Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 87
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا لَيَجْمَعَنَّكُمْ : وہ تمہیں ضرور اکٹھا کرے گا اِلٰى : طرف يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور کون اَصْدَقُ : زیادہ سچا مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے حَدِيْثًا : بات میں
” اللہ کے سوا کوئی اور حاکم نہیں ہے ۔ وہ تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں شک نہیں ہے اور اللہ سے سچی کس کی بات ہے
درس نمبر 37 تشریح آیات : 87۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 94۔ اس سبق کا آغاز اس اصول سے ہوتا ہے جس کے اوپر اسلامی نظام کی عمارت استوار ہے اور اس کے تمام پہلو اس اصول سے ماخوذ ہیں ۔ (آیت) ” نمبر 87۔ اسلامی نظام زندگی کا پہلا قدم عقیدہ توحید ہے اور عقیدہ توحید کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وحدہ حاکم ہے ۔ اس اسلامی قونون وضع کریں ‘ یا اسلامی انتظامیہ قائم کریں ۔ قانون نظام کا تعلق اسلامی معاشرے کے داخلی امور سے ہو یا بین الاقوامی قانون سے ہو جس کے مطابق اسلامی سوسائٹی دوسری سوسائٹیوں کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے ۔ چناچہ زیر بحث آیت بعض داخلی اور بین الاقوامی قوانین کا افتتاحیہ ہے۔ نفس انسانی کی تربیت کا سفر اس عقیدے سے شروع ہوتا ہے کہ تمام بندوں کو ایک دن اللہ میدان حشر میں اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس دنیا میں اس نے انسانوں کو جو اختیارات دیئے تھے ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں باز پرس کرے گا ۔ وہاں اس بات کی پرسش بھی ہوگی کہ اللہ کی ہدایات اور اس کے قوانین پر تم نے کس حد تک عمل کیا اور دنیا میں اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات کے اندر کس حد تک تم نے اسلامی ضوابط کی پابندی کی کو ین کہ تمہیں بہرحال وہاں اسی آزمائش اور امتحان کے لئے تو بھیجا گیا تھا ۔ آخرت میں صغیر وکبیر ہر معاملے کا حساب و کتاب ہوگا ۔ حساب و کتاب اور جواب دہی کا یہی اخروی تصو رہے جو شریعت کے انتظامی اور قانونی ضابطوں پر عمل پیرا ہونے کا ضامن ہے اس لئے کہ ہر شخص کے ضمیر کے اندر ایک جیتا جاگتا چوکیدار بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس وقت بھی نگران ونگہبان ہوتا ہے جب حکومت کے چوکیدار سو جاتے ہیں۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ومن اصدق من اللہ حدیثا (4 : 87) (اور اللہ سے زیادہ سچی کس کی بات ہے) اور یہ آپ کا وعدہ ہے جس کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔ مسلمانوں کے دلوں کو یہ احساس دینے کے بعد اب اصل بات شروع ہوتی ہے ۔ یہ احساس دلانا اسلامی منہاج تربیت کا ایک عام طریق کار ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کی پوری نظریاتی اور عملی عمارت اس عقیدے پر قائم ہے ۔ غرض یہ احساس دلانے کے بعد اب اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جارہا کہ مسلمان نفاق اور منافقین کے بارے میں یکسو نہیں ہیں اور ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز اختیار نہیں کرتے حالانکہ حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات کی جائیں ۔ یکسوئی تو اور بات ہے مسلمان ان کے بارے میں واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں اور ہر ایک کی اپنی رائے ہے ۔ یہ اختلاف رائے مدینہ سے باہر بسنے والے بعض منافقین کے بارے میں پیدا ہوگیا تھا ۔ جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔ استفہام انکاری کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان معاملات کے بارے میں فکری ہم آہنگی کیوں نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ معاملات کے اندر فیصلہ کن اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے اور منافقین کے ساتھ تعلق اور ان کی نسبت نقطہ نظر رکھنے میں یکسوئی اختیار کی جائے اور ان کے ظاہری امور کو دیکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے بشرطیکہ کوئی منصوبہ طے شدہ ہو اور اس کے ساتھ نرمی کی ضرورت ہو۔
Top