریعت اس کے ذمہ واجب الادا قرضوں کو موقوف نہیں کردیتی ۔ حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے ‘ وہ فرماتے ہیں ایک شخص نے کہا : ” حضور بتائیے اگر میں مارا گیا تو میرے سب گناہ معام ہوں گے “ تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” ہاں اگر آپ قتل ہوجائیں ‘ جبکہ آپ مشکلات پر صبر کر رہے ہوں ۔ آپ کی نیت ٹھیک ہو اور آپ آگے بڑھ رہے ہوں ‘ بھاگ نہ رہے ہوں ۔ “ اسکے بعد اس شخص نے دو بار پوچھا ‘ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تو حضور ﷺ نے دوبارہ اسی بات کو دہرایا اور مزید یہ فرمایا ‘ ” ماسوائے قرضے کے جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اس کی اطلاع دی ہے “ (روایت مسلم ‘ مالک ‘ ترمذی اور نسائی) ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے ۔ حضور کے پاس ایک شخص کو لایا گیا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کا جنازہ تم لوگ پڑھو ‘ اس پر تو قرضہ واجب ہے ۔ “ میں نے اس پر کہا ’ ” حضور ﷺ یہ قرضہ مجھ پر ہوا ۔ “ تو حضور ﷺ نے فرمایا پورا کرو گے ۔ “ میں نے عرض کیا ” میں پورا کروں گا ۔ “ اور وصیت کا پورا کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ میت کا ارادہ اس کے ساتھ متعلق ہوگیا ہے ۔ وصیت کی گنجائش شریعت نے اس لئے رکھی ہے کہ بعض حالات میں بعض رشتہ دار محروم ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ محرومی بعض دوسرے رشتہ داروں کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ بعض اوقات یہ محروم لوگ معذور اور مستحق ہوتے ہیں یا ان کو کچھ نہ کچھ دینے میں پورے خاندان کی مصلحت ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کی وجہ سے حسد ‘ کینہ اور خاندان کے اندر نزاع پیدا ہونے سے رک جاتے ہیں ۔ البتہ یہ اصول مسلم ہے کہ کسی وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہے ۔ اور وصیت محدود بھی ترکہ کی ایک تہائی تک ہے ۔ ان دو باتوں کی وجہ سے میت بھی کسی وارث کو محروم نہیں کرسکتا ۔ (آیت) ” ابآوکم وابنآوکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا ، فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما “۔ ترجمہ : ” تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف ہے ‘ ساری مصلحتوں کو جاننے والا ہے ۔ اس آیت کے آخر میں مختلف المقاصد ٹچ دیئے گئے ہیں پہلا ٹچ اس مقصد کیلئے ہے جسے محسوس کرکے قرآن کریم کی جانب سے ‘ حصص کے اس الاٹمنٹ سے خوش ہوجائیں اور اسے بطیب خاطر قبول کرلیں ‘ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر باپ کے مقابلے میں اولاد کو ترجیح دیں ، کیونکہ بچوں کی طرف ہر انسان کا فطری رجحان زیادہ ہوتا ہے ۔ اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا اپنے والدین کی نسبت اخلاقی اور آداب کا شعور زیادہ پختہ ہوتا اور وہ اولاد کے مقابلے میں والدین کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کے پاس ادب اور بچوں کی طرف فطری میلان کے درمیان فیصلہ نہیں کر پاتے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک خاندان رسم و رواج کی ذہنیت کی وجہ سے ایک متعین لائن اختیار کرلیتا ہے ‘ جس طرح نزول قرآن کے وقت مروج قانون میراث میں صرف خاندانی ذہنیت اس وقت کے رسم و رواج کے تحت کام کر رہی تھی ۔ اس سے پہلے ہم عربوں کے بعض رواجوں کا تذکرہ کرچکے ہیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا کہ اہل ایمان کے دلوں کو تسلیم ورضا اور امن و سکون سے بھر دیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کو خوشی خوشی قبول کرتے چلے جائیں ۔ اللہ انہیں یہ شعور دیتے ہیں کہ ہر چیز کا مکمل علم اللہ کی ذات ہی کے پاس ہے ۔ اور یہ کہ انہیں بات کا پورا علم نہیں ہے کہ اقرباء میں سے کون ان کیلئے زیادہ مفید ہے اور کون کم ‘ نہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ کونسی تقسیم زیادہ مفید ہے ۔ (آیت) ” ابآوکم وابنآوکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا “ ترجمہ : ” تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ “ دوسرا ٹچ جو اس مضمون کو دیا گیا وہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون تمہارے لئے مفید اور کون مفید تر ہے ۔ اصل مسئلہ دین ‘ نظام قانون اور شریعت کا ہے اور یہ جو حصص مقرر ہو رہے ہیں یہ (آیت) ” فریضة من اللہ “۔ ” یہ حصص تو اللہ نے مقرر کردیئے ہیں ۔ ’ اللہ وہ ذات ہے جس نے ماں باپ کو بھی پیدا کیا اور اولاد کو بھی پیدا کیا ۔ وہی ہے جو مال و دولت دینے والا ہے ۔ وہ فرائض وحصص عائد کرنیوالا ہے اور وہی تقسیم کنندہ ہے ۔ اور وہی ہے جسے قانون بنانے کا حق ہے انسان کو تو یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی قانون بنائیں نہ وہ اس میں آزاد ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام حکومت تجویز کریں ‘ اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ کس میں ان کی مصلحت ہے یہ تو صرف وہی ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان علیما حکیما “۔ ترجمہ : ” جو سب حقیقتوں سے واقف ہے ۔ یہ تیسری ٹچ ہے جو اس تبصرے کے اندر دی گئی ہے ، کہ باوجود اس امر کے یہ قانون ایک خدائی فیصلہ ہے اور ہر حال میں بھی ان کیلئے واجب الاطاعت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ گہری حکمت اور وسیع تر مصلحت پر بھی مبنی ہے ۔ اور اللہ نے یہ حکم اپنے وسیع علم کی بنا پر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس میں اس کی گہری حکمت کار فرما ہے جبکہ انسان محض خواہش نفس کے پیرو ہوا کرتے ہیں ۔ اس قانون سازی کے اندر بار بار تبصرہ ہوتا ہے کہ معاملے کو اپنی اصل مدار کی طرف لوٹانا چاہئے اور اس کی اصل مدار نظریاتی ہے ۔ اور یہ نظریاتی اساس دین کے اس مفہوم پر مبنی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے تمام فیصلے اللہ سے کرائے جائیں اور اس کی حکمت پر راضی ہو کر فرائض اسی سے اخذ کئے جائیں ۔ ” یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف ہے اور سب مصلحتوں کا جاننے والا ہے ۔ “
Top