Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
” کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے الا یہ کہ اس سے چوک ہوجائے ‘ اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ‘ الا یہ کہ وہ خون بہا معاف کردیں ‘ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قومکا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا ۔ پھر جو غلام نہ پائے ہو پے درپے دو مہینے روزے رکھے ۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم ودانا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 92 تا 93۔ ان احکام کا تعلق چار قسم کے حالات سے ہے تین کا تعلق جرم قتل خطا سے ہے ۔ یہ قتل دارالاسلام کے اندر بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی طور پر بھی ایسے افراد کے درمیان ہو سکتا ہے جو مختلف ممالک کے شہری ہوں ۔ چھوتی حالت کا تعلق قتل عمد بین المسلمین سے ہے جسے اسلام بالکل بعید الوقوع سمجھتا ہے ۔ اسلام مسلمانوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ یہ جرم واقع ہی نہ ہو ۔ اس لئے کہ اگر پوری دنیا کے مفادات کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری جانب ایک بےگناہ مسلم کا خون رکھا جائے تو دم مسلم کا پلڑا بھاری ہوگا ۔ اسلام اس دنیا میں کسی ایک حالت کا تصور نہیں کرتا جس میں ایک مسلمان کی جانب سے مسلمان کے قتل کا جواز پیدا ہوتا ہو۔ اسلام ایک مسلمان اور دوسرے مسلمان کے درمیان اس قدر سنجیدہ ‘ اس قدر گہرے اس قدر عظیم اس قدر قیمتی اس قدر عزت واحترام کے تعلقات پیدا کرتا ہے کہ وہ یہ فرض ہی نہیں کرتا کہ ان کے درمیان تعلقات اس قدر خراب بھی ہو سکتے ہیں کہ نوبت قتل مقاتلے تک پہنچ جائے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید سب سے پہلے قتل خطا سے بات شروع کرتا ہے ۔ (آیت) ” وما کان لمومن ان یقتل مومنا الا خطا “۔ (4 : 92) ”(مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دوسرے مومن کو قتل کرے الا یہ کہ اس سے چوک ہوجائے “ ) ۔ اسلامی شعور میں صرف اس صورت کا تصور آسکتا ہے کہ بھول چوک سے یہ جرم واقع ہو سکتا ہے ۔ یہی حقیقی احتمال ہے ‘ اس لئے کہ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کے پڑوس میں رہنا ایک عظیم بات ہے ۔ یہ ایک عظیم نعمت ہے ‘ بہت ہی عظیم ۔ لہذا اسلامی شعور اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کوئی مسلم دوسرے مسلم کو اپنے پڑوس سے علیحدہ کر دے اور یہ تو بہت ہی بری بات ہوگی کہ وہ قصدا وارادتا ایک مسلمان کے خلاف قتل اٹھائے اس لئے کہ یہ اس کرہ ارض پر ایک مسلمان کے لئے ایک نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے ۔ اس قیمتی سرمائے کے بارے میں صرف مسلمان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کی قدر و قیمت کو جانے ، اس لئے اسلامی اخلاقیات میں یہ بات بہی ہی مشکل ہے کہ ایک مسلم ‘ مسلم کو قتل کر دے ، یہ وہ معاملہ ہے جسے صرف اہل اسلام اور اسلام دوست ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ وہ اپنے نفس اور اپنے شعور کے اندر اس کا احساس رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی بھائی چارے کے ذریعے اہل اسلام کو یہ اخوت سکھائی ہے ۔ یہی وہ برادری ہے جس کی وجہ سے وہ سب رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ نظریہ ان کو اللہ کے نام پر جمع اور متحد رکھتا ہے ۔ ان کے درمیان اسلامی اخوت اور محبت پیدا ہوتی ہے اور یہ سب کچھ زبانی ہدایات کی وجہ سے ہے ۔ اگر قتل خدا واقعہ ہوجائے تو اس کی تین حالتیں ہیں اور تینوں کے احکام یہاں بیان ہوگئے ہیں۔ پہلی حالت یہ ہے کہ کسی مومن کے ہاتھوں غلطی سے دار الاسلام کے اندر دوسرا مومن قتل ہوجائے اور اس کا خاندان بھی مسلمان ہو ۔ اس صورت میں اسے ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا اور پوری دیت اس مسلمان کے خاندان کو ادا کرنی ہوگی ۔ ایک مومن غلام کو آزاد کرنے کا تاوان گویا اسلامی معاشرے کو اس کے نقصان کی تلافی کے طور پر ادا کرے گا ۔ اس لئے غلام کو آزاد کرکے اس نے ایک مردہ انسان کو آزادی دلا کر زندہ کردیا ۔ اس طرح گویا یہ کئی غلاموں کو آزاد کر دے گا ۔ رہی دیت تو اس کی وجہ سے متقول کے ورثا کے جذبات ٹھنڈے ہوں گے ۔ لیکن اس معاوضے کے فرض کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام متقول کے خاندان کو یہ اشارہ بھی دیتا ہے کہ اگر وہ دیت معاف کردیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے بشرطیکہ ان کے دل برضا اس کے لئے تیار ہوں ۔ اسلامی معاشرے اور اسلامی اخوت کے لئے عفو و درگزر نہایت ہی مفید عمل ہے حکم ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ومن قتل مومنا خطا فتحریر رقبۃ مومنۃ ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ الا ان یصدقوا (4 : 92) (اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے الا یہ کہ وہ خون بہا معاف کردیں) دوسری صورت یہ ہے کہ قتل خطا کا جرم ایک مومن پر واقع ہو اور اس کے وارث دارالاسلام کے ساتھ محارب ہوں اس حالت میں دارالاسلام کے نقصان کا معاوضہ یہ ہوگا کہ قاتل کو ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا لیکن اس کے محارب خاندان کو دیت ادا نہ ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ اس دیت کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور یہاں یہ صورت بھی نہیں ہے کہ مقتول کے اہل و عیال کی دلجوئی مطلوب ہے یا ان کے ساتھ محبت کے رشتوں کی بحالی مطلوب ہے اس لئے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ان سے برسرپیکار ہیں۔ تیسری حالت یہ ہے کہ مقتول کے وارث معاہد ہوں ‘ ان کے ساتھ معاہدہ امن ہو یا معاہدہ دوستی ہو ‘ ایسے حالات میں قرآن کریم نے مقتول کے مومن ہونے کی شرط عائد نہیں کی ۔ اس لئے بعض فقہاء اور مفسرین نے اس حالت میں آیت کے حکم کو مطلق رکھا ہے اور حکم دیا ہے کہ ایسے حالات میں بھی قاتل کو ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو دیت ادا کرنی ہوگی اگرچہ یہ مقتول مومن نہ ہو ‘ اس لئے کہ مومنین کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے ان کے جان ومال کو بھی مومنین کی جان ومال کے ساتھ مساوی درجہ ہوگا ۔ لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ آغاز کلام سے بات ایک مومن کے قتل کے بارے میں چلی ہے۔ آیت ہے ” مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ مومن کو قتل کرے ‘ الا یہ کہ اس سے چوک ہوجائے ۔ “ اس کے بعد وہ حالات بیان ہوئے ہیں جن میں مقتول مومن ہو اور دوسری حالت میں جب مقتول کا تذکرہ ہوا پھر کہا گیا (آیت) ’ (فان کان من قوم عدولکم وھو مومن) (اگر وہ ایسی قوم کا فرد ہو جو تمہاری دشمن ہے لیکن ہو مومن) یہاں (آیت) ” (وھو مومن) اس لئے کہا گیا کہ اس سے پہلے (آیت) ” من قوم عدو “۔ کے الفاظ آئے تھے ۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ تیسری حالت کی دیت میں بھی (آیت) رقبہ مومنۃ “ کی شرط ہے ۔ اگر مقتول میں مومن شرط نہ ہوتی تو رقبہ میں بھی مومن شرط نہ ہوتی صرف تحریر رقبہ کا لفظ ہوتا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتول یہاں بھی مومن ہے ‘ ورنہ کفارہ میں بھی ایمان کی شرط نہ ہوتی ۔ روایات میں آتا ہے کہ اہل معاہدہ میں بعض لوگوں کی دیت حضور اکرم ﷺ نے ادا فرمائی مگر آپ نے یہ حکم نہیں دیا کہ مومن غلاموں کو آزاد کیا جائے (ایسی کوئی روایت نہیں ہے) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتول معاہد مومن نہ ہو تو صرف دیت واجب ہے اور یہ دیت اس آیت کی رد سے ثابت نہیں بلکہ حضور ﷺ کے عمل سے ثابت ہے ۔ اور اس آیت میں جن تین صورتوں کا ذکر ہوا ہے وہ تمام صورتوں قتل مومن سے متعلق ہیں چاہے وہ مومن دارالاسلام کا باشندہ ہو یا کسی محارب قوم کا باشندہ ہو اور دارالحرب میں ہو یا ان کے درمیان معاہدہ ہو۔ چاہے امن کا معاہدہ ہو یا حلیف ہونے کا معاہدہ ہو ۔ یہ تفسیر سیاق کلام کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ۔ یہ تو تھا حکم قتل خطا کا ‘ رہا قتل عمد تو یہ قتل اس قدر بڑا گناہ ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اور اس کا کفارہ نہ دیت سے ہوتا ہے اور نہ غلام آزاد کرنے سے یہ گناہ معاف ہو سکتا ہے ۔ اس شخص کی سزا یہ ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کے حوالے ہوگا ۔ (آیت) ” ومن یقتل مومنا متعمدا فجزآوہ جھنم خلدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذابا عظیما “۔ (4 : 93) (وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے) یہ جرم قتل ہے ‘ لیکن صرف کسی جان کے خلاف ہی نہیں بلکہ یہ ایک عظیم ‘ مکرم ‘ محبوب ‘ ترین اور عزیز ترین اخوت اسلامی کا بھی قتل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ایک مومن اور دوسرے مومن کے درمیان پیدا کیا تھا ۔ یہ ناحق ‘ ہی نہیں نظریہ حیات اور ایمان کی بھی نفی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات کے اندر اسے شرک کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اور بعض سلف نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ یہ توبہ کے ذریعے بھی معاف نہ ہوگا ۔ حضرت ابن عباس کی رائے یہی ہے ۔ البتہ بعض دوسرے علماء کی رائے یہ ہے کہ معافی ہو سکتی ہے اور انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ (آیت) ” (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآئ) (اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے سوا وہ جسے چاہے بخشتا ہے) اس لئے قاتل اگر توبہ کرے تو اس کی مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے ۔ ایسے لوگوں نے خلود کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ اس سے مراد طویل زمانہ ہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے پہلے اسلامی مدرسہ میں تربیت پائی تھی وہ اپنے آباواجداد ‘ بیٹوں اور بھائیوں کے ان قاتلوں کو بچشم سر دیکھ رہے تھے ، جنہوں نے یہ قتل اسلام سے پہلے کئے تھے اور اب اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ ان میں سے بعض کے دلوں میں وہ تلخیاں دوبارہ تازہ ہوجاتی تھیں ۔ لیکن وہ ان لوگوں سے انتقام لینے کے بارے میں سوچتے بھی نہ تھے ۔ وہ کبھی بھی انتقام کے بارے میں نہ سوچتے تھے اور نہایت ہی سخت حالات اور سخت چبھن کے وقت بھی ان کے دل میں قتل کا خیال تک نہ آتا تھا بلکہ ایسے لوگوں کو اسلام نے جو حقوق دیئے تھے ‘ وہ ان میں سے کسی حق کو بھی مارنے کی کوشش نہ کرتے تھے ۔ کسی مومن کے قتل سے بچنے کی خاطر اگرچہ چوک سے ہو ‘ اور مسلمانوں کے دلوں کو تمام خواہشات سے پاک کرنے کی خاطر اور ان کے سامنے صرف فی سبیل اللہ جہاد کرنے کے مقصد کو اچھی طرح اجاگر کرنے کی خاطر مسلمانوں کو اب حکم دیا جاتا ہے کہ اگر وہ جہاد و قتال کے لئے نکلیں تو جنگ شروع کرنے سے پہلے یہ بات معلوم کرلیں کہ آیا لوگ مسلمان ہیں یا نہیں اور اگر کوئی بظاہر اظہار اسلام کر دے اور السلام علیکم کہہ دے تو حملہ نہ کریں ۔ اس لئے کہ جنگ کے حالات میں وہ تفتیش نہیں کرسکتے کہ آیا یہ اظہار اسلام حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں۔
Top