Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں کھانے اور پہننے کیلئے دو اور انہیں نیک ہدایات کرو
(آیت) ” ولا توتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا “۔ (5) نادانی اور دانائی کا پتہ بلوغ کے بعد چل جاتا ہے ۔ بالعموم نادان اور دانا کے درمیان ہو ہی جاتی ہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ قانون کے اندر اس کیلئے کوئی فارمولا وضع کردیا جائے ، ہر خاندان اس بات کی تمیز اچھی طرح کرلیتا ہے کہ اس کے اندر نادان کون ہے اور دانا کون ہے ۔ اسے اچھی طرح تجربہ ہوتا ہے کہ یہ راشد ہے اور یہ سفیہ ہے نیز سوسائٹی سے بھی کسی شخص کے معاملات اور تصرفات پوشیدہ نہیں ہوتے ۔ لہذا جانچ پڑتال اس بات کی ہوگی کہ یتیم بالغ ہوگیا ہے یا نہیں ۔ یہاں آیت میں اس بلوغ کی تعبیر لفظ نکاح سے کی گئی ہے کیونکہ بلوغ میں سے نکاح ایک اہم اثر ہوتا ہے ۔
Top