Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
(اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے ‘ الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔
پارہ نمبر 6 ایک نظر میں : پارہ ششم دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ سورة النساء کے بقیہ حصہ پر مشتمل ہے ۔ سورة النساء کا آغاز پارہ چہارم کے آخر سے ہوا تھا پورا پارہ پنجم بھی اس پر مشتمل ہے اور پارہ ششم میں بھی اس کا کچھ آگیا ہے ۔ اس پارے کا دوسرا حصہ ‘ جو اس کا تقریبا تین چوتھائی حصہ ہے سورة مائدہ پر مشتمل ہے ۔ یہاں ہم اپنی بات کو صرف اس پارے کے حصہ اول ہی تک محدود رکھیں گے ۔ حصہ دوئم یعنی سورة مائدہ پر بحث سورة مائدہ کے موقع پر ہو گی ۔ جہاں ہم سورة مائدہ کی اہمیت اور اس کے موضوعات پر اسی طرح بحث کریں گے جس طرح ہم اس سے پہلے کی سورتوں پر کرچکے ہیں ۔ اگر اللہ کا تعاون شامل حال رہا ۔ سورة نساء پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے اس سورة کے جس منہاج بحث کے سلسلے میں کچھ کہا تھا اس حصے میں بھی وہی منہاج چل رہا ہے ۔ یہاں مناسب ہے کہ نہایت ہی مختصر الفاظ میں اسے دو بار قارئین کے پیش نظر رکھ دیا جائے ۔ یہ سورة اسلامی تصور حیات سے بحث کرتی ہے اور اسے اس نوخیز اسلامی جماعت کے ذہن نشین کرنے کے درپے ہے جسے اس نے جاہلیت کی گہری اور تنگ وادیوں سے اٹھایا اور اسے بتدریج بام عروج تک پہنچا دیا ۔ انتہائی بلندیوں تک اور اس جماعت کے ضمیر کو جاہلیت کے افکار کے ڈھیروں کے نیچے سے نکالا اور اس کے ان افکار کو چھانٹ کر رکھ دیا جن کی وجہ سے اس کے ضمیر کے خدوخال دھندلے پڑگئے تھے ۔ اس صفائی کے ساتھ ساتھ جس طرح ہم نے اوپر کہا اسلامی فکر و شعور سے جاہلیت کے خدوخال مٹا کر انکی جگہ اسلامی رنگ بھرے گئے ۔ اس کے بعد اس جدید تصور حیات کی روشنی میں ‘ یہ سورة امت مسلمہ کے ضمیر اس کے اخلاق اور اس کی اجتماعی عادات کو لیتی ہے اور ان کو جاہلی اخلاق و عادات سے ایک ایک کرکے چھانٹتی چلی جاتی ہے ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح افکار و تصورات کے اعتبار سے اس کی تطہیر کی گئی ۔ نیز فکری اور اخلاقی تطہیر کے علاوہ اس سورة نے امت کی اجتماعی زندگی اور اس کے عائلی روابط کو اسلام کے مضبوط ربانی نظام زندگی کی اساس پر استوار کیا ۔ اس تربیت اور تطہیر کے دوران ‘ اس سورة میں منحرف اور غلط عقائد کو بھی لیا گیا ہے ۔ غلط عقائد و تصورات کے حاملین پر بھی تنقید کی گئی ہے اور اصلاح کی کوشش کی گئی ہے ۔ چاہے یہ لوگ مشرکین میں سے ہوں یا یہود ونصاری یعنی اہل کتاب ہوں ۔ ان کے عقائد کی تصحیح اور اصلاح کی گئی ہے ۔ حق اور سچائی کو نکھارا گیا ہے جسے ان انحرافات نے بگاڑ دیا تھا ۔ جو ان لوگوں نے اپنی کتب میں اور عقائد میں داخل کئے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد مضامین سورة اس معرکے میں داخل ہوجاتے ہیں جو اہل کتاب اور جماعت مسلمہ کے درمیان مسلسل برپا تھا ‘ خصوصا یہودیوں کے ساتھ ۔ اس لئے کہ جب سے حضور اکرم ﷺ اپنی جماعت کو لیکر مدینہ پہنچے تھے ‘ ان لوگوں نے دعوت اسلامی کا بڑی شدت کے ساتھ مقابلہ شروع کردیا تھا ‘ اس لئے کہ تحریک اسلامی کا مرکز مدینہ منتقل ہوتے ہیں یہودیوں کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اب مدینہ کے معاشرے میں ان کی سابقہ ممتاز حیثیت قائم نہیں رہ سکتی انکے ملی وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا حتی کہ ان کا یہ ادعا بھی ختم ہو رہا تھا کہ وہ واحد ممتاز لوگ ہیں جنہیں اللہ کی قربت حاصل ہے اور وہ ایسی قوم ہیں جو اللہ کے ہاں برگزیدہ ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر وہ تحریک اسلامی کے مقابلے میں ہر قسم کے ہتھیار لیکر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ چناچہ اس سورة نے ان کی ذہنیت ‘ ان کے وسائل حرب اور خود ان کے اپنے انبیاء کے ساتھ ان کاتاریخی رویہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا تاکہ معلوم ہو کہ انہوں نے ہمیشہ ہر دعوت حق کے ساتھ یہی برتاؤ کیا چاہے اس کا پیش کرنے والا کوئی بھی ہو اگرچہ وہ پیش کرنے والا خود ان کا اپنا نبی ‘ ان کا اپنا قائد اور ان کا اپنا نجات دہندہ ہو۔ اس کے بعد یہ سورة خود امت مسلمہ کو بتاتی ہے کہ اس کے کاندھوں پر جو بوجھ ڈال دیا گیا ہے ‘ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ اس نے اس کرہ ارض پر جو کردار ادا کرنا ہے وہ کس قدر عظیم کردار ہے اور وہ حکمت عملی کیا ہے جس کے مطابق اسے جاہلیت کی تمام الائشوں سے پاک کرنا مقصود ہے ‘ اس کے ضمیر کو پاک کرنا مطلوب ہے اس کی پوری زندگی کو پاک کرنا مطلوب ہے ۔ اس غرض کیلئے کس قدر بیدار مغزی کی ضرورت ہے اور کس قدر عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے ۔ مثلا اپنے نفس کی دنیا کے ساتھ مسلسل جہاد ‘ اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے پورے ماحول کے ساتھ مسلسل جہاد اور مسلسل قربانیاں ۔ یہ پوری سورة مسلسل اپنی اس راہ پر گامزن ہے گزشہ حصے میں بھی یہی مضامین ہیں اور یہ حصہ بھی اسی راستے کے نشیب وفرز پر مشتمل ہے اور وہی اسلوب ہے جو سابقہ پارے میں تھا ۔ اس پارے کا آغاز ہی تطہیر نفس اور تطہیر معاشرہ سے ہوتا ہے ‘ یہ کوشش کی گئی ہے کہ افراد جماعت کے درمیان باہم مکمل اعتماد کی فضا قائم رہے ۔ لوگ یہودیوں کے الزامات سے متاثر نہ ہوں اور مسلمان یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ بدلہ لیں لیکن عفو و درگزر اور فراخدلی بہرحال انصاف کے ترازو سے بھی زیادہ اونچا مقام ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیبت اور بدگوئی کو ناپسند فرماتے ہیں۔ اگر اس نئے معاشرے میں ایک بھائی دوسرے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور مظلوم بھائی معاف کردیتا ہے تو یہ فعل اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسندیدہ ہے ۔ اللہ خود بھی معاف کردیتا ہے حالانکہ وہ انتقام پر قادر ہوتا ہے ۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اسلامی تصورحیات یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی قرار دیتا ہے اور یہ تصور دیتا ہے کہ انسانی تاریخ میں رسولوں کا قافلہ صرف اس ایک دین کا حامل رہا ہے ۔ اسلامی عقائد کے مطابق ان رسولوں کے درمیان فرق کرنا اور وہ جو ادیان لیکر آئے انکے درمیان فرق کرنا صریح کفر ہے ۔ یہ بیان اس لئے آتا ہے کہ اہل کتاب میں سے یہودیوں کے اس نظریے کی تردید کی جائے کہ ان کے نبی کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور یہ نظریہ انہوں نے محض دینی اور قومی تعصب اور کینہ پروری کی وجہ سے اپنایا ہے ۔ اس حصے میں یہودیوں کے ساتھ ایک راؤنڈ شروع ہوجاتا ہے ‘ جس میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نبی اور اپنے قائد اور نجات دہندہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا کیا نافرمانیاں اور بدسلوکیاں کیں ۔ ان واقعات سے یہ عیاں کرنا مطلوب ہے کہ یہودی اپنی فطرت کے اعتبار سے برے لوگ ہیں ۔ سچائی اور اسلامی دعوت کے ساتھ ان کا ہمیشہ یہی رویہ رہا ہے ۔ چاہے کوئی نبی ہی یہ دعوت دے رہا ہو۔ اگرچہ وہ انکے عظیم نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کیوں نہ ہوں ۔ نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی والدہ کے بارے میں ان کے نازیبا الفاظ کی تردید بھی کی گئی ہے جسے اللہ تعالیٰ بہت ہی ناپسند فرماتے ہیں۔ ان واقعات کے بیان سے نبی آخر الزمان ﷺ کے ساتھ ان کا رویہ اور عناد قابل فہم ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس روئیے کے حقیقی اسباب کیا ہیں ۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں یہودیوں کے غلط دعوؤں اور غلط الزامات کی مناسبت سے اور خصوصا اس دعوے کے حوالے سے کہ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے ‘ قرآن کریم اظہار حقیقت کردیتا ہے ۔ ان کے دعوائے قتل مسیح (علیہ السلام) کی صاف صاف تردید کردی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ان کے مظالم کرنے ارادہ حق میں رکاوٹ بن جانے اور ان کی سود خوری کی وجہ سے (حالانکہ انہیں ان حرکات سے روکا گیا تھا) کیا کیا سزائیں دیں ۔ نیز ان کی حرام خوری اور لوگوں کے معاشی استحصال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بطور سزا ان بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا جو ساری دنیا کے لئے حلال تھیں اور یہ کہ اس دنیاوی عذاب کے علاوہ انہیں وہ عذاب الیم بھی دیا جائے گا جو آخرت میں ان کا انتظار کر رہا ہے ۔ ہاں البتہ اس عذاب سے وہ لوگ مستثنی ہیں جو علم میں پختہ کار ہیں اور جو حضور اکرم ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ جنہوں نے سچائی کو پہچان لیا ہے اور اس کی پیروی کرنے لگے ہیں ۔ یہودی ‘ نبی آخر الزمان ﷺ کی رسالت کے انکار پر جو اصرار کر رہے تھے ‘ انکے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ رسالت تو معمول کی بات ہے ۔ یہ کوئی عجیب و غریب امر تو نہیں ہے کہ خود ان میں سے ایک رسول مبعوث ہوگیا ہے ۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کہ لوگوں کی ہدایت کیلئے ایک انسان رسول بن کر آگیا ہے ۔ یہ تو سنت الہی ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر آج تک رسول آتے رہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ‘ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ایوب (علیہ السلام) ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی سنت الہی کے مطابق بھیجے گئے ۔ نیز وہ تمام دوسرے انبیاء جن کی رسالت کے یہود قائل ہیں اور وہ جن کی رسالت کا وہ محض بغض اور حسد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اسکیم ہے کہ یہاں لوگوں کی ہدایت کیلئے رسول آئیں جو ڈرانے والے اور خوشخبری دینے والے ہوں ۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (4 : 165) ” تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ ہو۔ “ نہ صرف یہ کہ یہ منطقی امر ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔ یہودیوں کے انکار حق کے مقابلے میں ‘ اللہ تعالیٰ اسلام کی سچائی پر خود شہادت دیتے ہیں ‘ ملائکہ کی شہادت قلم بند ہوتی ہے اور اللہ کسی بھی امر پر کافی گواہ ہے ۔ چناچہ انکار حق کی وجہ سے اور راہ حق کو مسدود کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور کافروں کو سخت دھمکی دیتے ہیں ۔ یہ کہ اللہ کبھی ان کی مغفرت نہ کرے گا کبھی ان کی راہنمائی صراط مستقیم کی طرف نہ کرے گا اور اگر ان کی راہنمائی کرے گا تو وہ جہنم کی طرف ہوگی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اس کے بعد تمام لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ لوگو ! یہ رسول تمہارے پاس رب کی طرف سے سچائی لیکر آیا ہے ۔ تم اس پر ایمان لاؤ ‘ اگر تم ایسا نہ کرسکو تو جو کچھ زمین اور آسمانوں کے درمیان ہے وہ سب کچھ اللہ کا ہے ۔ مالک ارض وسما نے اس پیغمبر کی رسالت کی شہادت دے دی ہے ۔ اور وہ خود تمہیں دعوت ایمان دے رہا ہے اس لئے وہ خود اپنے لئے جو راہ متعین کر رہے ہیں وہ مالک ارض وسما کے مقابلے کی راہ ہے ۔ اہل کتاب کے ساتھ یہ راونڈ ختم ہوجاتا ہے ۔ اس میں ان کا مزاج ‘ ان کے وسائل کار ‘ اور قدیم زمانے سے ان کی بری عادتوں کا پردہ چاک کردیا جاتا ہے ۔ اس پردہ دری سے ان کے تمام مکاریاں فیل ہوجاتی ہیں اور یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت برحق ہے اس لئے کہ اس پر اللہ کی جانب سے شہادت دی جاچکی ہے ۔ تمام سلسلہ رسل اور سلسلہ اصحاب دعوت بھی اس پر گواہ ہیں ۔ یوں لوگوں پر اللہ کی جانب سے حجت قائم ہوتی ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لوگوں کی نجات کا دارومدار رسولوں کی رسالت پر پختہ ایمان پر ہے ۔ اگر وہ عذاب جہنم سے نجات چاہتے ہیں یا یہ کہ وہ بتقاضائے منطق اپنے آپ کو اس کا مستحق قرار دیتے ہیں ۔ یہ انکی مرضی ہے لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ یہ نہایت ہی خطرناک انجام ہے ۔ یہودیوں کے ساتھ اس راؤنڈ کے اختتام ‘ انکے مقابلے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کو انصاف دینے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے غلط دعوؤں کی تردید کرنے کے بعد اب خود عیسائیوں کے ساتھ ایک راؤنڈ شروع ہوتا ہے ‘ جو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیرو کا رکہتے ہیں ۔ ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلو نہ کرو ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اصل سچائی یوں ریکارڈ کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور وہ خود بھی اس بات کے اقرار سے نہیں ہچکچاتے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔ اس طرح ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں لہذا تم روح القدس کو خدا نہ سمجھو ‘ تثلیث کا عقیدہ غلط ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کے درمیان باپ بیٹے کا تعلق نہایت ہی غلط تصور ہے ۔ تصحیح عقائد نصرانیت کے درمیان اسلام کا صحیح عقیدہ بھی بتا دیا جاتا ہے اور اس بات کو چھانٹ کر رکھ دیا جاتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لئے ہے اور غلامی بندوں کے لئے اور اللہ کے سوا جو کچھ بھی ہے جو کوئی بھی ہے وہ اللہ کا بندہ اور غلام ہے اور یہ اسلامی تصور حیات کا اساسی عقیدہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کو یہاں فلاں کی خوشخبری دی جاتی ہے اور اہل کفر کو سخت الفاظ میں ڈرایا جاتا ہے اور یہا بھی ‘ یودیوں کی بحث کے خاتمے کی طرح تمام لوگوں کے نام اعلان جہاد کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس اللہ کی جانب سے برہان آچکا ہے ‘ اس لئے اب جو لوگ اس کی قبولیت سے رہ گئے ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی ‘ کوئی شبہات وہ پیش نہ کرسکیں گے اور نہ ان کی کوئی معذرت قبول ہوگی ۔ سورة کا خاتمہ احکام میراث میں سے کلالہ کی ایک صورت کے بیان پر ہے جو پہلے احکام میں بیان نہ ہوئی تھی اس سورة میں کلالہ کی بعض صورتوں کا ذکر ہوچکا ہے یہ انہی کا بقیہ ہے ۔ اس لئے اس کو یہاں دے دیا کیونکہ یہ جماعت مسلمہ کی اقتصادی تنظیم نو کا بقیہ حصہ تھا جس پر اسلام اس جدید اسلامی سوسائٹی کو استوار کرنا چاہتا تھا ۔ اسے ایک ایسی سوسائٹی میں تبدیل کرنا چاہتا تھا جس کا اپنا نظام اقتصادیات ہو ‘ اپنے امتیازی خصائص ہوں جو مستقل ہوں تاکہ یہ جدید سوسائٹی اور یہ نئی جماعت پوری انسانیت کے حوالے سے اپنا وہ عظیم کردار ادا کرسکے جس کے لئے اللہ نے اسے برپا کیا ہے ۔ یعنی قیادت ‘ انقلاب اور تنظیم واصلاح کا کردار۔ یوں اس پوری سورة کے مطالعے اور جائزے سے اور خصوصا زیر بحث حصے کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعی تنظیم ‘ اقتصادی اصلاحات اور سیاسی ضابطہ بندی کے ساتھ ساتھ اخلاق ‘ تہذیب ‘ تصور حیات کی اصلاح اور عقائد کی تصحیح بھی ہوتی رہتی ہے ۔ اس اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ جماعت مسلمہ کے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھی معرکہ آرائی جاری رہتی ہے اس کے باوجود کہ اس جماعت کے کاندھوں پر ذمہ داری کا عظیم بوجھ ڈالا گیا ہے اور اس کرہ ارض پر اس کیلئے عظیم کردار ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔ یہ بھی فیصلہ کردیا گیا ہے کہ قرآن کریم اس جماعت کا دستور العمل ہے ۔ یہ اس کی دعوت کا ماخذ ہے ۔ اس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان تمام ذمہ داریوں کو ایک ساتھ ادا کرتے ہوئے آگے چلے ‘ نہایت گہری ‘ متوازن اور عمومی صورت میں ۔ یہ ہدایات اور یہ امور ایسی صورت میں بیان کئے جاتے ہیں کہ جو شخص یا جماعت بھی اس امت کی تعمیر جدید کا بیڑا اٹھائے اس کیلئے یہ منہاج لازمی اور حتمی ہو تاکہ وہ اپنے فرائض کو پورا کرے ۔ اس قرآن کو اپنی دعوت کا منہاج بنائے ۔ اس کی تحریک کا منہاج اس قرآن سے اخذ ہو ۔ احیائے اسلام ‘ بعث جدید اور تعمیر جدید کا ہر قدم اس منہاج کے مطابق ہو ۔ اگر ان خطوط پرسوچا جائے تو یہ قرآن بعینہ وہ کردار ادا کرنے کیلئے اب بھی تیار کھڑا ہے جو اس نے پہلے ادا کیا تھا ۔ یہ قرآن پوری انسانیت کیلئے اللہ کا خطاب ہے ‘ اور وہ اس کے تمام طور واطوار کے لئے قیامت تک راہنما ہے ۔ اس کے عجائبات تو کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کے بار بار پڑھے جانے سے وہ پرانا نہیں ہوتا ‘ جیسا کہ اس کے بارے میں حضور ﷺ فرماتے ہیں ۔ وہ حضور ﷺ جنہوں نے اس قرآن کے ذریعہ کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ منحرف اور بھٹکے ہوئے اہل کتاب کے ساتھ جہاد کیا اور اس کے ذریعے انسانیت کی تاریخ میں امت مسلمہ جیسی عظیم امت کی بنیاد رکھی ‘ اسے اٹھایا اور سربلند لیا ۔ درس نمبر 43 تشریح آیات : 148۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔ 170۔ قرآن کریم کے پیش نظریہ نصب العین تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک بالکل جدید امت پیدا کرے ۔ چناچہ اس امت کو قرآن نے ان لوگوں سے تشکیل دیا جو جاہلیت کی اندھیری وادیوں میں بھٹک رہے تھے ان میں سے جو قرآن کی دعوت پر لبیک کہہ چکے ‘ ان مومنین کو قرآن کریم نے ہاتھ سے پکڑ کر آنا فانا عمودی بلندی پرچڑھا کر تہذیب و تمدن کی چوٹیوں ‘ بلند ترین چوٹیوں تک پہنچا دیا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کی تشکیل اور تربیت کے بعد اسے پوری انسانیت کی قیادت کا فریضہ سپرد کیا جاسکے اور اس دنیا کی قیادت میں اس کا عظیم رول متعین کیا جاسکے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا۔ اس جماعت کی تشکیل اور تعمیر کے اہم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس جماعت کے ضمیر کی تطہیر بھی تھا ‘ اس ماحول کی تطہیر بھی تھا جو اس جماعت کے اردگرد پایا جاتا تھا اور اس جماعت کی اس اخلاقی اور ذہنی سطح کو بلند کرنا بھی تھا جس پر اس وقت پر جماعت تھی ۔ اور جب یہ جماعت اس مطلوبہ سطح اور معیار تک پہنچ گئی اپنے انفرادی اخلاق میں اونچی ہوگئی ‘ اپنے اجتماعی اخلاق میں معیاری ہوگئی جس قدر اپنے عقائد و تصورات میں وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں برتر ہوگئی ۔ تو اس وقت پھر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر وہ انقلاب برپا کیا جو اللہ کے پیش نظر تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اس امت کو اپنے دین اور اپنے نظام زندگی کا محافظ اور چوکیدار مقرر فرمایا ۔ اس کی یہ ڈیوٹی قرار پائی کہ وہ اس پوری انسانیت کو گمراہی اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور مسلسل اس پوری انسانیت کی قیادت کی امانت دار رہے اور اس کی راہنمانی کرتی رہے اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ۔ جب کوئی جماعت اس کرہ ارض کے پورے انسانوں پر ان خصوصیات کے اندر فوقیت حاصل کرلیتی ہے تو انسانیت کے لئے اس کی قیادت بالکل ایک فطری اور طبیعی امر بن جاتا ہے اور یہ امر اپنی صحیح اساسوں پر قائم ہوتا ہے ۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ایسی جماعت پھر علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن اور اقتصادیات اور سیاسیات میں بھی دوسری اقوام سے برتر ہوجاتی ہے اور یہ دوسری برتری اسے پہلی برتری کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے یعنی اخلاقی اور نظریاتی برتری کے نتیجے میں اور یہی ہے سنت الہی اس کرہ ارض کے تمام افراد کیلئے بھی اور تمام جماعتوں اور سوسائٹیوں کیلئے بھی ۔ اسی نفسیاتی اور اجتماعی تطہیر کے ایک پہلو کو درج ذیل دو آیات کے اندر لیا گیا ہے ۔ (آیت) ” نمبر 148 تا 149۔ معاشرہ ہمیشہ نہایت ہی حساس ہوتا ہے اس لئے اسے بعض ایسے اجتماعی آداب کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی اس حساسیت کے مناسب حال ہوں۔ بعض اوقات ایک شخص ایک سرسری سی بات کہتا ہے لیکن معاشرے پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘ ان کا وہ اندازہ نہیں کرسکتا ۔ اور بعض اوقات ایک عام بات ہوتی ہے لیکن اس کے قائل کی مراد صرف ایک شخص سے ہوتی ہے لیکن ان باتوں کے اثرات معاشرے کی نفسیات ‘ اس کے اخلاق اور اس کے رسوم ورواجات پر نہایت ہی مہلک ہوتے ہیں۔ اس بات سے صرف وہ ایک فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے پوری جماعت متاثر ہوتی ہے ۔ کوئی شخص کسی کے بارے میں بدگوئی کرنا چاہے اس کی جو شکل و صورت بھی ہو ‘ اگر اس کے دل میں خدا ترسی نہ ہو اور اس کا ضمیر محتاط نہ ہو تو یہ بدگوئی انسان کیلئے بہت ہی آسان ہوتی ہے ۔ لیکن اس بدگوئی اور بدزبانی کے آثار معاشرے میں بہت ہی برے نتائج پیدا کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ لوگوں کا یہ خیال ہوجاتا ہے کہ اب معاشرے میں شر کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اندر شر کی استعداد پوشیدہ ہوتی لیکن وہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے شر کا ارتکاب نہیں کرتے وہ اس کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں اب اس کا ارتکاب عام طور پر کیا جاتا ہے اس لئے وہ اس سے باک نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں کوئی معاشرتی خوف لاحق ہوتا ہے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ صرف وہی اس کا ارتکاب نہیں کر رہے اور لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی برائی کا ارتکاب دیکھتے دیکھتے انسان کے دل سے اس برائی کی کراہت میں کمی آجاتی ہے ۔ انسان پہلے پہل برائی کو بہت ہی شدت سے محسوس کرتا ہے اور جب اس کا بار بار ارتکاب ہوتا رہے یا بار بار ذکر ہوتا رہے تو اس کی نظروں میں اس کی قباحت کم ہوجاتی ہے اور اس کی جانب سے اس کراہت میں کمی آجاتی ہے لوگوں کیلئے ایسی برائی کا سننا آسان ہوجاتا ہے اور پھر وہ اسے مٹانے کیلئے فورا اٹھتے بھی نہیں ہیں۔ بدگوئی میں انسان سب سے پہلے انفرادی الزامات عائد کرتا ہے ۔ انفرادی گالی گلوچ ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اجتماعی نقصان اور انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اخلاقی بےراہ روی پھیل جاتی ہے ۔ اس میں بعض لوگوں کے بعض دوسرے کے بارے میں اندازے بدل جاتے ہیں ‘ بعض لوگوں کا بعض دوسرے لوگوں میں اعتماد نہیں رہتا ‘ بعض جماعتوں کا دوسری جماعتوں پر اعتماد نہیں رہتا ۔ الزامات پر الزامات آتے ہیں اور زبانیں انہیں بلا کسی جھجک کے چاٹتی رہتی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت مسلمہ کیلئے ایک دوسرے کی بدگوئی کو حرام قرار دیا ہے ۔ صرف وہی شخص بدگوئی کرسکتا ہے ‘ جس پر ظلم ہوا ہو۔ وہ صرف اس قدر برے لفظ استعمال کرسکتا ہے جن سے ظالم کے حقیقی ظلم کا اظہار ہو رہا ہو ان حدود کے اندر جن کے اندر ظلم ہوا ہے ۔ (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم “۔ (4 : 148) ” (اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے ‘ الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو) ظلم کے حالات میں بدگوئی کے ذریعے دشمن سے بدلہ لیا جاتا ہے اور اسی طرح ظلم کے مقابلے میں مدافعت کی جاتی ہے ۔ اس بدگوئی میں وہ امور بھی شامل ہیں ‘ جنہیں قانونی اصطلاح میں سب وشتم کہا جاتا ہے ۔ اس بدگوئی کے ذریعے ایک فرد ‘ اس انفرادی بدسلوکی کو مسترد کرتا ہے جو فی الواقعہ ہوچکی ہے۔ اس طرح یہ مظلوم اس ظلم اور ظالم کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے۔ جس کا اسے حق حاصل ہوتا ہے تاکہ سوسائٹی اس مظلوم شخص کے ساتھ انصاف کرسکے ۔ وہ ظالم کے ہاتھ کو روک سکے اور معاشرے کے اندر ایک ایسی فضاء قائم ہو سکے جس میں ہر ظالم ظلم سے پہلے اپنے انجام کے بارے میں اچھی طرح سوچے اور اس ظلم کے دوبارہ ارتکاب سے باز آجائے ۔ اعلانیہ بدگوئی کا حق بالکل محدود ہے اسے صرف وہی شخص استعمال کرسکتا ہے جس پر ظلم ہوا ہو۔ اس کے جواز کا سبب بھی محدود ہے ۔ یعنی صرف وہ ظلم جو کسی متعین شخص کے ساتھ کیا گیا ہو اور یہ بدگوئی صرف اس شخص کے خلاف کی جاسکتی ہے جس نے ظلم کیا ہو ۔ ان محدود حالات میں اس بدگوئی کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ اس سے ایک بڑی بھلائی کو رواج دینا مقصود ہے ۔ نیز اس بدگوئی سے ظلم اور ظالم کے خلاف صرف تشہیر ہی مقصود نہیں ہے بلکہ اصل یہ کہ مظلوم کو عدل و انصاف مل سکے ۔ اسلامی قانون لوگوں کی شہرت اور عزت کی حفاظت صرف اسی حد تک کرتا ہے ‘ جب تک وہ ظلم و زیادتی نہ کریں ۔ جب وہ ظلم کا ارتکاب کریں تو پھر وہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی حیثیت عرفی کو قانونی تحفظ دیا جائے ۔ ظلم کے ارتکاب کے بعد مظلوم کو یہ قانونی حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف اواز اٹھائے اور ایک حد تک بدگوئی بھی کرے ۔ یہ واحد استثناء ہے جو مظلوم کے سلسلے میں ہے ‘ ورنہ اسلام کا عام قانونی اور اخلاقی ضابطہ یہی ہے کہ کسی کے خلاف بدگوئی کی اجازت نہ ہوگی ۔ اس طرح اسلام کے ان دونوں مقاصد کے درمیان ایک قسم کا توازن قائم ہوجاتا ہے ۔ وہ ایک ایسا نظام انصاف قائم کرنا چاہتا ہے جس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہ ہو ۔ ایک ایسا نظام اخلاق بھی رائج کرنا چاہتا ہے جس میں حیائے چشمی اور اجتماعی رواداری پر بھی خراش نہ آئے ۔ اس پر قرآن کریم یہ اختتامیہ لاتا ہے ۔ (آیت) ” وکان اللہ سمیعا علما “۔ (4 : 148) (اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے) اور انتہائے کلام پر بھی بات اللہ جل شانہ کی ذات سے مربوط ہوجاتی ہے ۔ جبکہ آغاز ذکر محبت الہی سے ہوا تھا ۔ (آیت) ” لا یحب اللہ الجھر بالسوء “۔ (4 : 148) ” (اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے) یہ اس لئے کہا گیا تاکہ انسان کے دل میں یہ شعور زندہ رہے کہ انسان کی نیت ‘ انسان کی جانب سے بدگوئی کے اسباب اور پھر اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور الزامات کی صحت اور انکی موزونیت کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ سنتا ہے اور جو بات کہی جاتی ہے اس کے تمام پس منظر سے وہ اچھی طرح آگاہ ہے جو بات بھی سینوں میں بھی عیاں ہے ۔ قرآن کریم یہاں بات کو بدگوئی کی صرف ممانعت یعنی صرف منفی حکم پر ہی ختم نہیں کردیتا بلکہ وہ مثبت بات کرکے بھلائی کا حکم دیتا ہے ۔ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ برائی پر عفو و درگزر سے کام لینا بہرحال بہت ہی پسندیدہ ہے ۔ عفو و درگزر کو صفات الہیہ میں سے ایک اہم صفت ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر خطاکار سے مواخذہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ یہاں اشارہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو اللہ کے اخلاق وصفات اپنے اندر پیدا کرنا چاہئیں ۔ جہاں تک ان میں قدرت ہو اور جہاں تک وہ ایسا کرسکیں ۔
Top