Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 6
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ١ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ١ۚ وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْا١ؕ وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ١ۚ وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وَابْتَلُوا
: اور آزماتے رہو
الْيَتٰمٰى
: یتیم (جمع)
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
بَلَغُوا
: وہ پہنچیں
النِّكَاحَ
: نکاح
فَاِنْ
: پھر اگر
اٰنَسْتُمْ
: تم پاؤ
مِّنْھُمْ
: ان میں
رُشْدًا
: صلاحیت
فَادْفَعُوْٓا
: تو حوالے کردو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
وَلَا
: اور نہ
تَاْكُلُوْھَآ
: وہ کھاؤ
اِسْرَافًا
: ضرورت سے زیادہ
وَّبِدَارًا
: اور جلدی جلدی
اَنْ
: کہ
يَّكْبَرُوْا
: کہ وہ بڑے ہوجائینگے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
غَنِيًّا
: غنی
فَلْيَسْتَعْفِفْ
: بچتا رہے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
فَقِيْرًا
: حاجت مند
فَلْيَاْكُلْ
: تو کھائے
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
فَاِذَا
: پھر جب
دَفَعْتُمْ
: حوالے کرو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
فَاَشْهِدُوْا
: تو گواہ کرلو
عَلَيْھِمْ
: ان پر
وَكَفٰى
: اور کافی
بِاللّٰهِ
: اللہ
حَسِيْبًا
: حساب لینے والا
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاوتو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ‘ ایسا بھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال ہی جلدی جلدی کھا جاو کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے ۔ یتیم کا جو سرپرست مالدار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بناو اور حساب لینے کے لئے اللہ کافی ہے
(آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم وکفی باللہ حسیبا “۔ (6) اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یتیموں کو ان کی دولت حوالے کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کس قدر سخت کاروائی کی ہے ۔ جب وہ بالغ ہوجائیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بلوغ اور سیانے ہونے کے بعد جلد از جلد ان کی دولت انکے حوالے کرنے کیلئے کاروائی کرنے پر زور دیتی ہے ۔ یعنی جونہی وہ بالغ ہوں ‘ ان کی دولت ان کے حوالے کی جائے ۔ اور یہ دولت پوری کی پوری صحیح سالم ان کے حوالے کی جائے ۔ اور جب تک ولی کی حفاظت میں ہو اس کی حفاظت ایمانداری کے ساتھ کی جائے اور اسے بےدردی کے ساتھ خرچ نہ کیا جائے ۔ اس ڈر سے کہ یتیم بالغ ہونے والے ہیں اور یہ دولت انہیں لوٹانی ہوگی ۔ نیز شریعت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر محافظ مالدار ہو تو وہ اس نگرانی اور حفاظت کا کوئی معاوضہ نہ لے اور اگر وہ نادار ہو تو اسے چاہئے کہ معروف طریقے کے مطابق کم سے کم ضرورت کی حد تک کھائے ۔ اور شریعت یہ بھی لازمی قرار دیتی ہے کہ جب کسی یتیم کو اس کا مال حوالے کیا جا رہا ہو تو اس پر شہادت ضرور قائم کی جائے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کی شہادت تو ہر وقوعہ پر قائم ہے اور اللہ کے سامنے جو حساب ہوگا وہ آخری حساب ہوگا ۔ (آیت) ” وکفی باللہ حسیبا “۔ (6) ”’ اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “ یہ تمام تشدید وتاکید اور تمام تفصیلات وتشریحات اور یہ تمام تنبیہات وتذکیرات اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ جس معاشرے میں اسلامی نظام نافذ ہوا ۔ اس میں ہر طرف ییتموں کی حق تلفی ہو رہی تھی ۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے کمزوروں کے مال بھی کھائے جاتے تھے ۔ اس لئے کہ اس رسم و رواج کو ختم کرنے کیلئے اس قدر تاکید وتشدید کی ضرورت پیش آئی ۔ اور جزوی تفصیلات کو قرآن کریم کے اندر قلم بند کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ تاکہ آئندہ لوگ قانونی حیلوں اور بہانوں سے کام لیکر قانون شکنی نہ کرسکیں اور قانون سے بچنے کی کوئی راہ کھلی نہ رہے ۔ اس طرح نظام حیات مسلمانوں کی فکری اور عملی دنیا سے جاہلیت کے ایک ایک نشان مٹاتا رہا اور اس کی جگہ اسلامی جھنڈے گاڑتا رہا ۔ جاہلیت کے آثار مٹائے جاتے رہے اور معاشرے کے چہرے کو ان بدنما داغوں سے صاف کیا جاتا رہا ۔ اور ان کی جگہ اسلام کے خوبصورت خدوخال ظاہر ہوتے رہے ۔ اور یوں ایک جدید معاشرہ ڈھلتا رہا ۔ جدید معاشرے کی رسوم اور روایات قائم ہوتی چلی گئیں ۔ اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و احکام نازل ہوتے رہے ۔ اور یہ سب کچھ خدا خوفی کی فضا میں اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتا رہا ۔ اور اسلامی قانون اور اسلامی احکام کی آخری گارنٹی ذات باری کے خوف اور رضا مندی کو قرار دیا جاتا رہا حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ‘ خدا کی رضا مندی اور اللہ کی نگرانی کے تصور کے سوا ‘ اس دنیا میں کسی بھی قانونی نظام کی استواری اور چلت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ اصل مدار اس پر ہے کہ (آیت) ” وکفی باللہ حسبیا “۔ ” اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “ جاہلیت کی رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور بچوں کو وراثت نہ دیتے تھے ۔ عام رواج یہی تھا ۔ البتہ بعض جگہوں پر اس کے خلاف بھی تھا مگر شاذ ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ یہ لوگ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ گویا اصل مدار جنگ پر تھا ۔ اسلامی نظام قانون نے میراث کو قرابت کے اصول پر استوار کیا ۔ جو تقسیم میراث کا حقیقی سبب تھا ۔ ہاں جس طرح قرابت کے مختلف درجے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اقرباء کے حصص اور فرائض میں بھی فرق ہے ۔ جیسا کہ بعد میں تفصیلات آرہی ہیں ۔ نظام میراث کو اسلام نے نظام قرابت پر اس لئے استوار کیا کہ اسلام اجتماعی تکافل کے نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے ایک خاندان کے افراد کے درمیان باہم کفالت کا نظام قائم کرتا ہے ۔ اور یہ خاندانی نظام بھی اجتماعی کفالتی نظام کے فریم ورک کے اندر ہوتا ہے ۔ نیز اس اصول کے تحت کہ حقوق ذمہ داریوں کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں تو اس طرح قریبی رشتہ داروں پر خاندان کے کسی غریب فرد کی بابت اس کی قرابت کے اعتبار سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مثلا قتل میں دیت کی ادائیگی بھی قرابت اور رشتہ داری کے اصول پر ہوتی ہے ۔ نیز زخموں کی مرہم پٹی کی ادائیگی بھی قرابت کے اصول پر ہوا کرتی ہے ۔ اس لئے پھر انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار فوت ہوجائے اور اس کا ترکہ رہ جائے تو اسے اصول قرابت پر تقسیم کیا جائے ، کیونکہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل اور باہم متناسق نظام ہے ۔ اور اس کی یہ ہمہ گیری اور ہم آہنگی اس وقت اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جب اس کے اندر حقوق وفرائض متعین ہوتے ہیں ۔ غرض میراث کی تقسیم میں شریعت نے عموما ان قریبی ذمہ داریون کو ملحوظ رکھا ہے ۔ بعض لوگ اس قانون کے اصول تقسیم پر نکتہ جہنیاں کرتے ہیں ‘ یہ حرکت وہ اس لئے کرتے ہیں کہ درحقیقت ذات باری کی شان میں گستاخی کیلئے تیار ہیں ۔ حالانکہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ کود ات انسانی سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اور نہ وہ انسانی زندگی کے مختلف احوال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نظام میراث کی اساس جن اصولوں پر رکھی گئی ہے اگر یہ لوگ ان کا اچھی طرح ادراک کرلیں تو یہ ہر گز یہ جسارت نہ کریں۔ اسلامی نظام میراث کا اصل الاصول سوشل سیکورٹی ہے ۔ اس کفالتی نظام کو شریعت نے ان اصولوں پر استوار کیا ہے ۔ جو نہایت ہی مستحکم ہیں اور ان اصولوں کو وضع کرتے وقت اسلام نے نفس انسانی کے فطری رجحانات کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ اور یہ وہ رجحانات ہیں جن کا خالق اللہ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے اندر ان رجحانات کو عبث طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ یہ فطری میلانات انسانی زندگی کے ارتقاء وبقا میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایک خاندان کے اندر قریبی یا دور کے رشتوں کے جو رابطے ہوتے ہیں ‘ وہ چونکہ فطری روابط ہوتے ہیں اور نہایت ہی حقیقی روابط ہوتے ہیں اور وہ ایسے رابطے ہوتے ہیں ‘ جن کی تخلیق کسی ایک نسل یا سوسائٹی نے نہیں کی ہے ۔ اور نہ ہی ان رابطوں کی تخلیق میں پوری انسانی نسلوں کے اتفاق کا کوئی دخل ہے ۔ اس لئے ان رابطوں کی حقیقت پسندی ‘ ان کی گہرائی انسانی زندگی کے بچاو اس کی ترقی اور اس کی سربلندی میں ان رابطوں کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ اور اگر کوئی ان حقیقی رابطوں کی اہمیت کا انکار کرتا ہے تو ان کلیہ انکار نظر انداز کرنے کا مستحق ہے ۔ اس لئے اسلام نے اپنے کفالتی نظام کی اکائی ایک خاندان کے کفالتی نظام کو قرار دیا ہے ۔ اور اس کفالتی یونٹ کو پھر اپنے اجتماعی اور ملکی کفالتی نظام کا سنگ میل قرار دیا ہے ۔ اسلام نے نظام میراث کو اس خاندانی کفالتی نظام کا ایک مظہر اور علامت قرار دیا ہے ۔ جبکہ اقتصادی اور اجتماعی نظام معیشت وسیاست میں اس کے اور مفید اثرات بھی اپنی جگہ مسلم ہیں ۔ اگر کسی شخص کے تکافل میں یہ پہلا قدم کامیاب نہیں ہوتا اور خاندان کسی شخص کی کفالت میں ناکام ہوجاتے ہے تو پھر مقامی مسلم سوسائٹی سامنے آتی ہے اور وہ اس شخص کی کفالت کرتی ہے ۔ اور اگر محلہ اور مقامی سوسائٹی بھی ناکام رہیں تو اس کے بعد اسلامی حکومت ان تمام لوگوں کی کفالت کی ذمہ دار ہے جو خود اپنا انتظام نہیں کرسکتے ۔ اس انتظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نادار لوگوں کا انتظام کرنا صرف حکومت کے نظم ونسق کے کاندھوں پر یکدم نہیں پڑتا ۔ یہ انتظام اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک خاندان اور ایک محدود سوسائٹی کے اندر باہم تکافل کے انتظام کے نتیجے میں افراد معاشرہ کے دلوں میں باہم دگر محبت ‘ لطف وکرم اور رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ان جذبات کی وجہ سے لوگوں کے درمیان باہم تعاون اور ہمدردی کے فطری فضائل اخلاق پروان چڑھتے ہیں اور یہ بالکل حقیقی ہوتے ہیں ان میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی ۔ اس خاندانی کفالت کے علاوہ بھی رشتہ داروں کی امداد اور ہمدردی کے جذبات رکھنا ایک ایسا انسانی فعل ہے جسے ایک بدفطرت اور گٹھیا درجے کا خبیث شخص ہی نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایک خاندان کے اندر کفالت کرنا تو ایک ایسا فعل ہے جس کے انسانی فطرت اور مزاج پر بہت ہی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جو عین فطرت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کا یہ شعور کہ اس کی شخصی جدوجہد اس کے تمام رشتہ داروں کیلئے مفید عمل ہے ۔ خصوصا اس کی اپنی اولاد کیلئے تو اس شعور کی وجہ سے اس کی قوت عمل دو چند ہوجاتی ہے اسی طرح ایک شخص جدوجہد بالواسطہ پورے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام حیات میں فرد اور جماعت کے درمیان فاصلے نہیں رکھے جاتے ۔ (1) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ اس لئے کہ فرد کی تمام ملکیت بھی دراصل پورے معاشرے کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اگر معاشرے کو اس کی ضرورت پڑے ۔ اس آخری اصول کی روشنی میں اسلامی نظام وراثت پر کئے جانے والے وہ تمام اعتراضات زائل ہوجاتے ہیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ نظام ان لوگوں کو بھی وارثت منتقل کردیتا ہے جنہوں نے اس کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کی ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ وارث درحقیقت موروث منہ کا تسلسل ہوتا ہے اور اگر یہی موروث منہ محتاج ہوتا اور یہ وارث مالدار ہوتا تو اپنے اسلامی اور معاشرتی فرائض کے تحت وہ اس کی کفالت کرتا ، اور ان امور کے بعد یہ قاعدہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ دولت جس کے پاس بھی ہو اور جس طرح بھی تقسیم ہو یہ پورے معاشرے کی اجتماعی دولت ہے اور اسے اجتماعی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ (2) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ ان امور کے علاوہ وارث اور مورث کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے خصوصا مورث اور اس کی اولاد کے درمیان وہ صرف مالی رابطہ نہیں ہوتا ۔ اگر ہم وارث اور مورث کے درمیان مالی مفادات کو از روئے قانون کاٹ بھی دیں تو بھی ان کے درمیان جو خونی رشتے موجود ہیں اور جو دوسرے رشتے موجود ہیں وہ کاٹنے سے نہیں کٹتے ۔ آباو اجداد اور دوسرے رشتہ دار اپنے بچوں ‘ پوتوں اور رشتہ داروں کو صرف مالی وراثت ہی منتقل نہیں کرتے ‘ بلکہ وہ اپنی اچھی صلاحیتیں اچھی عادات ‘ بری عادات اور کمزوریاں بھی منتقل کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے بچوں اور پوتوں کی طرف بعض موروثی بیماریاں بھی منتقل کرتے ہیں اور اگر وہ صحت مند ہیں تو اپنی صحت مندی بھی وارثت میں دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک شخص کے حسن اخلاق وبداخلاقی اس کی اچھائیاں اور برائیاں اور زکاوت اور غبی ہونا بھی وراثتا ‘ منتقل ہوتا ہے ۔ اور یہ تمام صفات وارثوں کی طرف منتقل ہو کر ہمیشہ کیلئے ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اور ان کے نتائج ان وارثوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مورث کا مال اگر کوئی ہے تو وہ بھی وارثوں کی طرف منتقل ہو ۔ اس لئے کہ اگر ہم کسی شخص کا مال اس کے وارثوں کو نہیں دیتے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وارثوں کو موروثی بیماریوں ‘ اخلاقی کمزوریوں ‘ بدعملی اور ذہنی اور جسمانی کمزوریوں سے بھی نجات دلائیں اور یہ اس وقت بھی ممکن نہیں جب ہم اپنے پورے وسائل اس کام میں لگا دیں ۔ انسانی زندگی کے ان فطری اور واقعاتی حقائق کی وجہ سے اور ان تمام دوسری حکمتوں کی وجہ سے جو شریعت الہیہ میں پوشیدہ ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے میراث کی تقسیم کا یہ موجودہ نظام وضع فرمایا ہے ۔ (3) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ فرماتے ہیں ۔
Top