Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zukhruf : 51
وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ١ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ
وَنَادٰى : اور پکارا فِرْعَوْنُ : فرعون نے فِيْ قَوْمِهٖ : اپنی قوم میں قَالَ يٰقَوْمِ : کہا اے میری قوم اَلَيْسَ : کیا نہیں ہے لِيْ : میرے لیے مُلْكُ مِصْرَ : بادشاہت مصر کی وَهٰذِهِ : اور یہ الْاَنْهٰرُ : دریا۔ نہریں تَجْرِيْ : جو بہتی ہیں مِنْ تَحْتِيْ : میرے نیچے سے اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ : کیا پھر نہیں تم دیکھتے
“ ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا ، “ لوگو ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا ؟
آیت نمبر 51 تا 53 مصر کی بادشاہت ، مصر کی نہریں فرعون کے زیر انتظام تھیں اور جمہور عوام کو نظر آتی تھیں۔ یہ ان کی آنکھوں کو چکا چوند کردیتی تھیں۔ اس لیے لوگ دھوکہ کھا جاتے تھے ۔ رہی آسمانوں اور زمین کی بادشاہت جس میں مصر ایک ذرہ ہے ، تو اس کو سمجھنے کے لئے مومن دلوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جو اس بات کو سمجھ سکیں اور اللہ کی بادشاہت اور مصر کی بادشاہت کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ رہے غلامی کے خوگر عوام جن کا ہر دور میں استحصال کیا جاتا ہے تو ان کو قریب کی دنیاوی چمک دمک متاثر کردیتی ہے اس لیے ان کی نظریں ، ان کے دل اور ان کے دماغ اللہ کی بلند حکومت اور بادشاہت کو سمجھنے کے لئے سر بلند ہی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون نے ان عوام کے غافل اور سطحی دلوں کے سامنے ترقیات کا زرق برق نقشہ پیش کیا اور کہا۔ ام انا خیر ۔۔۔۔۔ یکاد یبین (43 : 52) “ میں بہتر ہوں یا یہ جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا ”۔ یہاں ذلت سے اس کی مراد یہ تھی کہ یہ نہ امیر ہے ، نہ صاحب اقتدار اور نہ اس کے پاس نظر آنے والی مالی پوزیشن ہے۔ لفظ ام سے وہ اشارہ بنی اسرائیل کی غلام قوم کی طرف کرتا ہے ، اور “ اپنی بات کھول کر بیان نہیں کر سکتا ” اس طرف کہ مصر سے جانے سے پہلے آپ کی زبان میں لکنت تھی۔ یہ پہلے کی بات تھی ورنہ اب لکنت نہ تھی۔ حضرت موسیٰ علی السلام نے دعا فرمائی تھی۔ رب اشرح لی ۔۔۔۔۔۔ یفقھوا قولی “ اے میرے رب میرے سینہ کو کھول دے ، میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے ، اور میری زبان میں لکنت ہے ، اسے کھول دے تا کہ وہ میری بات کو سمجھیں ”۔ اس وقت آپ کی زبان کا عقدہ کھل گیا تھا اور آپ اب بات بیان کرسکتے تھے۔ اور جمہور عوام کا ظاہر ہے کہ فیصلہ یہی ہوگا کہ فرعون جو مصر کا بادشاہ ہے ، مصر میں نہریں اس نے جاری کر رکھی ہیں۔ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوگا ۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تو حق بات ، نبوت کا پیغام ، نجات کی دعوت اور دردناک عذاب سے بچنے کی راہ تھی۔ فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب (43 : 53) “ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ”۔ یہ ہے ذہنیت وڈیروں کی۔ اس دنیا کا حقیر سازو سامان ، نبوت کی حقانیت کے لئے بطور علامت تجویز ہو رہا ہے۔ سونے کے کنگن ، ان معجزات سے بھاری ہوگئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے۔ مطلب یہ تھا کہ اسے مصر کا اقتدار کیوں نہیں دیا گیا۔ کیونکہ مصر کے بادشاہ کی تاج پوشی کے موقعہ پر سونے کے کنگن اتارے جاتے تھے۔ یہ ان کی رسم تھی۔ یوں وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ رسول کو مقتدر اعلیٰ ہونا چاہئے اور یہ میں ہوں۔ اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین ( 43 : 53) “ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا ”۔ یہ بھی ایک اعتراض تھا ، جس کا تعلق اس دنیا کی چمک دمک سے تھا۔ اور عوام پر اثر انداز ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک بنا بنایا اعتراض ہے جو ہر رسول پر کیا گیا۔
Top