Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ اللّٰهَ
: اللہ کی اطاعت کرے
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
يُدْخِلْهُ
: وہ اسے داخل کرے گا
جَنّٰتٍ
: باغات
تَجْرِيْ
: بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِھَا
: ان کے نیچے
الْاَنْھٰرُ
: نہریں
خٰلِدِيْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
فِيْھَا
: ان میں
وَ
: اور
ذٰلِكَ
: یہ
الْفَوْزُ
: کامیابی
الْعَظِيْمُ
: بڑی
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں جو ہمیشہ رہیں گے ۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
یہ نظام میراث اور یہ قانونی شریعت جو تقسیم میراث کیلئے وضع کی گئی ہے اور جسے اللہ نے اپنے علم و حکمت کے مطابق وضع فرمایا ہے ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک خاندان کے اندر خاندانی نظام کو منظم کیا جائے اور معاشرے کے اجتماعی اور اقتصادی تعلقات مستحکم ہوجائیں ۔ ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ “ اور یہ حدیں اس لئے قائم کی گئی ہیں کہ وہ ان عائلی واقتصادی تعلقات میں سنگ میل ہوں اور ترکہ کی تقسیم میں فیصلہ کن ہوں ۔ جو لوگ اس معاملے میں اللہ کی اطاعت کریں گے وہ ہمیشہ جنگ میں رہیں گے اور یہ ان کی عظیم کامیابی ہے ۔ اور جو لوگ ان حدوں کو توڑیں گے اور اس معاملے میں اللہ اور رسول اللہ کی نافرمانی کریں گے جہنم میں داخل ہوں گے ‘ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اور یہ ان کیلئے دردناک اور توہین آمیز عذاب ہوگا ۔ یہ کیوں ہوگا ؟ اس معاملے میں اللہ کی اطاعت یا اللہ کی معصیت کے نتیجے میں اس قدر عظیم نتائج کیوں مرتب ہوں گے ‘ حالانکہ قانون میراث نظام شریعت کا بہرحال ایک چھوٹا سا حصہ ہی تو ہے ۔ صرف ایک حصہ اور ایک حصے میں اس قدر شدید سزا ؟ بظاہر یہ خوفناک سزا اس جرم سے بہت زیادہ نظر آتی ہے ۔ لیکن یہ اس شخص کو زیادہ نظر آتی ہے جو اس بات کی حقیقت اور گہرائی تک نہیں پہنچ سکا ہے ۔ اس حقیقت کے اظہار کیلئے اس سورت کی بہت سی آیات مسلسل گویا ہیں اور ان کی تشریح و تفسیر آگے آرہی اور اس امر کی جانب ہم نے اس سورت کا تعارف پیش کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا ۔ یہ وہ آیات ہیں جن میں لفظ دین کا مفہوم سمجھایا گیا ۔ ایمان کی شرائط بیان ہوئی ہیں اور جن میں اسلام کی تعریف کی گئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود مناسب ہے کہ ہم اس امر کے بارے میں مختصرا یہاں بھی ایک نوٹ دیدیں جس قدر ان دو آیات کی تشریح و تفہیم کیلئے ضروری ہے جو آیات میراث کا اختتامیہ اور تبصرہ ہیں ۔ اس دین ‘ دین اسلام بلکہ ان تمام ادیان جو اس پوری تاریخ انسانیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ بھیجے ہیں یعنی تمام سماوی ادیان الہیہ کا بنیادی سوال یہی رہا ہے کہ اس کرہ ارض پر حاکمیت کا حق کس کو حاصل ہے ؟ ان لوگوں کا رب کون ہے ؟ ان دو سوالوں کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے اور اس دین کے تمام معاملات ان جوابات کی روشنی میں طے ہوتے ہیں اور لوگوں کے تمام امور انہیں جوابات کی روشنی میں طے ہوتے ہیں ۔ اب اس سوال کا کیا جواب ہے ۔ اس کرہ ارض پر حاکمیت اور ربوبیت کا حق کس کو حاصل ہے ؟ صرف اللہ وعدہ کو ‘ اس حق میں اس کے ساتھ ‘ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہے ۔ یہی عین ایمان ہے ، یہی عین اسلام ہے ۔ اور یہی دین اسلام ہے ۔ اور اگر حاکمیت اور ربوبیت کا یہ حق کسی مخلوق کو دیا جائے اور انہیں اللہ کی ساتھ شریک کیا جائے یا اللہ کے سوا مستقلا میں یہ حق دیا تو یہ صریح شرک اور واضح کفر ہے ۔ حاکمیت اور ربوبیت یا تو صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہوگی ‘ تو اس صورت میں لوگ صرف اللہ وحدہ کے دین میں داخل ہوں گے اور صرف اللہ وحدہ کی اطاعت میں داخل ہوں گے اور اس کی عملی صورت یہی ہوگی کہ لوگ اسلامی نظام زندگی پر عمل پیرا ہوں ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ حق صرف اللہ ہی کو حاصل ہوگا کہ وہ لوگوں کیلئے نظام زندگی تجویز کریں اور یہ صرف اللہ وحدہ ہی ہوگا جو لوگوں کیلئے طور طریقے اور قوانین اور ضابطے وضع کریں ، پھر یہ صرف اللہ ہی ہوگا جو لوگوں کیلئے حسن وقبح کے معیار متعین کرے گا اور ان کی زندگی کے تفصیلی طور طریقے اور تنظیم کرے گا ۔ اور اللہ کے سوا کوئی فرد ہو یا کوئی سوسائٹی ہو اس کیلئے ایسے کچھ حقوق بھی نہ ہوں گے اور ان کیلئے صرف یہی چارہ کار ہوگا کہ وہ شریعت الہیہ کی اطاعت کریں کیونکہ یہ اطاعت اللہ کی الوہیت حاکمیت اور ربوبیت کا منطقی تقاضا ہے اور اس تقاضے کا واحد مظہر اور خاص رنگ نظام شریعت ہے ۔ اور اگر یہ صورت حال نہیں ہے تو پھر دوسری صورت یہی ہے کہ حاکمیت اور ربوبیت کا حق اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں ہوگا ۔ یہ حق اللہ کے ساتھ شریک ہو کر ہوگا یا ان لوگوں کو مستقلا حاصل ہوگا ۔ اس صورت میں جو لوگ یہ حق قبول کریں گے وہ ان غیر اللہ کے دین میں داخل تصور ہوں گے ‘ یوں وہ غیر اللہ کی بندگی کریں گے ۔ پھر یہ انسان کی جانب سے غیر اللہ کی اطاعت ہوگی اور اس کی عملی شکل یوں ہوگی کہ یہ لوگ غیر اللہ کے تجویز کردہ منہاج حیات ‘ انکے ضابطوں ‘ ان کے قوانین اور ان کے حسن وقبح کے معیاروں کے پیروکار ہوں گے اور یہ سب چیزیں بعض انسانوں نے وضع کی ہوگی ۔ اس قانون سازی اور ضابطہ بندی میں وہ اللہ کی حاکمیت اور اس کی کتاب کا کوئی حوالہ نہ دے رہے ہوں گے ‘ بلکہ یہ تمام چیزیں بعض دوسرے حوالوں سے تشکیل پائیں گی ، بعض دوسرے مصادر ان کے لئے مصادر قوت ہوں گے ۔ اس لئے یہ صورت حال دین سے خالی ہوگی ‘ ایمان مفقود ہوگا اور اسلام نہ ہوگا جبکہ یہ صورت حال شرک ‘ کفر ‘ فسوق اور معصیت کی صورت حال ہوگی ۔ یہ ہے اس معاملے کی اصل حقیقت ‘ لہذا اس میں اگر کوئی صرف اللہ کی حدود میں سے ایک حد کو توڑتا ہے یا پوری شریعت کی نفی کرتا ہے ‘ اصل حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس لئے کی ایک حد بھی دین ہے اور پوری شریعت بھی دین ہے ‘ لہذا اس میں اصل ٹارگٹ یہ اصول ہوگا کہ لوگ حاکمیت اور ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک قرار دے رہے ہیں یا وہ اس میں کسی کو شریک کر رہے ہیں یا ذات باری کو الگ چھور کر بعض دوسرے لوگوں کی حاکمیت اور ربوبیت قبول کر رہے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ لوگ زبانی طور پر کیا دعوی کر رہے ہیں کہ وہ دین اسلام میں داخل ہیں اور مسلمان ہیں تو اگر یہ بات ان کے عمل میں نہیں تو اسلام نہ ہوگا ۔ یہ ہے وہ عظیم حقیقت جس کی طرف آیات میراث کے اس اختتامیہ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ نظام میراث میں ورثاء کے حصص کی تقرری کا تعلق براہ راست اللہ کی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے ہے ۔ یا اس معاملے میں اللہ اور رسول کی نافرمانی ہوگی ۔ یا اس کا نتیجہ ایسے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور یا اس کا انجام ایک توہین آمیز عذاب کی شکل میں ہوگا جو جہنم کی آگ میں دائما دیا جائے گا ۔ اور یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کا اظہار اس صورت میں متعدد آیات کے اندر مکرر کیا گیا ہے اور اسے اس قدر واضح اور فیصلہ کن انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس مین کسی تاویل اور کسی نفاق کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ۔ وہ لوگ جو ابھی تک اپنا تعارف اسلام کے حوالے سے کراتے ہیں میں ان کو یہ دعوت دوں گا کہ وہ اس بارے میں اپنا ذہن صاف کرلیں اور دیکھ لیں کہ وہ اسلامی نظام حیات اور دین اسلام سے کس قدر دور ہوچکے ہیں ۔ اس بحث کے بعد اب اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نظام میراث کے بارے میں چند کلمات عرض کروں اس سے پہلے (آیت) ”۔ للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن “۔ ” مردوں کیلئے وہی کچھ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کیلئے بھی وہی کچھ ہے جو انہوں نے کمایا “ ۔ کے ضمن میں ہم نے یہ عمومی اصول بیان کیا تھا اسی طرح (آیت) ” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ یہ کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوگا ۔ “ کے ضمن میں بھی ہم نے بحث کی تھی ۔ اسلام کا نظام وراثت ایک نہایت ہی عادلانہ اور فطرت انسانی کے ساتھ نہایت ہی ہم آہنگ نظام ہے ۔ نیز خاندانی زندگی کے عملی حال احوال کے ساتھ نہایت ہی موزوں ہے ۔ اور اس بات کی اچھی طرح وضاحت اس وقت ہوتی ہے جب ہم اس نظام کا تقابلی مطالعہ ان تمام نظاموں سے کرتے ہیں ‘ جو انسانی تاریخ میں کبھی رائج رہے ہیں یا اب ہیں ‘ جاہلیت قدیمہ میں یا جاہلیت جدیدہ میں۔ دنیا کے خطے میں اور کسی بھی قوم وملت میں اس نظام میں خاندان کی اجتماعی کفالت کے تمام مقاصد کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ ہر شخص کا حصہ اور خاندان کے اندر اس کی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر متعین کیا گیا ہے ۔ مثلا والدہ اور والد جو ذی الفروض میں سے ہیں ۔ ان کے بعد اس نظام میں عصبات کو اہمیت دی گئی ہے ۔ اس لئے کہ والدین کے نہ ہونے کی صورت میں کسی یتیم کی کفالت عصبات ہی کے ذمہ ہوتی ہے ۔ یہ عصبات ہی ہیں جو دیت اور دوسرے اجتماعی تاوان ادا کرتے وقت حصہ داریاں اپنے سر لیتے ہیں ۔ اس لئے اسلامی نظام میراث غایت درجہ مناسب اور موزوں ہے ۔ اس نظام کی اساس اس اصول پر ہے کہ یہ خاندانی نظام ایک ہی نفس بشر سے وجود میں آیا ہے ۔ اس لئے نہ اس میں بچے محروم ہوں گے اور نہ عورتیں محروم ہوں گی ۔ محض اس لئے کہ وہ عورتیں ہیں یا نابالغ ہیں ۔ چناچہ اگر یہ نظام عملی ذمہ داریوں میں فرق مراتب کرتا ہے تو نفس انسانیت کی اساس پر کوئی فرق بھی نہیں کرتا ۔ اس لئے اس میں حقوق دیتے وقت اصناف مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاتا ۔ فرق اگر ہے تو اجتماعی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے جو ذمہ داریاں اجتماعی خاندانی کفالت کے حوالے سے عائد ہوتی ہیں ۔ اس نظام کے اندر عام زندہ چیزوں کی فطرت اور خصوصا انسانی فطرت کو پوری طرح مدنظر رکھا گیا ہے ۔ چناچہ ہر حصص اور حقوق الاٹ کرتے وقت اولاد میت کو سب سے مقدم رکھا گیا ہے ۔ یعنی والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلے میں اس فطری میلان کے علاوہ آنے والی نوخیز نسل اس لئے بھی زیادہ مستحق ہے کہ اس کرہ ارض پر وہی زندگی کے تسلسل کا ذریعہ ہے ۔ وہی ہے جس کی وجہ سے بنی نوع انسان اس کرہ ارض پر موجود رہ سکتا ہے ۔ لہذا اس نوخیز نسل کا لحاظ ضروری ہے ۔ لیکن اس نوخیز نسل کی رعایت کے ساتھ ساتھ آباء کو بھی محروم نہیں رکھا گیا ۔ اور نہ ہی دوسرے رشتہ داروں کو محروم رکھا گیا ہے ۔ ہر ایک کو حصہ دیا گیا ہے ۔ فطرت کے منطقی تقاضوں کے عین مطابق ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو ہر زندہ چیز اور ہر انسان کے اس فطری تقاضے کے عین مطابق ہے جس کے تحت وہ اپنی نسل کے ساتھ گہرا ربط رکھنا چاہتا ہے اور یہ کہ اس اولاد کے ذریعہ گویا اس کے وجود کو تسلسل مل رہا ہے اس لئے اس نظام میراث کی وجہ سے ایک انسان مطمئن رہتا ہے کہ وہ جو اپنی سعی اور جدوجہد کو بحث کی شکل میں ذخیرہ کرتا رہتا ہے اور یہ اس کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے عمل کا ثمرہ اس کی اولاد کو ملے ۔ اور یہ کہ اس کی آئندہ نسل اس سے محروم نہ رہے ۔ اور یہ یقین کہ اس کی جدوجہد کا ثمرہ اس کی اولاد کو ملے گا ‘ اس کی جدوجہد کیلئے مہمیز کا کام دے گا ۔ وہ اپنی جہد وسعی میں مزید اضافہ کر دے گا اور یہ بات پوری سوسائٹی کیلئے بھی معاشی لحاظ سے مفید ہوگی ۔ اور اس جہد مسلسل کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعی نظام تکافل میں بھی کوئی فرق نہ آئے گا بلکہ اس نظام میں اسے پورا پورا ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اور آخری بات یہ ہے کہ اسلام کا نظام میراث کسی شخص کی جمع کردہ دولت کو اس وقت پاش پاش کردیتا ہے جب وہ انتہاوں کو چھو لیتی ہے ۔ اور اسے از سر نو تقسیم کردیتا ہے ۔ اس لئے یہ نظام دولت کو کسی ایک جگہ جمع ہونے نہیں دیتا ۔ اور نہ ہی چند ہاتھوں میں منجمد کرکے چھوڑتا ہے ۔ مثلا اس نظام کے حوالے سے جس میں پوری وراثت بڑے لڑکے کو مل جاتی ہے یا اسے چند محدود رشتہ داروں کے دائرے کے اندر محدود کردیا جاتا ہے ۔ اس پہلو سے یہ نظام ایک ایسا ذریعہ ہے جو سوسائٹی میں اقتصادی عمل کی کارکردگی کی از سر نو تجدید کرتا ہے اور اسے اعتدال پہ رکھتا ہے ۔ اور اس میں کسی انتظامیہ اور کسی اجتماعی نظام کا بھی کوئی ظاہری دخل نہیں ہوتا ‘ جسے کوئی فرد خوشی سے قبول نہیں کرتا اس لئے کہ انسان کی فطرت میں لالچ اور دولت کی محبت ودیعت کردی گئی ہے ۔ رہی اسلامی نظام میراث کی یہ مسلسل بت شکنی اور بار بار تقسیم جدید تو یہ اپنی جگہ جاری وساری بھی رہتی ہے اور نفس انسانی بھی اسے خوشی خوشی قبول کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ نظام انسان کی فطرت اور اس کی فطری حب مال اور حرص و لالچ کے عین مطابق ہے ۔ اور یہی ہے اصل فرق و امتیاز اس ربانی نظام زندگی اور دوسرے ان نظاموں کے درمیان جو انسان کیلئے انسان نے تجویز کئے ہیں ۔ (1) (تفصیلات کیلئے دیکھئے میری کتاب ” العدالہ الاجتماعیہ فی الاسلام “ کی فصل ” اسلام کی سیاسی پالیسی “۔ درس 13 ایک نظر میں : اس سورت کے پہلے سبق میں ‘ اسلامی معاشرے کے اندر اجتماعی زندگی کی تنظیم پر توجہ دی گئی اور اسے جاہلیت کی تمام آلائشوں سے پاک وصفا کردیا گیا ۔ اس میں معاشرے کے بےسہارا لوگوں ‘ ییتموں کے حقوق اور ان کی جائیداد کی حفاظت کی ضمانت دی گئی اور یہ حفاظت اور تحفظ ان کو ایک خاندان کے فطری فریم ورک کے اندر فراہم کیا گیا ‘ اجتماعی نگرانی کے اندر ۔ اس کے بعد ایک خاندان کے اندر نظام میراث کے اصول بیان کئے گئے اور پھر ان تمام حقوق اور تحفظات کو اس نظریہ حیات کے ساتھ مربوط کردیا گیا کہ اللہ ہی تمام لوگوں کا حاکم اور رب ہے ۔ اور یہ وہی ذات ہے جس نے اپنے حکم و ارادہ سے ایک ہی جان سے اس مخلوق کو پیدا کیا ہے اور یہ کہ اللہ نے بشریت کے اجتماعی نظام کو ایک خاندان کی اکائی سے شروع کیا ہے ۔ اور پھر اس خاندان کے اندر اجتماعی کفالتی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ۔ اور زندگی کے تمام حالات کی اس ضابطہ بندی کو اللہ کے علم اور حکمت اور اس کے تجویز کردہ حدود وقیود کے ساتھ مربوط کیا گیا اور یہ فیصلہ کردیا گیا کہ اگر وہ اللہ کی اطاعت کریں گے تو انعام جنت کے مستحق ہوں گے اور اگر معصیت کا ارتکاب کریں گے تو سزائے جہنم کے سزا وار ہوں گے ۔ اب اس دوسرے سبق میں اسلامی معاشرے کی اجتماعی زندگی کی تنظیم ایک دوسرے زاویہ سے کی گئی ہے اور ایک دوسرے پہلو سے اسے جاہلیت کی آلودگیوں سے پاک وصاف کیا گیا ہے یعنی اسے جاہلیت کی بےراہ روی اور فحاشی سے پاک کیا گیا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ان کو سوسائٹی سے علیحدہ کردیا جائے ۔ اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی جائے ۔ الا یہ کہ وہ اپنے رویہ سے باز آجائیں اور سچے دل سے توبہ کرلیں ۔ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوں اور اسلامی معاشرے میں پاکیزہ اخلاق وکردار کے ساتھ از سر نو آنے کے لئے تیار ہوں ۔ پھر اس دوسرے حصے میں عورت کو ان مظالم سے نجات دی گئی ہے جن کی چکی میں وہ ایام جاہلیت میں پس رہی تھی ۔ اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا تھا اور قسم قسم کے مظالم اس پر ڈھائے جاتے تھے تاکہ اسلامی معاشرہ صحت مند اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکے ‘ جس کی عام فضا پاک وصاف ہو اور جس کی عمارت نہایت ہی پختہ اساس پر ہو ۔ اور ایک خاندان اس کی پہلی اینٹ ہو ۔ اور اس حصے کے آخر میں خاندان کے ایک پہلو یعنی دائرہ محرمات کی ضابطہ بندی کی گئی ہے ۔ اس کے لئے شرعی قانون سازی کی گئی ہے ۔ اور اس کا اسلوب یہ اختیار کیا گیا ہے کہ محرمات کا ذکر کردیا گیا ہے اور ان کے علاوہ تمام بنات آدم کو انسان کے لئے جائز قرار دے دیا گیا ہے ۔ ان موضوعات پر یہ سبق بھی ختم ہوجاتا ہے اور قرآن کریم کا یہ پاربہ بھی اپنی انتہا کو پہنچتا ہے ۔
Top