Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zukhruf : 29
بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ
بَلْ مَتَّعْتُ : بلکہ میں نے سامان زندگی دیا هٰٓؤُلَآءِ : ان لوگوں کو وَ : اور اٰبَآءَهُمْ : ان کے آباؤ اجداد کو حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ : اور رسول کھول کر بیان کرنے والا
“ ( اس کے باوجود جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرنے لگے تو میں نے ان کو مٹا نہیں دیا ) بلکہ میں انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دیتا رہا ، یہاں تک کہ ان کے پاس حق ، اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول ﷺ آگیا۔
آیت نمبر 29 تا 35 اب سیاق کلام میں روئے سخن اچانک اہل مکہ کی طرف پھرجاتا ہے ، اسے اضراب کہتے ہیں اور یہ انداز عربوں میں رائج تھا۔ بل متعت ھولاء واباءھم حتی جاء ھم الحق و رسول مبین ( 42 : 29) “ بلکہ میں انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دیتا رہا ۔ یہاں تک کہ ان کے پاس حق ، اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول آگیا ”۔ گویا یوں کہا گیا کہ چھوڑو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو ، ان لوگوں کے ساتھ مناسبت اور نسبت ہی کیا رہ گئی ہے۔ ہمیں ان کے شب و روز کو دیکھنا چاہئے۔ ان کے حالات ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات سے تو ملتے نہیں۔ ان لوگوں کے حالات یہ ہیں کہ ان کو اور ان کے آباو اجداد کو خوب سامان زندگی دیا گیا ، ان کو طویل مہلت دی گئی ، یہاں تک کہ وہ سچائی اس قرآن کی شکل میں آئی اور اس کے ساتھ ایک نہایت ہی کھول کر بات سمجھانے والا رسول بھی آگیا جو ان پر یہ سچائی پیش کرتا ہے اور نہایت ہی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ولما جاءھم الحق قالوا ھذا سحر وانا بہ کفرون (43 : 30) “ مگر جب وہ حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ”۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جادو میں سچائی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ، یہ بات بالکل واضح ہے۔ یہ تو ان کا محض ایک دعویٰ اور الزام تھا اور اس کے بارے میں سب سے پہلے خود ان کو یقین تھا کہ یہ الزام غلط ہے۔ کیونکہ کبراء قریش اس حد تک جہاندیدہ تھے کہ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھی کہ قرآن کریم کلام حق ہے ، یہ جو الزامات وہ لگاتے تھے۔ وہ جمہور عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے وہ ایسا کرتے تھے۔ چناچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے اور اس کے بعد یہ جو اعلان کرتے تھے کہ ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ یہ بات کو پکی کرنے کے لئے اعلان کرتے تھے۔ انہ بہ کفرون (43 : 30) “ اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ”۔ جمہور عوام کو وہ اس سے یہ تاثر دیتے تھے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا انہیں پورا پورا یقین ہے۔ اس طرح وہ ان کو یہ اشارہ دیتے تھے کہ ہمارے پیچھے چلتے رہو اور ہمارے مطیع فرمان رہو اور ہر قوم سے سردار جمہور عوام کو اس طرح دھوکہ دیتے ہیں ، یہ نہ ہو کہ وہ ان کے دائرہ اختیار سے نکل جائیں اور کلمہ توحید کو قبول کرلیں ۔ کیونکہ جب کلمہ توحید کا اقتدار قائم ہوتا ہے ، تمام گردن کش گرجاتے ہیں۔ پھر تو صرف اللہ کی بندگی ہوتی ہے اور لوگ اللہ ہی سے ڈرتے ہیں۔ اس کے بعد قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کھری اور کھوٹی قدروں کے درمیان کس طرح ملاوٹ کردی ہے۔ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو ہی منتخب کیا ہے کہ وہ یہ پیغام پہنچائیں۔ وقالوا لو لا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم (43 : 31) “ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟” دو گاؤں سے ان کی مراد مکہ اور طائف ہے۔ حضرت محمد ﷺ قریش کی ایک شاخ سے تھے۔ پھر بنی ہاشم کی ایک شاخ کے فرد تھے۔ اور یہ لوگ عربوں میں سے برتر لوگ تھے جبکہ آپ کی ذات بھی اخلاق عالیہ کے لحاظ سے ممتاز تھی۔ بعثت سے پہلے آپ صادق و امین اور اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان کے طور پر مشہور تھے۔ لیکن آپ اپنے قبیلے کے سر براہ نہ تھے ۔ نہ کسی خاندان کے رئیس تھے اور اس دور میں لوگ انہی چیزوں پر فخر کرتے تھے کہ کوئی قبیلے یا کسی شاخ کا سربراہ ہو۔ معترضین کا اعتراض یہی تھا۔ وقالوا لو لا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم (43 : 31) “ کہتے ہیں یہ قران ان دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر نازل کیوں نہ کیا گیا ”۔ حالانکہ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی رسالت اور دعوت کے لئے کون موزوں ہے اور یہ منصب کس کو دیا جائے۔ لہٰذا ! اللہ نے اہل ترین شخص کا انتخاب کرلیا۔ اللہ کا منشا یہ نہ تھا کہ اس رسالت کو خارجی اسباب میں سے کوئی سہارا ملے ، اس کی قوت اس کے خارج سے نہ ہو بلکہ اس کے اندر سے ہو۔ لہٰذا اس نے اس کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جس کی بڑی خصوصیت اس کے اخلاق تھے۔ اس دعوت کا مزاج ہی یہ ہے اور یہ اس کی بالکل ممتاز خصوصیت ہے۔ اس لیے کسی قبیلے کے سردار کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ نہ کسی خاندان کے سر براہ کو اس کے لئے منتخب کیا گیا۔ نہ کسی صاحب جاہ مرتبہ کا انتخاب ہوا۔ نہ ایک بہت بڑے مالدار کا یوں انتخاب ہوا تا کہ آسمانوں پر سے نازل ہونے والی اس دعوت کی اصل اقدار کسی ایسی قدر سے ملتبس نہ ہوجائیں جس کا تعلق اس دنیا پرستی سے ہو اور اس دعوت کے اندر دنیا پرستی کے خلیات میں سے کوئی خلیہ داخل نہ ہوجائے جو اس دعوت کی حقیقت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا۔ اور دعوت اسلامی کی ذاتی قوت کے سوا کوئی اور خارجی سبب اس پر اثر انداز نہ ہو۔ نہ کوئی طالع آزما اس کے قریب آئے اور نہ کوئی پاکباز اس سے دور ہو۔ لیکن اس قوم پر دنیا پرستی کا غلبہ تھا ، اس لیے جو لوگ آسمانی دعوت کی نوعیت کو سمجھتے نہ تھے۔ وہ اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے۔ وقالوا لو لا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم (43 : 31) “ یہ قرآن ان دو شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ”۔ لہٰذا قرآن نے اللہ کی اس عظیم رحمت پر ان کے اس سطحی اعتراض کو رد فرما دیا ، یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ اپنی رحمت کے لئے جو چاہے ، اختیار کرلے ، جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے انہوں نے دنیا پرستی اور جاہلیت کی اقدار اور اللہ کی آسمانی قدروں کو ملا دیا ہے۔ اور وہ اپنی دنیا پرستی کی آنکھوں سے اس دعوت اسلامی کو دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دعوت خدا پرستی اور آخرت کے حساب سے دی جارہی ہے۔ اھم یقسمون رحمت ۔۔۔۔۔۔ خیر مما یجمعون (43 : 32) “ کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تا کہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ سمیٹ رہے ہیں ”۔ یعنی تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اب نبوت بھی خود تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اللہ کی رحمت اور نبوت سے واسطہ کیا ہے ؟ اصل پوزیشن ان کی یہ ہے کہ یہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں ، خود اپنے رزق کے بھی یہ مالک نہیں ہیں ، یعنی اس دنیا کی مختصر زندگی کے لئے بھی ان کا رزق ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ بھی ہم ان پر تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ہم اپنی حکمت اور تدبیر سے تقسیم کرتے ہیں اور یہ ہماری تقسیم اس زمین کی تعمیر و ترقی کے لئے ہے۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لئے رزق لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق دیا جاتا ہے۔ زندگی کے حالات کے مطابق دیا جاتا ہے اور معاشرے کے افراد کے باہم تعلقات کے مطابق دیا جاتا ہے۔ مختلف عوامل کے مطابق افراد معاشرہ کے درمیان اس کی تقسیم ہوتی ہے۔ ہر معاشرے میں نظام تقسیم رزق مختلف ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں اس کے اندر تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہر سوسائٹی دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ اور اس میں عمومی حالات اور افراد معاشرہ کے باہم تعلقات پر دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن ہر دور اور ہر معاشرے میں تقسیم رزق میں جو بات موجود ہو رہی ہے ، وہ یہ رہی ہے کہ رزق کی تقسیم میں فرق رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مصنوعی معاشروں میں بھی تقسیم رزق میں فرق ہے ، جن کا مقصد ہی پیداوار بڑھانا اور مساویانہ تقسیم کرنا ہے۔ تفاوت رزق کے اسباب مختلف معاشروں میں مختلف رہے ہیں۔ لیکن مقدار رزق کے اختلافات میں اختلاف ناپید کبھی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ جن مصنوعی معاشروں کے اندر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مکمل مساوات ہے وہاں بھی رزق مختلف ہوتا ہے اور ورفعنا بعضھم فوق بعض (43 : 32) “ اور کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے ”۔ اور تمام معاشروں میں فرق مراتب رزق کے اسباب تو مختلف رہے ہیں لیکن حکمت یہی رہی ہے۔ درجت لیتخذ بعضھم سخریا (43 : 32) “ یا کہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں ”۔ یعنی بعض لوگ دوسروں کو اپنا ماتحت کر کے ان سے خدمات لیں ، اس دنیا میں جب معیشت کی گاڑی چلتی ہے تو بعض لوگ خدمات فروخت کرتے ہیں اور بعض خریدتے ہیں۔ یوں بعض بعض کے لئے مسخر ہوجاتے ہیں ، یہاں تسخیر کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک طبعہ برتر ہو اور دوسرا کم تر ہو یا ایک فرد دوسرے کا غلام ہو۔ اگر یہ لیا جائے تو یہ اس لفظ کا بہت ہی سادہ مفہوم ہوگا۔ یہ اللہ کے دائمی اور بلند کلام کی سطح تک نہیں پہنچتا۔ اللہ کے فرمان کا مفہوم کسی تغیر سے بالا ہے ، اگرچہ انسانی سوسائٹی کے حالات میں جس قدر تبدیلی واقع ہوجائے ، یہ ایسا مفہوم نہیں ہے کہ جانے والے حالات میں اور ہو اور آنے والے حالات میں اور ہو۔ حقیقی مفہوم یہ ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے لئے مسخر ہیں اور زندگی اور معیشت کا چکر سب کو گھماتا ہے۔ اور ہر حال اور ہر صورت میں لوگ ایک دوسرے کے محتاج و مجبور ہیں۔ ہر ایک کے وسائل رزق متعین ہیں ، کسی کے ذرائع ، کشادہ ہیں اور کسی کے محدود ہیں۔ کوئی اس کام میں لگا ہوا کہ دولت جمع کرے ، اس سے خود بھی کھائے اور وہ دوسروں کو بھی دے اور دونوں ایک دوسرے کے لئے مسخر ہیں۔ اور دونوں کے وسائل رزق میں جو فرق ہے اس نے دونوں کو ایک دوسرے کے لئے محتاج اور مسخر بنا دیا ہے۔ اور زندگی خصوصاً معاشی زندگی کے چکر میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ، مزدور انجینئر کا محتاج ہے اور انجینئر مالک کا محتاج ہے۔ انجینئر اور مزدور دونوں مالک کے محتاج ہیں ، مالک انجینئر اور مزدور دونوں کا محتاج ہے۔ اور ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کرۂ ارض پر فریضہ خلافت الٰہیہ کے پورا کرنے میں لگا ہوا ہے اور مسخر ہے۔ اور یہ سب نظام رزق میں تعاون کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ کسی کو خدمات درکار ہیں اور کسی نے بیچنی ہیں۔ بعض ایسے لوگ جو خود ساختہ نظریات کے داعی ہیں وہ اس آیت کو پیش نظر رکھ کر اسلام اور اسلام کے اقتصادی نظام پر بہت سے اعتراضات کرتے ہیں اور پھر بعض مسلمان اس آیت کے سامنے شف شف کرتے ہیں اور ان کا اندازیوں ہوتا ہے کہ وہ گویا اسلام پر یہ ایک الزام ہے اور وہ اس کا رد کرتے ہیں کہ اسلام رزق کے معاملے میں فرق مراتب کا قائل نہیں ہے اور یہ کہ رزق میں فرق مراتب اسلام پر تہمت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ اہل اسلام ، اسلام کے بارے بالکل کھل کر اور صاف صاف بات کریں۔ وہ ان خود ساختہ نظریات سے متاثر ہوئے بغیر اور دفاعی انداز اختیار کئے بغیر صاف صاف کہہ دیں کہ رزق میں فرق مراتب ایک حقیقت ہے جسے اسلام روا رکھتا ہے اور لوگ ہمیشہ وسائل رزق کے معاملے میں مختلف ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی حالت طبیعی اور حالت نفسی اسی تفاوت پر قائم ہے۔ لوگوں کو خالق کائنات کی طرف سے مختلف درجوں کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرسکتا ہے اور یہ تفاوت اور فرق مراتب اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر شخص نے اس کرۂ ارض پر فریضہ خلافت الٰہیہ کی ادائیگی میں بالکل ایک جدا کردار ادا کرنا ہے۔ اگر سب لوگ اس طرح پیدا کئے گئے ہوتے جس طرح پریس سے ایک اشتہار چھپتا ہے یا کتاب کا ایک نسخہ تیار ہوتا ہے تو اس دنیا میں زندگی کی یہ اجتماعی صورت نہ ہوتی اور کئی ضروری کام یونہی رہ جاتے جن کے سر انجام دینے کے لئے کوئی قابل آدمی نہ ہوتا کیونکہ ان کے لئے کوئی قابل آدمی ہی نہ ملتا۔ جس اللہ نے زندگی پیدا کی ہے اور اس کے لئے بقا کا انتظام فرمایا ہے اس نے ہر شخص کے لئے ایک کردار رکھا ہے اور ہر عمل کے لئے ایک شخص ، ہر کسے رابہر کارے ساختد ، پھر ہر شخص کی کارکردگی کی وجہ سے اس کے رزق میں بھی فرق ہوتا ہے ، گر فرق مراتب نہ کئی زندیقی ، یہ ہے اصل قاعدہ ۔ رہا یہ کہ مختلف اہلیت کے لوگوں کے رزق کے اندر کس قدر فرق ہو تو یہ ہر نظام ، ہر معاشرے اور ہر ملک کے اپنے حالات پر موقوف ہوتا ہے ۔ لیکن یہ فطری اصول کسی جگہ رد نہیں کیا جاسکتا کہ فرق مراتب ہو اور اس طرح زندگی نشوونما پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے مصنوعی نظامہائے معیشت کے پیروکاروں نے جنہوں نے مساوات کے بلند بانگ دعوے کئے ، مزدور ، انجینئر اور منیجر کی تنخواہوں کے اندر مساوات قائم نہ کی اور نہ کرسکے ۔ حالانکہ انہوں نے اپنے نظام کو بروئے کار لانے کے لئے بڑے سے بڑا تشدد کیا لیکن آخر کار یہ لوگ اللہ کے ابدی اصول کے سامنے شکست کھا گئے۔ کیونکہ اللہ کا قانون اس کائنات کے اندر موجود نہایت ہی مستحکم ناموس زندگی پر مبنی ہے (سید قطب ، اے کاش آپ زندہ ہوتے اور ان مصنوعی مذاہب کو روس میں دھڑام سے گرتے دیکھتے ! ) اور جس نظام کی نشاندہی اللہ نے اس دنیا کی زندگی کے لئے کی ہے اسی میں اللہ کی رحمت ہے۔ و رحمت ربک خیر مما یجمعون (43 : 32) “ تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو یہ جمع کرتے ہیں ” اور یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ اپنی اس رحمت کے لئے جس کو چاہے ، چن لے ، کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس منصب کے لئے کون اہل ہے۔ پھر اللہ کی رحمت کا تعلق اس دنیا میں پائے جانے والے نظام معیشت کی اہلیت پر نہیں ہے۔ یہ تو دنیاوی اقدار ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ کوئی بہت بڑا کمال نہیں ہے کہ کوئی بہت بڑی دولت جمع کر دے کیونکہ دولت کے جمع کرنے میں نیکو کاروں اور بدکاروں کے لئے برابر کے مواقع ہیں اور اچھوں اور بروں کے لئے اس میں برابر مواقع ہیں لیکن اللہ کی رحمت (نبوت) کے لئے تو بہت ہی ممتاز ترین لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس کام کو اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ دنیا اور اس کی دولت اس قدر حقیر اور اس قدر بےوقعت ہے کہ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سب لوگ کافر ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ یہاں کافروں پر دولت کی بارش کردیتا۔ لیکن اندیشہ یہ تھا کہ یہ دولت لوگوں کے لئے فتنہ بن جائے گی اور انہیں ایمان کی راہ سے روک دے گی۔ ولو لا این یکون ۔۔۔۔۔۔ علیھا یظھرون (43 : 33) ولبیوتھم ابوابا ۔۔۔۔۔ یتکئون (43 : 34) وزخرفا وان کل ۔۔۔۔۔ عند ربک للمتقین (43 : 35) “ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہوجائیں گے تو ہم خدائے رحمٰن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں ، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ سے اپنے بالاخانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، سب چاندی اور سونے کے بنا دیتے ۔ یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لئے ہے ”۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کی مخلوق ضعیف ہے اور وہ دنیا کے مال و دولت سے کس قدر متاثر ہوجاتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ اپنی اس عظیم رحمت کا انکار کرنے والوں کو اس حقیر و ذلیل دنیا سے مالا مال کردیتا ، ان کے مکانات ، ان کی چھتیں اور ان کے دروازے اور ان کا فرنیچر سب سونے چاندی کے ہوجاتے ۔ ان کے گھروں کے بڑے بڑے گیٹ ہوتے۔ جن تختوں پر وہ بیٹھے ان کے بڑے بڑے تکیے ہوتے اور یہ سونے چاندی اور دوسری قیمتی دھاتوں کے ہوتے۔ یہ دنیائے ونی سب کی سب ان کفار کے حوالے کردی جاتی۔ وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا (43 : 35) “ یہ تو سب حیات دنیا کی متاع ہے ”۔ یعنی زائل ہونے والا سازو سامان ، جو اس دنیا کی حدود سے آگے جاتا ہی نہیں۔ یہ دنیا بھی کم قیمت اور مختصر اور اس پر انسان کی زندگی بھی مختصر۔ والاخرۃ عند ربک للمقتین (43 : 35) “ اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے ”۔ اور یہ لوگ اللہ کے نزدیک اپنے تقویٰ کی وجہ سے مکرم ہیں۔ لہٰذا اس نے ان کے لئے وہ انعامات تیار کر رکھے جو بہت ہی باعزت اور قیمتی ہیں۔ اور وہ اس دنیا کے فانی متاع کے مقابلے میں زیادہ باقی رہنے والے بیش قیمت ہیں۔ اور اللہ ان کو قیامت میں رحمٰن کے کافروں کے مقابلے میں بہت ہی امتیازی شان دے گا اور رہے یہ کافر تو ان کو اللہ متاع حیات اس حساب سے دیتا ہے جس طرح حیوانات کو چارہ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حیات دنیا کا یہ سازو سامان جس کی مثال اللہ نے یہاں دی ، اس دنیا کے بہت سے لوگوں کی نظروں کو چکا چوند کردیتا ہے ۔ اور جب اہل ایمان فساق و فجار کے ہاتھ میں یہ مال و دولت دیکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ ان سے خالی ہیں یا وہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عسرت ، سختی اور تنگی ترشی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ فساق و فجار اپنی دولت کے بل بوتے پر ، قوت و سطوت اور اقتدار پر ہیں تو وہ فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ فتنہ لوگوں پر بہت اثر کرتا ہے لیکن اللہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ یہ چیزیں نہایت ہی حقیر ، عارضی اور کم قیمت ہیں۔ اور اللہ نے اپنے ہاں متقین کے لئے جو کچھ تیار کر رکھا ، وہ ناقابل تصور ہے۔ یہ نیک لوگوں کے لئے ہے۔ اس طرح قلب مومن اس حالت پر مطمئن ہوجاتا ہے جو اللہ نے ابرار کے لئے اختیار کیا ہے یا فجار کے لئے اختیار کیا ہے۔ ان لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اللہ نے نبوت کے لئے ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جس کے پاس دولت دنیا نہیں ہے ۔ وہ لوگوں کی قدرو قیمت کا اندازہ ان کے اقتدار ، ان کے مال ، اور ان کے مرتبے سے لگاتے ہیں۔ ان کو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں تو یہ چیزیں حقیر اور فانی ہیں۔ یہ تو اللہ کی شریر ترین مخلوق کے پاس بہت زیادہ ہوتی ہیں اور اللہ کے مبغوض ترین لوگوں کے پاس زیادہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا مال و دولت اللہ کے ہاں قرب ، مرتبہ اور رضائے الٰہی کی دلیل نہیں ہے۔ یوں قرآن کریم ہر چیز کو اپنی جگہ اور صحیح مقام پر رکھتا ہے ۔ اور اللہ کے قوانین بابت تقسیم رزق بیان کرتا ہے کہ اس دنیا میں دولت کی تقسیم کا یہ نظام ہے۔ اور یہ وضاحت کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اس سلسلے میں کیا قدریں ہیں اور یہ تمام باتیں اس حوالے سے کی گئیں کہ ان لوگوں کو رسالت محمدی پر اس زاویہ سے اعتراض تھا کہ اللہ نے مکہ اور طائف کے رؤسا کو چھوڑ کر محمد ﷺ کو نبی بنا دیا جو دولت کے اعتبار سے ایک عام آدمی تھے۔ یوں ، اس مناسبت سے امارت اور غربت کے بارے میں ، اسلامی نظام معیشت کے لئے بنیادی اور کلی قواعد وضع کر دئیے گئے ، جن کے اندر کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور کوئی تغیر ممکن نہ ہوگا۔ زندگی کی بو قلمونیاں ، نظام کا اختلاف ، نظریات کا اختلاف ، معاشروں اور سوسائٹیوں کا اختلاف کوئی چیز بھی ان قواعد کو متاثر نہ کرے گی۔ کیونکہ زندگی کی بعض مستقل قدریں ہیں اور یہ زندگی ان کے دائرے کے اندر ہی حرکت کرتی ہے۔ وہ اس کے دائرے سے خارج نہیں ہو سکتی۔ جن لوگوں کو بدلتے ہوئے حالات اس طرف سے اندھا کردیتے ہیں کہ وہ زندگی کی ان مستقل قدروں کو دیکھ سکیں ، وہ اللہ کے اس مستقل معاشی اصول اور معاشی کلیہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ (انہدام روس کے بعد سمجھ لیا ہے ) اسلامی نظام دراصل ثبات اور تغیر کے درمیان ایک حسین امتزاج ہے۔ اس کے معاشی نظام میں بدلنے والے اصول بھی ہیں اور ناقابل تغیر بھی ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ زندگی کی ترقی میں تغیر و تبدل ہی اصل چیز ہے۔ یہ تغیر اور انقلاب اشیاء کی حقیقت میں بھی آتا ہے اور شکل میں بھی آتا ہے اور ان لوگوں کا زعم یہ ہے کہ اس تغیر اور تبدیلی کے ساتھ مستقل اور ثابت اصول نہیں چل سکتے۔ یہ لوگ اس بات کے منکر ہیں کہ تبدل و تغیر کے سوا اور کوئی مستقل قانون معیشت بھی ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ لوگ صرف تغیر کے قانون کو تسلیم کرتے ہیں۔ رہے ہم مسلمان تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس پوری کائنات میں ثبات اور تغیر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اور اس دنیا کی بعض چیزوں میں ثبات بطور ایک مستقل قدر موجود ہے اور اس کی بڑی مثال تو یہی مسئلہ موضوع بحث ہے۔ لوگوں کے درمیان تقسیم رزق میں تفاوت ایک مستقل اصول ہے اور نسبت تفاوت میں فرق و امتیاز بہرحال ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہ نسبت ہر ملک اور ہر معاشرے اور ہر زمانے میں بدل سکتی ہے۔ خود موضوع زیر بحث میں دونوں مثالیں موجود ہیں کہ ثبات و تغیر تقسیم معیشت میں موجود ہے۔ اور تفاوت مستقل ہے اور نسبت تفاوت متغیر ہے۔ ٭٭٭ جب یہ بیان کردیا گیا کہ اللہ کے نزدیک اس دنیا کا مال و متاع کوئی چیز نہیں ہے اور یہ ایک حقیر سامان چند روزہ ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ فساق و فجار کو جو دولت دی جاتی ہے یہ ان کی کرامت اور شرافت کی دلیل نہیں ہے۔ اور آخرت کے تمام مزے متقین کے لئے ہیں۔ تو یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں دولت دی گئی اور وہ اللہ کو یاد نہیں کرتے اور وہ ان عبادات سے منہ پھیرے ہیں جن کے نتیجے میں آخرت میں نعمتیں ملیں گی تو ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوگا۔
Top