Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 81
وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ١ۖۗ فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ
وَيُرِيْكُمْ : اور وہ دکھاتا ہے تمہیں اٰيٰتِهٖ ڰ : اپنی نشانیاں فَاَيَّ : تو کن کن اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا تُنْكِرُوْنَ : تم انکار کروگے
اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے ، آخر تم اس کی کن کن نشانیوں کا انکار کروگے
آیت نمبر 81 تا 85 انسانی تاریخ میں گزشتہ اقوام کی تباہی روایات کے ذریعے ان کی کہانیاں محفوظ ہیں۔ بعض کی کہانیاں کتابوں کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ قرآن کریم باربار ان ایام اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ انسانیت جس لائن پر بڑھتی چلی آئی ہے اس میں جا بجا حقائق موجود ہیں۔ پھر ان ایام اللہ کا اثر بھی انسان پر بہت گہرا ہوتا ہے۔ اور قرآن چونکہ خالق فطرت کی طرف سے نازل ہورہا ہے اس لیے وہ فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کرتا ہے۔ قرآن فطرت کی راہ رسم سے خوب واقف ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کی یہ مخلوق کس بات سے متاثر ہوتی ہے اور کس انداز سے اس کے دل میں بات اتاری جاسکتی ہے ، اللہ کو پتہ ہے کہ انسانی دل کا کون سادروازہ صرف ایک ہی دستک دینے سے کھل جاتا ہے اور کون سا دروازہ چند زور دار دستک دینے سے کھلتا ہے اور کون سا ہے جو زنگ آلود ہوگیا اور توڑے بغیر نہیں کھلتا۔ اللہ انسانوں سے پوچھتا ہے ، انہیں انسانی تاریخ کی سیر کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے کہ ذدا کھلی آنکھوں سے انسانی تاریخ کے نشیب و فراز کو دیکھو۔ وادی وادی میں گھومو اور احساس کو تیز رکھو ، اور قلب ونظر کو کھول کر چلو ، دیکھو اور غور کرو ، تم سے پہلے اس زمین پر کیا کیا ہوتا رہا ہے اور انسانی پر کیا کیا مصائب ٹوٹے ہیں۔ افلم یسیروا۔۔۔۔۔ من قبلھم (40: 82) ” پھر کیا زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کو ان کو لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں “۔ قبل اس کے کہ ان کے انجام کو بتایا جائے ، ان کے کچھ خدوخال بتائے جاتے ہیں اور ان کے حالات زندگی سے موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ عبرت آموزی مکمل ہو۔ کانوآ اکثر۔۔۔۔ فی الارض (40: 82) ” وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے ، ان سے بڑھ کع طاقتور تھے اور زمین میں ان سے زیادہ ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑگئے ہیں “۔ کثرت تعداد ، سیاسی قوت اور ترقی سب میں موجود لوگوں سے زیادہ تھے۔ ان میں سے کئی نسلیں تھیں جو عربوں سے پہلے گزری تھیں ۔ بعضوں کے قصے تو رسول کو سنائے گئے اور بعض کو تاریخ کے قبر ستان میں مدفون ہی چھوڑدیا گیا اور بعض قصے ، عربوں کو معلوم تھے اور بعض کے آثار کو وہ شب وروز دیکھتے تھے۔ فمآ اغنی عنھم ماکانوا یکسبون (40: 82) ” جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی آخر وہ ان کے کس کام آئی “۔ نہ ان کی کثرت ، نہ قوت اور نہ ترقی انکو بچاسکی حالانکہ وہ انہی چیزوں پر بھروسہ کیے ہوئے تھے اور مغرور تھے۔ بلکہ انکی ہلاکت کا سبب یہی باتیں ہوئیں فلماجآء۔۔۔۔ من العلم (40: 83) ” جب ان کے رسول ان کے پاس بینات لے کر آئے تو وہ اس علم میں مگن رہے جو ان کے پاس تھا “۔ علم ایمان کے ایک عظیم فتنہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کو اندھا کردیتا ہے اور سرکش بنا دیتا ہے۔ اس قسم کے ظاہری اور سائنسی علوم لوگوں کو مغرور بنا دیتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس علم کی وجہ سے وہ اقتدار میں ہیں ، بڑی بڑی قوتوں کو چلاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے خزانوں کے مالک ہیں۔ یوں وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور وہ ان وسعتوں کو بھول جاتے ہیں جن تک ابھی ان کے علم کو رسائی نہیں ہوئی ہے حالانکہ وہ وسعتیں اس کائنات میں موجود ہیں۔ ان قوتوں پر ابھی انہوں نے قابو نہیں پایا ہوتا ہے بلکہ ان کا تصور بھی وہ نہیں کرپاتے ، ان کو تو وسعتوں کے صرف ایک معمولی کنارے تک رسائی ہوئی ہوتی ہے۔ یوں یہ بےایمان صاحب علم پھول جاتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کا علم اسے پھلا دیتا ہے اور اس کا جہل اسے اپنی حقیقت بھلا دیتا ہے۔ اگر وہ یہ قیاس کرلیتا کہ اس کا علم تو بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کے جہل کا دائرہ بہت وسیع ہے اور جس کا وہ اندازہ کرتا ہے وہ بہت تھوڑا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ تو وہ سر جھکا لیتا اور اپنی کبریائی کو تھوک دیتا اور یہ جو پھول رہا ہے اس میں ذرا کمی کردیتا۔ بہرحال یہ لوگ جو اپنے موجودہ علم میں مگن ہوگئے تھے وہ یاد دہانی کرانے والوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ وحاق بھم ماکانوابه یستھزءون (40: 83) ” پھر اس چیز کے پھیرے میں آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے “۔ جب انہوں نے اللہ کے عذاب کو دیکھا تو پردہ گر گیا اور ان کو معلوم ہوگیا کہ جس چیز پر ان کو غرور تھا وہ تو کچھ نہ تھی۔ اب انہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا جس کا وہ انکار کرتے تھے۔ اللہ کی وحدانیت کے قائل ہوگئے۔ اپنے شرکاء کا انکار کردیا لیکن اب تو وقت چلا گیا تھا۔ فلما راوا۔۔۔۔ راواباسنا (40: 85) ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنھیں ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوسکتا تھا “۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان قبول نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت خوف کی توبہ ہوتی ہے۔ ایمان کی توبہ نہیں ہوتی۔ سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ (40: 85) ” کیونکہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے “۔ اور اللہ کی سنت میں کوئی تغیر اور ترمیم نہیں ہوا کرتی۔ یہ اپنی مقرر راہ پر چلتی ہے۔ وخسرھنالک الکٰفرون (40: 85) ” اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑگئے “۔ اس سخت منظر ، یعنی منظر عذاب الہٰی پر یہ سورت ختم ہوتی ہے ، جس میں یہ چیخ و پکار کرتے ہیں ، جزع فزع کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں ، ایمان ویقین کا اعلان کرتے ہیں ، سورت کا یہ خاتمہ سورت کی فضا اور موضوعات اور مضامین کیساتھ متناسب ہے اس سورت کے دوران ہم نے ایسے مسائل پر بھی بحث کی ہے جو خالص مکی سورتوں کے اہم مسائل ہیں ، مثلاً مسئلہ توحید ، مسئلہ معاد ، مسئلہ وحی ، لیکن یہ مسائل اس سورت کا اصل موضوع نہ تھے۔ اس کا اصل موضوع معرکہ حق و باطل تھا ۔ ایمان وکفر تھا۔ اصلاح وسرکشی تھی۔ یہ اس سورت کے نمایاں موضوعات ومضامین تھے۔ اور اسے سورت کے اہم خدوخال ، اور تمام سورتوں کے مقابلے میں نہایت ہی نمایاں مقاصد۔۔۔۔
Top