Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
” پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہو رہے ہیں ‘ اور اللہ نے تو ان کو ان کے اعمال کے سبب الٹ دیا ہے ‘ کیا تم ان لوگوں کو راہ پر لانا چاہتے ہو جن کو اللہ نے گمراہ کردیا ہے اور جس کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے ‘
(آیت) ” نمبر 88 تا 89۔ یہ لوگ کون تھے ان کے بارے میں کئی روایات آتی ہیں جن میں سے دو روایتیں اہم ہیں ۔ امام احمد (رح) نے بہز ‘ شعبہ ‘ عدی ابن ثابت ‘ عبداللہ ابن زید ؓ کی سند سے زید ابن ثابت ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ احد کی طرف نکلے ‘ کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ نکلے تھے وہ واپس ہوگئے ‘ ان کے بارے میں حضور ﷺ کے ساتھی دو گروہوں میں بٹ گئے تھے ۔ ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ ان لوگوں کو قتل کردیا جانا چاہئے اور ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ قتل تو جائز نہیں ہے ‘ اس لئے کہ وہ مومن ہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ (4 : 88) اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : ” یہ پاک ہے اور یہ ناپاک لوگوں کو اس طرح نکال پھینکے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کو نکال دیتی ہے ۔ (صحیحین نے اسے شعبہ سے روایت کیا ہے) ۔ عوفی نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور مکہ میں مشرکین کی امداد بھی کرتے تھے ۔ یہ لوگ مکہ سے اپنی کسی ضرورت کے لئے نکلے ۔ وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں حضرت محمد ﷺ کے ساتھی مل گئے تو ہمیں ان کا کوئی ڈر نہ ہوگا ‘ جب مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع ہوئی کہ یہ لوگ سفر پر ہیں تو مسلمانوں کے ایک گروہ نے یہ کہا کہ نکلو اور ان بزدلوں کو قتل کر دو اس لئے کہ یہ لوگ ہمارے دشمن مشرکین کی امداد کرتے ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ نے کہا : سبحان اللہ “ (یا جس طرح انہوں نے کہا) کیا تم ایسے گروہ کو قتل کرتے ہو کہ انہوں نے وہ الفاظ ادا کئے جو تم نے ادا کئے ہیں ؟ محض اس لئجے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے وطن کو نہیں چھوڑا ہم ان کی جان ومال کو حلال کرلیں ۔ اس طرح اس مسئلے پر مسلمانوں کے دو فریق بن گئے ۔ حضور ﷺ موجود تھے ۔ آپ نے دونوں میں سے کسی کی رائے کی تردید نہ کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ (4 : 88) (روایت ابن ابو حاتم) اب سلمہ ‘ عکرمہ ‘ مجاہد اور ضحاک ؓ اجمعین وغیرہ سے ایسی ہی روایات منقول ہیں ۔ اگرچہ سند اور روایت کے اعتبار سے پہلی روایت زیادہ قوی ہے ‘ لیکن ہم دوسری روایت کے مضمون کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ منافقین مدینہ کے خلاف کسی وقت بھی قتال کا حکم صادر نہیں ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ نے نہ ان کے ساتھ جنگ کی ہے اور نہ انہیں قتل فرمایا ہے ۔ ان کے ساتھ معاملہ کرنے کا ایک دوسرا منصوبہ تھا ۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کی جائے اور خود مدینہ کی اسلامی سوسائٹی کو یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ ان کو اگل کر رکھ دے ۔ حضور ﷺ جو کچھ کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ مدینہ کے اردگرد منافقین کے جو رابطے تھے انہیں کاٹ دیں ۔ مثلا یہودی جو ان منافقین کو ورغلاتے تھے اور ان کے حامی تھے ان کو مدینہ اور پھر پورے جزیرۃ العرب سے جلا وطن کردیا جائے ۔ رہی آیت زیر بحث تو اس میں تو حکم دیا جارہا ہے کہ زیر بحث منافقین کو قید کیا جائے جہاں ملیں انہیں قتل کردیا جائے ‘ لہذا یہ مناقین مدینہ کے اندر رہنے والے منافقین کے علاوہ کوئی اور گروہ ہوگا ۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی پکڑ دھکڑ کا ہجرت تک موقوف ومشروط ہے کیونکہ آیت میں ہے ۔ (آیت) ” فلا تتخذوا منھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ فان تولوا فخذوھم واقتلوھم حیث وجدتموھم “۔ (4 : 89) ” لہذا تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ ہجرت سے منہ موڑیں تو ان کو پکڑو اور جہاں بھی ان کو پاؤ قتل کرو “۔ یہ تہدید ان لوگوں کے حق میں اس لئے آئی تاکہ وہ اس صورت حال سے نکل آئیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے حالات سے نکل آئے ہوں ‘ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں یہ حکم نافذ نہیں فرمایا تھا لیکن (یھاجروا) کے لفظ سے یہ بات تو قطعا ثابت ہوجاتی ہے کہ زیر بحث منافقین اہل مدینہ سے نہ تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مدینہ کو ہجرت کر کے آجائیں ۔ یہ واقعہ لازما فتح مکہ سے پہلے کا ہوگا اور ہجرت تھی بھی فتح مکہ سے پہلے کیونکہ ہجرت کی تعریف یہ ہے کہ دارالکفر سے داراسلام کی طرف ہجرت کی جائے ۔ لوگ تحریک اسلامی سے آکر ملتے رہیں اور اسلامی نظام کے تحت آتے رہیں ۔ ورنہ ان کی زندگی یا تو کفر گزرے گی یا نفاق میں ۔ اسی سورت میں اس سبق کے بعد دوسرے سبق میں ایسے لوگوں پر سخت تقید وارد ہے جو ابھی تک مکہ کے دارالکفر میں مقیم تھے بغیر کسی عذر یا ضعف کے اور تھے مسلمان ۔ اس وقت ان کے لئے مکہ دارالکفر اور دارالحرب تھا اگرچہ وہ ان کا اصلی وطن تھا اور وہ اس میں مقیم تھے ۔ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر ہم دوسری روایت کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ کہ منافقین کا گروہ زیر بحث مکہ میں مقیم تھا ‘ یا مکہ کے اردگرد کسی آبادی میں تھا ۔ یہ لوگ اپنے منہ سے تو اسلام کا اقرار کرتے تھے اور اپنے عمل سے کافروں کی حمایت کرتے تھے ۔ غرض آیت زیر بحث کو ایک بار پھر پڑھئے : (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین واللہ ارکسھم بما کسبوا اتریدون ان تھدوا من اضل اللہ ومن یضلل اللہ فلن تجدلہ سبیلا “۔ (88) ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سوآء فلا تتخذوا منھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ فان تولوا فخذوھم واقتلوھم حیث وجدتموھم ولا تتخذوا منھم ولیا ولا نصیرا “۔ (89) (4 : 88۔ 89) ” پھر تم کو کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہو رہے ہیں ‘ اور اللہ نے تو ان کو ان کے اعمال کے سبب الٹ دیا ہے ‘ کیا تم ان لوگوں کو راہ پر لانا چاہتے ہو جن کو اللہ نے گمراہ کردیا ہے اور جس کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے ‘ ۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کافر ہوجاؤ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں ‘ اس طرح تم سب برابر ہوجاؤ ‘ لہذا تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرلیں ‘ پھر اگر یہ اس شرط کو قبول نہ کریں تو ان کو پکڑو ‘ مار ڈالو ‘ جہاں بھی پاؤ اور ان میں سے کسی کو دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ “ ” ان آیات میں اس بات پر سخت نکیر ہے کہ منافقین کے بارے میں اختلاف رائے واقعہ کیوں ہوا اور ان کے بارے میں یہ حیرت انگیز موقف ہر فریق نے کیوں اپنایا ؟ اس لئے کہ اس موقف میں ایک فریق کی جانب سے بہت نرمی تھی اور اس بات کا اظہار ہو رہا تھا کہ ابھی مسلمانوں کا شعور اسلام کے بارے میں پختہ نہیں ہے ۔ ان میں سے بعض لوگوں نے یہ کہا کہ تم ایسے لوگوں کو قتل کرتے ہو جنہوں نے وہی الفاظ ادا کئے ہیں جو تم نے ادا کئے ہیں اور محض اس لئے کہ انہوں نے اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت نہیں کی ؟ کیا یہی بات ان کی مال وجان کو مباح کرنے کے لئے کافی ہے ؟ ان لوگوں کا تصور اسلام پختہ اس لئے نہ تھا کہ وہ صرف یہ بات پیش نظر رکھ رہے تھے کہ منافقین زیر بحث نے بھی اسی طرح کلمہ پڑھا ہے جس طرح ہم نے پڑھا ہے حالانکہ اس گروہ منافقین کے خلاف شواہد موجود تھے ۔ ایک تو ان کا اپنا قول کہ محمد ﷺ کے ساتھی ہمیں کچھ بھی نہ کہیں گے ‘ دوسرے یہ کہ اہل ایمان کے ایک گروہ نے بھی ان کے بارے میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے دشمنوں کی امداد کرتے ہیں ۔ ان شواہد کے باوجود ان لوگوں کا موقف ان منافقین کے بارے میں کمزور موقف تھا حالانکہ انہیں فیصلہ کن اور دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ زبانی طور پر کلمہ شہادت پڑھنا اور عملا کفار کی امداد کرنا منافقت کی بین دلیل تھی ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی نرمی اور چشم پوشی کی ضرورت ہی نہ تھی ۔ یہ معمولی غلطی نہ تھی بلکہ اس سے تصور اسلام میں کمزوری کا اظہار ہو رہا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے اندر سخت تعجب کا اظہار کیا گیا اور سخت تنبیہ کی گئی ۔ رہے مدینہ کے منافقین تو ان کے بارے میں مسلمان فکری طور پر بالکل یکسو تھے کہ یہ منافق ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ چشم پوشی اس لئے اختیار کی گئی تھی کہ ایک خاص منصوبے کے تحت ایسا ہو رہا تھا ‘ وہ یہ کہ ان کے ظاہری حالات پر ہی ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے اور ایک وقت ایک انہیں مہلت دی جائے ۔ لیکن یہ ایک دوسری صورت حال تھی کہ اہل اسلام میں سے ایک گروہ ان کی طرف سے اس لئے مدافعت کر رہا تھا کہ انہوں نی بھی وہی کلمہ پڑھا ہے جو ہم نے پڑھا ہے اور زبان سے انہوں نے بھی شہادت دی ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ ہیں حالانکہ یہ لوگ مسلمہ طور پر دشمنان اسلام کے امداد کندہ تھے ۔ مسلمانوں کی اس فکری کمزوری کی وجہ سے اور ان کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ سے (جبکہ منافقین کا نفاق بالکل واضح تھا) اس آیت میں شدید تنبیہ کی گئی ۔ اور پھر تنبیہ کے بعد اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی کہ ۔ (واللہ ارکسھم بما کسبوا) (اللہ نے ان کو ان کے اعمال کی وجہ سے الٹ دیا ہے) تم ان کے بارے میں جھگڑتے ہو اور اللہ نے انکی بداعمالیوں اور ان کی بدنیتی کی وجہ سے انہیں ایسے حالات میں ڈال دیا ہے جن میں وہ الٹے نظر آرہے ہیں ۔ اللہ کی جانب سے انکے خلاف یہ گواہی ہے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کی وجہ سے ناقابل رشک صورت حال میں پڑے ہیں۔ اس تنبیہ کے بعد ایک دوسری تنبیہ یہ کہ گئی ۔ (آیت) ” اتریدون ان تھدوا من اضل اللہ ) (کیا تم ان لوگوں کو راہ پر لانا چاہتے ہو جن کو اللہ نے گمراہ کردیا ہے) یعنی مسلمانوں میں سے جو فریق ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رہا ہے اس کی منشا یہ تھی کہ انہیں راہ راست پر آجانے کا موقعہ دیا جائے تاکہ یہ منافقانہ رویہ اختیار کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے موقف کو نامناسب سمجھا اور منافقین کو ایسے حالات میں ان کے اعمال اور برے ارادوں کی وجہ سے ڈال دیا ہے لہذا ان کے ہدایت پانے کی امید فضول ہے ۔ (آیت) ” ومن یضلل اللہ فلن تجدلہ سبیلا “۔ ” جن کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے “۔ اور اللہ لوگوں کو گمراہ اس لئے کردیتا ہے کہ وہ اپنی نیت و ارادے سے گمراہی کی راہ اپناتے ہیں ۔ پھر وہ گمراہی کے لئے سعی کرتے ہیں اور اس راستے میں بہت ہی دور چلے جاتے ہیں ۔ اتنے دور کہ ان کے لئے راہ ہدایت بند ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے الٹ راہ اختیار کی ہوتی ہے اور ہدایت کے لئے اللہ کی امداد کے وہ طالب ہی نہیں رہے اور انہوں نے نشانات راہ کو گم کردیا ۔ اب ایک قدم آگے چلئے ! ان منافقین کے اصل موقف کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود گمراہ ہوگئے ہیں اور اپنی نیت اور عمل کی وجہ سے وہ اس پوزیش کے مستحق ہوگئے ہیں جس میں وہ پڑے ہیں بلکہ وہ تو خود اہل اسلام کے بارے میں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ بھی کفر ہی کا راستہ اختیار کرلیتے تو اچھا ہوتا ۔ (آیت) ” ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سوآئ “۔ (وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کافر ہوجاؤ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں ۔ اس طرح تم سب برابر ہوجاؤ) بیشک انہوں نے کفر کا راستہ اختیار کرلیا ہے اگرچہ انہوں نے بھی وہی کلمہ پڑھا ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں اور انہوں نے دونوں باتوں کی شہادت دے دی ہے لیکن ان شہادت کو انکا عمل جھٹلاتا ہے جس کے ذریعے یہ لوگ دشمنان اسلام کی امداد کرتے ہیں ۔ لیکن وہ اس حد پر بھی بس نہیں کرتے اس لئے کہ جو شخص کفر کو اپناتا ہے وہ کسی حد پر نہیں رکتا ۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اس پورے کرہ ارض پر سے اسلام اور مسلمان مٹ نہیں جاتے ۔ اس مذموم مقصد کو لئے وہ سعی مسلسل میں مصروف رہتا ہے ۔ وہ اس مقصد کے لئے جدوجہد کرتا ہے ‘ سازشیں کرتا ہے تاکہ موجودہ اہل اسلام بھی لوٹ کر کافر ہوجائیں اور اس طرح تمام لوگ برابر ہوجائیں ۔ زیر تبصرہ منافقین کے اس موقف کی یہ پہلی وضاحت ہے اور یہ وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ اس سے ان کے بارے میں اہل اسلام کی سوچ سے ہر قسم کی جھول دور ہوجاتی ہے ۔ یہ سوچ ان کے قول وعمل کی واضح شہادت پر قائم ہوجاتی ہے اور اب یہ سوچ تضاد سے خالی ہوتی ہے ۔ زبانی اظہار اسلام کی حقیقت کچھ نہیں رہتی جب تمام قرائن یہ بتاتے ہوں کہ ان لوگوں کا موقف منافقانہ ہے ۔ قرآن کریم مسلمانوں کے شعور کو ایک چٹکی بھرتا ہے جس سے ان کے شعور میں ایک خوفناک احساس ابھرتا ہے اور یہ احساس قرآن کے ان الفاظ سے ابھرتا ہے۔ (آیت) ” ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سوآئ “۔ (وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کافر ہوجاؤ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں ۔ اس طرح تم سب برابر ہوجاؤ) ‘ ۔ یہ خوف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ اہل اسلام نے حال ہی میں کفر کو ترک کر کے اسلام کا مزہ چکھا تھا ‘ اور ابھی تک انہیں اس بات کا شعور تھا کہ ان کی زندگی میں کس قدر عظیم تبدیلی پیدا ہوئی ہے ۔ ان کا شعور کس قدر بلند ہوا ‘ ان کی عام سطح کس قدر بلند ہوئی اور جاہلیت کے مقابلے میں ان کی سوسائٹی کو اسلام میں کس قدر سربلندی نصیب ہوئی ۔ یہ فرق و امتیاز ‘ انکے شعور میں بھی تھا اور حقیقت واقعہ میں بھی ‘ اور یہ اشارہ ہی کافی تھا کہ وہ اس شخص کے دشمن بن جائیں جو انہیں دوبارہ ان سابقہ پستیوں کی طرف لے جانے کی تدابیر کر رہا تھا ۔ یعنی اس جاہلیت کی پستیوں کی طرف جس سے انہیں اسلام نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تھا ۔ پھر انہیں ایک عام سطح پر ہی نہ چھوڑ دیا تھا بلکہ انہیں عمومی ترقی کے ذریعے بلند ترین چوٹی پر پہنچا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی نظام تربیت اس حقیقت کا سہارا لے کر خطرناک حالات کے مقابلے میں اور آگے بڑھنے کے حالات میں مسلمانوں کو دشمن سے اس طرح خبردار کر کے سخت تاکیدی احکام دیتا ہے ۔ (آیت) ” فلا تتخذوا منھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ فان تولوا فخذوھم واقتلوھم حیث وجدتموھم ولا تتخذوا منھم ولیا ولا نصیرا “۔ (89) (4 : 89) ”‘ لہذا تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرلیں ‘ پھر اگر یہ اس شرط کو قبول نہ کریں تو ان کو پکڑو ‘ مار ڈالو ‘ جہاں بھی پاؤ اور ان میں سے کسی کو دوست اور مددگار نہ بناؤ۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہاں جو یہ کہا کہ ان میں سے کسی کو دوست اور مددگار نہ بناؤ ‘ تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خاندانی ‘ قبائلی روابط اور تعلقات باقی تھے ‘ اور مسلمانوں کے دلوں میں ان روابط کی وقعت تھی اور ہوسکتا ہے کہ یہ روابط ابھی تک بعض اقتصادی مفادات کی خاطر بھی ہوں ۔ اسلام کا یہ طریقہ تربیت جاہلیت کے تمام رہے سہے آثار وروابط کو بھی پوری طرح جڑ سے اکھاڑ کر پھینک رہا تھا ۔ اور جس طرح قرآن کریم تطہیر افکار کر رہا تھا اسی طرح امت مسلمہ کے لئے بین الاقوامی روابط کے اصول بھی طے کر رہا تھا ۔ قرآن کریم امت کو بتا رہا تھا کہ کوئی امت کبھی بھی صرف خاندانی اور قبائلی روابط پر وجود میں نہیں آسکتی اور خون اور رشتے کے روابط ‘ ایک ہی ملک اور علاقے میں رہائش کے روابط ‘ تجارتی اور دوسرے اقتصادی مفادات کے روابط کی اساس پر کوئی امت وجود میں آسکتی ہے ۔ امت ہمیشہ ایک مخصوص نظریہ حیات اور اس نظریہ حیات کی اساس پر اٹھنے والی سوسائٹی اور اجتماعی نظام کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ داراسلام کے باشندوں اور دارالحرب کے باشندوں کے درمیان دوستی اور ولایت کے تعلقات قائم نہیں رہ سکتے ۔ اس وقت درالحرب مکہ تھا جو مہاجرین کا وطن اصلی تھا اس لئے مکہ کے لوگوں حتی کہ زبانی طور پر اسلام کا اقرار کرنے والوں اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان بھی دوستی اس وقت تک نہ ہو سکتی تھی جب تک وہ ہجرت نہ کرتے جو صرف اللہ کے لئے اور اللہ کی راہ میں ہو اور اس کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لئے نہ ہو ‘ یعنی صرف ایسے معاشرے کے قیام کے لئے ہو جو اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی گزار رہا ہو اور اس کے سوا کوئی غرض نہ ہو ۔ نہایت ہی پاک ‘ نہایت ہی فیصلہ کن اور نہایت ہی متعین مقصد کے ساتھ ‘ جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو ‘ کوئی خلط ملط نہ ہو ‘ اسلامی نظام حیات کے سوا کوئی ہدف نہ ہو اور نہ کوئی اور مصلحت ہو ۔ اگر یہ زبانی طور پر کلمہ اسلام پڑھنے والے پر شرط پوری کردیں ‘ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ دیں ‘ اپنے ملک اور مصلحتوں کو خیر باد کہہ دیں اور دارالاسلام کی طرف ہجرت کر آئیں تاکہ یہاں وہ اسلامی نظام کے تحت زندگی بسر کریں ‘ جو اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ہے ‘ جس کے اندر اسلامی شریعت جاری ہے تو پھر وہ اسلامی معاشرے کے ممبر بن جائیں گے ۔ وہ امت مسلمہ کے ہم وطن ہوں گے ۔ اگر وہ یہ شرط تسلیم نہ کریں ‘ ہجرت کا انکار کردیں تو پھر انہوں نے زبانی طور پر جو کلمہ پڑھا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ اگر وہ یہ شرط قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (فخذوھم) انہیں پکڑ کر قید کر دو اور جہاں بھی تمہیں ملیں انہیں ۔ (واقتلوھم) قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو نہ دوست بناؤ اور نہ مددگار ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ دو احکام جو دیئے ہیں ‘ یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ لوگ مدینہ کے منافقین نہ تھے ‘ اس لئے کہ مدینہ کے منافقین کے ساتھ اسلامی انقلاب نے بالکل مختلف پالیسی اختیار کی تھی ۔ اسلام کی یہ پالیسی ہے کہ وہ اسلام کے مخالف عقائد رکھنے والے لوگوں کے ساتھ نہایت ہی فیاضانہ پالیسی اختیار کرتا ہے ۔ اسلام مخالف اسلام لوگوں کو ہر گز اس امر پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کو قبول کرلیں بلکہ اسلام مخالف اسلام مذاہب کے پیروکاروں کو یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کا اظہار کریں ‘ اسلام کے بارے میں اپنے مخالفانہ نظریات کا بھی اظہار کریں اور خود دارالاسلام میں ایسا کریں ۔ ہاں ان کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے اندر اپنے نظریات پھیلائیں یا اسلام کو برا بھلا کہیں ۔ اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ مسلمان اہل کتاب کو برا بھلا نہ کہیں ۔ لہذا یہ بات شک وشبہ سے بالا ہے کہ اسلام خود دارالاسلام کے اندر موجود اقلیتوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ خود اسلام کے بارے میں لعن طعن کریں ۔ اگرچہ ہمارے دور کے بعض لوگوں نے اس قدر توسع اور ڈھیل سے کام لیا ہے کہ وہ مخالف اسلام لوگوں کو دارالاسلام میں اسلام پر لعن طعن کرنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں ۔ بہرحال اسلام کی یہ بھی بڑی فیاضی ہے کہ وہ انہیں اسلامی نظریہ حیات قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا اور دارالاسلام میں ان کو جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے ۔ انہیں اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ عمومی نظام (Civil code) کے علاوہ اپنے مخصوص معاملات میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے بھی کریں۔ اسلام اپنے مخالفین کو کھلے بندوں اپنے نظریات پر قائم رہنے کی اجازت دیتا ہے ‘ لیکن اسلام یہ رعایت منافقین کو نہیں دیتا جو زبانی طور پر تو اظہار اسلام کرتے ہیں لیکن ان کا عمل اسلام کے مخالف ہوتا ہے ۔ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتتا جو اللہ کی توحید کے قائل تو ہیں ‘ اور کلمہ شہادت پڑھتے ہیں ‘ لیکن ان کے بعد اللہ کی خاص صفت ‘ صفت حاکمیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرتے ہیں ‘ مثلا عوام کو حق قانون سازی دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے احبارو رہبان اور حضرت مسیح کو اللہ کے سوا رب بنایا ہے اس لئے نہیں کہ وہ ان لوگوں کی عبادت کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ان کو حلال و حرام مقرر کرنے کے اختیارات دے رکھے ہیں اور یہ اہل کتاب اس معاملے میں ان کی مکمل اطاعت کرتے ہیں ۔ نیز اسلام منافقین کے اس گروہ کے ساتھ بھی رواداری نہیں برتتا جو یہ شہادت دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے ‘ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اس کے بعد وہ دارالکفر اور دارالحرب میں مقیم ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں کی امداد بھی کرتے ہیں ۔ یہ بات رواداری نہ ہوگی بلکہ یہ بدکرداری ہوگی ۔ اسلامی نظریہ حیات راواداری کا نظریہ ہے لیکن وہ بدکرداری اور عدم حمیت کا نظریہ نہیں ہے ۔ یہ ایک سنجیدہ تصور حیات اور ایک سنجیدہ نظام حیات ہے اور سنجیدگی اور حقیقت پسندی اور رواداری میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ البتہ حقیقت پسندی اور بدکرداری کے درمیان تضاد ضرور ہے ۔ یہ نکتے پہلی تحریک اسلامی کے لئے بھی قابل توجہ اور قابل غور تھے اور آج بھی ان میں تحریک اسلامی کے لئے اہم پیغام ہے ۔
Top