Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 78
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ١ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ١ؕ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا
اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يُدْرِكْكُّمُ : تمہیں پالے گی الْمَوْتُ : موت وَلَوْ كُنْتُمْ : اور اگرچہ تم ہو فِيْ بُرُوْجٍ : برجوں میں مُّشَيَّدَةٍ : مضبوط وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاِنْ : اور اگر تُصِبْھُمْ : انہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کچھ برائی يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں هٰذِهٖ : یہ مِنْ : سے عِنْدِكَ : آپ کی طرف سے قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : سب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) فَمَالِ : تو کیا ہوا هٰٓؤُلَآءِ : اس الْقَوْمِ : قوم لَا يَكَادُوْنَ : نہیں لگتے يَفْقَهُوْنَ : کہ سمجھیں حَدِيْثًا : بات
رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ اے نبی یہ آپ کی بدولت ہے ‘ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔
(آیت) ” وان تصبھم سیئۃ یقولوا ھذہ من عندک قل کل من عند اللہ فمال ھولآء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا (78) ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک وارسلنک للناس رسولا رسولا وکفی باللہ شھیدا (79) من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ومن تولی فما ارسلنک علیھم حفیظا “۔ (80) (4 : 78 تا 80) ” اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ اے نبی یہ آپ کی بدولت ہے ‘ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ اے انسان تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے ‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب وعمل کی بدولت ہے ‘ ۔ اے محمد ﷺ ہم نے تم کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے ۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی ‘ اور جو منہ موڑ گیا ‘ تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے ۔ جن لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں جو بھلائی پیش آتی ہے اس کی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں اور جو برائی انہیں درپیش ہوتی ہے ‘ اس کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کرتے ہیں ان کے اس فعل کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہو سکتی ۔ اگر خشک سالی ہوجائے ‘ اگر مویشی نسل کشی نہ کریں یا اگر کسی موقعہ پر ان پر مصیبت آجائے تو وہ ان چیزوں کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرتے ۔ اور اگر انہیں کوئی بھلائی اور کامیابی ہوتی تو کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ جان بوجھ کر نبی ﷺ کی قیادت پر الزام تراشی کرتے تھے ۔ اور یہ کام وہ اس لئے کرتے تھے کہ حضور ﷺ ان پر جو فرائض عائد فرماتے تھے ‘ ان سے گلو خلاصی کرالیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ قتال فی سبیل اللہ کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو چھڑاتے ہوں ۔ تو بجائے اس کے کہ وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ بھائی ہم تو ضعیف ہیں اور بزدل ہیں اور جنگ سے ڈرتے ہیں ‘ انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حضور کی قیادت پر جرح وقدح کرنے لگے ۔ اور اگر بھلائی نصیب ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اگر برائی نصیب ہو تو اس کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کرتے ہیں یا حضور ﷺ کے احکام کی طرف کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ان احکامات کی وجہ سے یہ مصیبت پڑی اور خیر سے ان کی مراد اس دنیا کی بھلائی ہوتی ہے اور شر سے مراد ان کی اس دنیا کا نقصان ہوتا ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس دنیا میں اللہ کی مشیت کے مطابق لوگوں کو جو حادثات اور واقعات پیش آتے ہیں اس کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بہت ہی غلط ہے ۔ نیز ان کا رسول اللہ اور خدا تعالیٰ کے درمیان پائے جانے والے تعلق کے بارے میں بھی بہت ہی گھٹیا تصور ہے ۔ اگر یہ تیسری وجہ ہو تو یہ ان مہاجرین کی طرف سے ہو سکتی ہے جن کا موت وحیات کے بارے میں ابھی عقیدہ صاف نہ ہوا تھا اور اپنے اس تصور موت وحیات کی وجہ سے یہ لوگوں سے اس طرح ڈرتے تھے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ اور یہ لوگ کہتے تھے ۔ (آیت) ” ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب (4 : 77) (اے ہمارے رب تو نے ہم پر قتال کو کیوں فرض کردیا ‘ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تو اسے قریب وقت تک مؤخر کردیتا) لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس آیت سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد کچھ دوسرے لوگ ہیں جن میں ان چہروں کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شامل تھے ۔ یہ مسئلہ جو اس آیت میں لیا گیا ہے ۔ یہ ایک عظیم اور مشکل مسئلہ کا ایک پہلو ہے اور وہ مسئلہ تاریخ ادیان اور تاریخ فلسفہ کا نہایت ہی مشکل مسئلہ ہے ۔ یعنی مسئلہ جبر وقدر اور مسئلہ تقدیر ۔ یہ مسئلہ یہاں بعض لوگوں کے حالات کے بیان میں ضمنا آگیا ہے ۔ ان لوگوں کے غلط تصورات کا رد یہاں کیا گیا ہے ۔ قرآن کریم نے اس فریق زیر بحث کی فکری غلطی کو درست کرتے ہوئے اس مسئلے کو نہایت ہی سادگی اور بغیر کسی پیچیدگی کے بیان کردیا ۔ ذرا قرآن کریم کے الفاظ میں سنئے ۔ (آیت) ” وان تصبھم سیئۃ یقولوا ھذہ من عندک قل کل من عند اللہ فمال ھولآء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا (4 : 78) ” اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ اے نبی یہ آپ کی بدولت ہے ‘ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی “۔ بیشک اللہ ہی فاعل حقیقی اور فاعل اول ہے ۔ وہی فاعل ہے جو کچھ اس کائنات میں وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اسی سے ہے ۔ لوگوں کے لئے جو کچھ ہوتا ہے یا لوگوں سے جو کچھ ہوتا ہے یہ سب کچھ اللہ سے ہے ۔ لوگوں کا اختیار صرف اس قدر ہے کہ وہ توجہ کریں اور سعی کریں لیکن کسی فعل کا تحقق صرف اللہ کے ارادے اور تقدیر سے ہی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ نیکی کی نسبت یا برائی کو وجود میں لانے کی نسبت اور برائی کو کسی کے اوپر لے آنے کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا ‘ حالانکہ آپ ایک انسان اور مخلوق ہیں اور ہم جیسے ہیں ‘ یہ ایک غیر حقیقی نسبت ہے ۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس موضوع پر بات کو سمجھتے ہی نہیں ۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ انسان ایک کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے لئے بھلائی سمیٹنے کی سعی کرتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے وسائل خیر کو استعمال کرنے کا جو فہم دیا ہے وہ اسے استعمال کرتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی کو اگر بھلائی نصیب ہوتی ہے تو وہ ارادہ الہی سے ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی تقدیر کے علاوہ کوئی اور تقدیر تو ہے نہیں جو اشیاء ‘ حادثات اور اس کائنات کے اندر وقوع پذیر ہونے والے حوادث کو پیدا کرسکتی ہو۔ اب بھلائی بھی اگر کسی کو نصیب ہوتی ہے تو ان وسائل کی مدد سے نصیب ہوتی ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس بھلائی کے لئے مقرر کئے ہیں ۔ اس لئے عملا یہی تصور ہوگا کہ یہ بھلائی اللہ ہی کی وجہ سے نصیب ہوئی اور اسی کی تقدیر کا نتیجہ ہے ۔ بعض اوقات انسان ایک برائی کے ارتکاب کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا وہ کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس کے نتیجے میں برائی وجود میں آتی ہے ۔ لیکن عملا برائی کا وارد ہونا اور وجود میں آنا محض اللہ کی قضا وقدر کے تحت ہوتا ہے ‘ اس لئے کہ اس کائنات میں اشیاء کے پیدا کرنے اور حادثات کو وقوع پذیر کرنے کی طاقت اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ دونوں صورتوں میں خیر وشر میں کسی چیز کا وقوع پذیر ہونا من جانب اللہ ہوتا ہے اور اس آیت میں اسی حقیقت کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ رہی دوسری آیت یعنی (آیت) ” ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک (4 : 79) “ ” تمہیں جو بھلائی نصیب ہوتی ہے اللہ کی طرف سے ہے ‘ اور تمہیں جو برائی نصیب ہوتی ہے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہوتی ہے ‘ ۔ تو اس میں ایک دوسری حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس کا پہلی آیت میں بیان کردہ حقیقت سے نہ تعلق ہے اور نہ وہ اس سابقہ حقیقت قضا وقدر میں داخل ہے ۔ لہذا اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق ایک منہاج کار وضع کیا ہے اور اس نے ہر کام کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو شر کے بارے میں اچھی طرح متنبہ کیا ہے ۔ جب انسان اس منہاج پر کاربند ہوتا ہے اس کی بتائی ہوئی راہ پر چلتا ہے ‘ بھلائی کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور شر سے لرزاں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ راہ ہدایت پر چلنے کے لئے اس کی مدد کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا) (جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو ہم ان کی راہنمائی اپنی راہوں کی طرف کردیتے ہیں) تب انسان بھلائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ بظاہر ایک شخص کسب اور محنت کرتے ہوئے نظر آتا ہے لیکن اس انسانی کسب وعمل کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ کسب وعمل کا منہاج تو خود اللہ نے متعین کیا ہے اس لئے انسان کی سعی میں ہی بھلائی ہوتی ہے ‘ وہ اللہ کی ترازو میں ہوتی ہے اور اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اس لئے کہ بھلائی کا طریق کار وضع کرنے والا اور منہاج عمل متعین کرنے والا تو اللہ ہی ہے ۔ اسی نے تو بھلائی کی طرف راہنمائی فرمائی اور وہی تو ہے جس نے بھلائی کی توفیق دی اور برائی سے ڈرایا ۔ کوئی انسان جب اس منہاج پر نہیں چلتا جو اللہ نے متعین کیا ہے اور اس راہ کو نہیں اپناتا جسے اللہ نے مشروع قرار دیا ‘ وہ بھلائی کے لئے سعی نہیں کرتا اور جس برائی سے اسے ڈرایا گیا ہے اس سے نہیں ڈرتا ‘ تو یقینا اسے برائی سے دو چار ہونا پڑے گا اور یہ ایک حقیقی برائی ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ برائی خود اس کے نفس کی کمائی ہوگی اس لئے کہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کے پسندیدہ منہاج عمل سے نکل گیا ۔ (یہ ہے اس کا کسب) یہ مفہوم پہلے مفہوم سے مختلف ہے اور دونوں کا دائرہ بھی الگ الگ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نکتہ اب واضح ہوگیا ہے۔ اس دوسرے مفہوم کے اعتبار سے نظریہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اچھائی اور برائی دونوں کا تعلق اللہ کی مرضی اور تقدیر سے ہے ۔ اللہ ہی تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے ۔ ہر حادث کا پیدا کرنے والا وہی ہے ۔ ہر ہونے والے واقعے کا موجد وہی ہے ‘ چاہے اس بارے میں انسان کا ارادہ اور عمل جو ہو ‘ سو ہو اور ہونے والے جیسے حالات میں بھی ہو۔ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جو ان نصوص میں بیان کیا گیا ہے یا اس کا ایک پہلو لیا گیا ہے ۔ وہ مسئلہ جبر واختیار ہے ۔ یہ کہ انسان سے جن افعال کا صدور ہوتا ہے ‘ اس میں اس کے اپنے ارادے کا کس قدر دخل ہے یا اس کے لئے جو فائدے یہاں واقع ہوتے ہیں ان میں اس کے لئے اپنے ارادے کا کس قدر دخل ہے اور یہ کہ اس کے افعال ارادی پر جزا وسزا کس طرح مرتب ہوگی جبکہ ہم کہتے ہیں کہ تمام افعال کا اصل خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ خود انسان کے ارادے انسان کی توجہ انسان کے عمل اور تمام دوسرے محدثات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ یہ اور اس قسم کے تمام سوالات جن کا تعلق مسئلہ جبر وقدر کے ساتھ ہے ۔ قرآنی آیات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ ہر حادث اللہ کے ارادے سے حادث بنتا ہے ۔ قرآن کریم سب کا سب اللہ کا کلام ہے اور قرآن کریم کی آیات ایک دوسرے کے ساتھ متعارض نہیں ہو سکتیں ۔ اس لئے ان دونوں امور کے درمیان ایک نقطہ اتصال ضروری ہے ۔ انسان کے ارادے اور عمل کا ایک دائرہ ایسا ہے جس کے اندر وہ ذمہ دار ہے اور مسئول ہے اور اسے سزا وجزاء کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اس دائرہ اختیار کا تعارض بھی تقدیر الی اور ارادہ ربانی کے دائرے کے ساتھ نہ ہو تو یہ دائرے کس طرح متعین ہوں گے ۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا بیان اور توضیح ممکن نہیں ہے ‘ اس لئے کہ اللہ کا ارادہ اور اس کی قدرت کس طرح کام کرتی ہے اس کی کیفیات کا ادراک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ۔ بہرحال اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کے دائرہ کار اور حدود ذمہ داری کی وضاحت کرتا ہے ۔ یہ کہ آپ لوگوں کے حوالے سے کیا موقف اختیار کریں گے اور لوگوں کا تعلق آپ کے ساتھ کس طرح ہوگا ۔ اور تمام معاملہ انجام کار اللہ کی طرف لوٹ جائے گا ۔ ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک وارسلنک للناس رسولا رسولا وکفی باللہ شھیدا (79) من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ومن تولی فما ارسلنک علیھم حفیظا “۔ (80) (4 : 78 تا 80) ” اے محمد ﷺ ہم نے تم کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے ۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی ‘ اور جو منہ موڑ گیا ‘ تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے ۔ رسول کا فریضہ یہ ہے کہ وہ رسالت کی ذمہ داری ادا کرے ۔ اس کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ خیر پیدا کرے یا کوئی شر پیدا کرے یہ تخلیق کا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ اور اللہ اس پر گواہ ہے کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کو محض ادائے فریضہ رسالت کے لئے بھیجا ہے ۔ (وکفی باللہ شھیدا) (اور خدا کی گواہی کافی ہے) اور لوگوں کا معاملہ حضرت محمد ﷺ کے ساتھ یہ ہے کہ جس شخص نے آپ کی اطاعت کی تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ لہذا اطاعت کے معاملے میں اللہ اور رسول کے درمیان کوئی جدائی نہیں ہے ۔ نہ اللہ کے قول اور رسول اللہ کے قول کے درمیان کوئی فرق و امتیاز ہے ۔ پس جو شخص منہ پھیرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرتا ہے تو اس کا حساب و کتاب اور اس کی سزا وجزا کا کام اللہ کے سپرد ہے ۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو اس لئے نہیں بھیجا کہ آپ لوگوں کو ہدایت پر مجبور کردیں یا انہیں دین کے اندر داخل ہونے پر مجبور کردیں ۔ نہ رسولوں کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ لوگوں کی اس طرح حفاظت کریں کہ وہ گناہوں میں مبتلا نہ ہوں ۔ نہ یہ بات رسولوں کی قدرت میں دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کی اس طرح حفاظت کریں کہ وہ گناہوں میں مبتلا نہ ہوں ۔ نہ یہ بات رسولوں کی قدرت میں دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے پاسبان بن جائیں ۔ اس بیان کے ذریعے ان کے تصورات اور خیالات کو اس بارے میں درست کیا جاتا ہے کہ جو واقعات انہیں پیش آتے ہیں ان کا تعلق اور وجود اللہ کے ارادے سے ہے اور اللہ کی تقدیر کے عین مطابق ہے اور انہیں جو بھلائی اور برائی پیش آتی ہے ‘ چاہے بھلائی اور برائی کو کسی معنی میں بھی لیا جائے ‘ ‘ چاہے ظاہری بھلائی ہو یا حقیقی بھلائی ہو ‘ یہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی کسی چیز کو پیدا کرسکتا ہے ‘ نہ اسے وجود میں لا سکتا ہے ‘ نہ اسے باقی رکھ سکتا ہے اور نہ کسی چیز کو صنعت میں لا سکتا ہے ۔ اللہ کے ہاں جو حقیقی بھلائی ہے وہ اللہ ہی سے ہے اور جو حقیقی برائی انہیں نصیب ہوتی ہے اس میں ان کے نفوس کا دخل ہوتا ہے ۔ یہ برائی انہیں اس لئے نصیب ہوتی ہے کہ یہ لوگ اسلامی نظام زندگی سے منہ موڑتے ہیں اور اللہ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ رسول کی پہلی اور آخری ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ رسول ہے ۔ وہ نہ منشی ہے ‘ نہ خالق ہے اور نہ کسی حادثہ کو لا سکتا ہے ۔ یہ اللہ کی خصوصیات ہیں اور ان میں رسول ‘ اللہ کے ساتھ شریک نہیں ہوتا ۔ وہ بس اللہ کے احکام پہنچانے والا ہے ‘ تب اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔ اللہ کی اطاعت کے لئے ماسوائے رسول اللہ کی اطاعت کے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے ۔ رسول اس بات کا مکلف نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان کرے جو اعراض کرنے والے ہیں اور نہ رسول انہیں اعراض اور نافرمانی سے روک سکتا ہے ۔ وہ البلاغ اور بیان کے بعد اور کچھ نہیں کرسکتا ۔ یہ ہیں فیصلہ کن اور تسلی بخش حقائق ۔ واضح اور صریح حقائق ۔ ان سے تصورات کی تعمیر اور شعور کی پختگی ہوتی ہے ۔ اور یہ حقائق جماعت مسلمہ کو عظیم منصب اور ڈیوٹی کے لئے تیار کرنے کی جدوجہد کا ایک حصہ ہیں ۔ اس کے بعد سیاق کلام ایک دوسرے گروہ کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ یہ گروہ صفوف کے اندر گھسا ہوا ہے اور شاید یہ منافقین کا کوئی گروہ ہے ۔ قرآن کریم ان کے کردار کو علیحدہ اور نئے عنوان کے ساتھ ذکر کرتا ہے لیکن انداز بیان کے اندر اس کردار سے نفرت بھی جھلکتی ہے ۔ اس نفرت کے ساتھ ساتھ جماعت مسلمہ کی تعلیم ‘ رہنمائی بھی کی گئی ہے ۔
Top