Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اللہ ہی نے تمہارے لیے مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ
آیت نمبر 79 تا 81 ان مویشیوں کی ابتدائی تخلیق اسی طرح نشانی ہے جس طرح انسان کی تخلیق نشانی اور معجزہ ہے ، ان حیوانات کے اندرروح ڈالنا ، ان کو اس شکل و صورت میں بنانا اور ان کو رنگارنگ پیدا کرنا سب معجزات ہیں۔ پھر یہ تمام جانور اور مویشی انسان کے لیے مسخر کیے گئے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو جسم کے اعتبار سے بھی اور قوت کے اعتبار سے بھی انسان سے زیادہ قوی ہیں لیکن اللہ الذی ۔۔۔۔ تاکلون (40: 79) ” اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار اور کسی کا گوشت کھاؤ “۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ جانور اسی طرح دنیا پائے گئے ہیں اور یہ کہ انسان کے لیے یہ کوئی معجزہ نہیں ہیں ، یا یہ کہ جانور کسی خالق پر دلالت نہیں کرتے جس نے انہیں پیدا کیا ہو اور انسان کے لیے مسخر کیا اور ان جانوروں کے اندر یہ خصائص موجود ہیں اور انسانوں کے اندر بھی یہ خصائص موجود ہیں تو اسی قسم کی باتیں قابل قبول نہیں ہیں اور انسانی کی فطری سوچ اس کے خلاف ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ بہت ہی سطحی لوگ ہیں اور ان کی یہ باتیں بالکل سطحی اور محض جدال ہیں۔ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ان آیات میں کیا کیا خوارق عادت معجزات ہیں اور کیا کیا نعمتیں ہیں۔ لترکبوا منھا۔۔۔۔۔۔ الفلک تحملون (40: 80) ” تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔ ان کے اندر تمہارے لیے اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ وہ اس کام بھی آتے ہیں کہ تمہارے دنوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو وہاں تم ان پر پہنچ سکو۔ ان پر بھی اور کشتیوں پر بھی تم سوار کیے جاتے ہو “۔ اور وہ خواہشات کو ان کے دلوں میں ہوتی تھیں اور ان جانوروں پر سوار ہوکر ان تک پہنچتے تھے۔ وہ بہت بڑی حاجت و ضروریات تھیں ، خصوصاً اس دور میں۔ اس دور میں نقل وحمل کے موجودہ ذرائع تو تھے نہیں۔ لیکن آج تک یہ جانور بعض ضروریات پورا کرتے ہیں آج بھی بعض پہاڑ ایسے دشوار گزار ہیں کہ وہاں تک کوئی جہاز ، کوئی ریل ، کوئی موٹروغیرہ نہیں جاتے۔ وہاں یہی جانور آتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں راستے اس قدر تنگ ہوتے ہیں کہ وہاں یہی جانور کرتے ہیں۔ وعلیھاوعلی الفلک تحملون (40: 80) ” ان پر بھی اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو “۔ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ اور اللہ کی ان مہربانیوں میں سے ہیں جو اس نے انسان پر کیں۔ کشتی کو پانی پر چلایا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو پانی اور کشتی کے اندر تخلیق کے وقت رکھی گئیں۔ زمین میں بھی اور آسمان میں بھی۔ خشکی میں بھی اور تری میں بھی۔ چاہے یہ کشتی بادبانوں سے چلے ، بخارات سے چلے یا ایٹمی قوت سے چلے یا ان کے بھی علاوہ کسی اور قوت سے چلے جو اللہ نے اس کائنات میں رکھ دی ہیں اور انسان کو یہ توقیق بخشی ہے کہ وہ ان قوتوں کو کام میں لائے۔ اس لیے ان سب چیزوں کو اللہ کے معجزات اور اللہ کے دیئے ہوئے انعامات کے مضمون میں لایا گیا ہے۔ اور اس قسم کی کئی آیات ومعجزت اس کائنات میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ انسان کے لیے ممکن کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان میں سے کسی معجزے اور انعام کا انکار کرسکے بشرطیکہ وہ سنجیدہ ہو۔ ویریکم اٰیٰته فای اٰیٰت اللہ تنکرون (40: 81) ” اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے ، آخر تم اللہ کی کن کن نشانیوں سے انکار کروگے “۔ ہاں بعض لوگ ہیں جو انکار کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں ، بعض ایسے ہیں جو باطل دلائل لے کر آتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے حق کو نیچا دکھائیں۔ لیکن ان سب میں سے کوئی بھی نیک نہیں ہے یا اس کے اندر ٹیڑھ ہے یا کوئی مفاد ہے ، یاکبر ہے یا اسے کوئی مغالطٰہ ہے یا کسی اور غرض کے لیے یہ کررہا ہے۔ بعض لوگ اس لیے جھگڑتے ہیں کہ وہ فرعون اور دوسرے لوگوں کی طرح ذی جاہ اور سرکش اور ظالم ہیں ، ان کو اپنی حکومت اور اقتدار کا خطرہ ہے ، ان کو تخت وتاج کا خطرہ ہے ، یہ تخت وتاج جن خاکوں پر قائم ہیں ان کو دعوت حق اڑا دیتی ہے ، کیونکہ دعوت اسلامی کا نظریہ یہ ہے کہ الٰہ اور حاکم ایک ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس لیے جھگڑتے ہیں کہ وہ مذہبی راہنما ہیں ، بعض اس لیے جھگڑتے ہیں کہ وہ ایک خاص طرز کا نظام حکومت و معیشت چاہتے ہیں مثلاً اشتراکیت کے علم برادار ، جب آسمانی عقائد ونظریات اک بندہ نہیں بناتا اور اللہ کی بندگی سے چھڑا کر کسی دوسرے نظریہ یا کسی دوسرے لیڈر کی بندگی میں داخل نہیں کرتا۔ بعض لوگ اس لیے جھگرتے ہیں کہ وہ پاپائیت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جیسا کہ قرون وسطیٰ میں اہل کنیہ اور عوام کے درمیان ہوا۔ چونکہ عوام پاپائیت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ، اس لیے انہوں نے اہل کینہ کو ان کا الٰہ بھی واپس کردیا۔ کیونکہ الٰہ کے نام سے انہوں نے لوگوں کو غلام بنارکھا تھا۔ ان اسباب کے سوا اور بھی کئی اسباب ہیں ، لیکن انسان کی فطری سوچ ان تمام اسباب کو مسترد کردیتی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے جو اس کائنات کے وجود میں مستقلاً موجود ہے اور جس کی موجودگی کی نشاندہی کائنات کی یہ نشانیاں کرتی ہیں۔ اور آخر میں یہ زور دار تبصرہ :
Top