Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
فرعون نے کہا ” اے ہامان ' میرے لیے ایک بلند عمارت بناتا کہ میں راستوں تک پہنچ سکوں
آیت نمبر 36 تا 37 فرعون نے ہامان سے کہا میرے لیے ایک بلند عمارت بناتک کہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ سکوں اور موسیٰ کے حدا کے بارے میں جان سکوں۔ وانی لاظنه جاذبا (40: 37) ” مجھے تو یہ موسیٰ جھوٹا ہی معلوم ہوتا ہے “۔ یہ سرکش فرعون کی چالاکی اور اٹکل بازی ہے ، وہ سچائی کے مقابلے میں علانیہ آنا نہیں چاہتا اور عقیدۂ توحید کا اعتراف بھی نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں اس کی حکومت جاتی ہے ، جن افسانوں پر اس کی مملک قائم تھی وہ عقیدۂ توحید کے بعد باطل قرار پاتے تھے۔ یہ بات بعید ازامکان ہے کہ فرعون اس قدر کم عقل تھا اور وہ اس علمی سطح کا آدمی تھا۔ اور وہ الہہ موسیٰ کو اس سادہ انداز سے دھوکہ دے رہا تھا کیونکہ فراعنہ مصر علمی لحاظ سے بہت ہی ترقی یافتہ تھے۔ یہ دراصل اس کی طرف سے حضرت موسیٰ اور الہٰ العالمین کے ساتھ مذاق تھا۔ البتہ اس مذاق کے ساتھ وہ اپنے رویہ کو بظاہر منصفانہ بنانا چاہتا تھا۔ اور رجل مومن نے جو زبردست منطقی تقریر کی تھی اس سے جان چھڑانے کا یہ بھونڈا طریقہ اور تدبیر تھی لیکن یہ سب باتیں یہ ضرور ظاہر کردیتی ہیں کہ فرعون مصر کو اپنی گمراہی پر اصرار تھا اور وہ کبر میں مبتلا تھا۔ اور حضرت موسیٰ کو رع کرنے پر تلا ہو تھا۔ وکذٰلک۔۔۔ عن السبیل (40: 37) ” اس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوشنما بنادی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا “۔ اور اب وہ اس بات کا مستحق قرار پا گیا کہ اسے راستے سے روک دیاجائے کیونکہ وہ جس رویے کا اظہار کررہا تھا ، وہ صراط مستقیم سے دور انحراف کا رویہ تھا۔ نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ وہ بربادی اور ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے ، وماکیدفرعون الافی تباب (40: 37) ” اور فرعون کی ساری چالبازی تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی۔ اسی مذاق اور فریب اور گمراہی پر یہ اصرار کو دیکھکر رجل مومن نے بھی مناسب سمجھا کہ ایک آخری بات ان سے کہہ دے۔ یہ بہت ہی بلند واضح بات ہے۔ اس سے پہلے تو لوگوں کو یہ دعوت دی کہ میرا اتباع کرو ، میں تمہیں سیدھی راہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ پھر اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ زندگی تو بہت ہی مختصر اور فانی زندگی ہے۔ اسلیے تم اس زندگی کا انتظام کرو جو باقی رہنے والی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچو اور اسنے واضح طور پر بتایا کہ شرک کے عقیدے میں کیا کیا کمزوریاں ہیں :
Top