Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 121
اُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١٘ وَ لَا یَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِیْصًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مَاْوٰىھُمْ : جن کا ٹھکانا جَهَنَّمُ : جہنم وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہ پائیں گے عَنْھَا : اس سے مَحِيْصًا : بھاگنے کی جگہ
(ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے ۔
(آیت) ” نمبر 121 تا 122۔ اور وہ جہنم جس سے اولیاء الشیطان کو بھی چھٹکارا نہ ہوگا ۔ دوسری جانب جنت ہے جس میں خدا دوست ہمیشہ رہیں گے (۔۔۔۔ ومن اصدق من اللہ قیلا (4 : 122) (اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہوگی) اللہ کی بات مطلقا سچی ہوتی ہے جس کے مقابلے میں شیطان کی بات فریب اور جھوٹ ہوتی ہے اور جو لوگ شیطان کے جھوٹے وعدوں میں آجاتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے سچے وعدے پر یقین کرتے ہیں ان دونوں کے موقف میں بہت ہی بڑا فرق ہے ۔ اس کے بعد قرآن کریم عمل اور جزائے عمل کے بارے میں اللہ کے عظیم اور ناقابل تغیر اصول کو بیان کرتا ہے کہ ثواب و عقاب کا دارومدار محض خواہشات نفس اور تمناؤں پر نہیں ہوتا ۔ ثواب و عقاب ایک مستقل سنت اور دائمی اصول پر مبنی ہوتا ہے اور وہ ایک نہایت ہی مثبت قانون ہے ۔ اس قانون کا اطلاق تمام امتوں میں رہا ہے ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کا نہ نسب ملتا ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ اللہ کی رشتہ داری ہے اور دنیا میں کوئی نہیں ہے کہ اس کے لئے اس اصول میں کوئی نرمی کی جائے یا اس کیوجہ سے سنت الہیہ میں کوئی تبدیلی یا تخلف ہوگا ۔ یا اس کے مفاد میں قانون بدل جائے گا ۔ جو برا کرے گا وہ جزائے بد سے دو چار ہوگا اور جو اچھائی کرے گا وہ جزائے خیر پائے گا ‘ غرض جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اس میں نہ دوستی ہے اور نہ لحاظ ۔
Top