Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ
: نہیں بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْۢ بَحِيْرَةٍ
: بحیرہ
وَّلَا
: اور نہ
سَآئِبَةٍ
: سائبہ
وَّلَا
: اور نہ
وَصِيْلَةٍ
: وصیلہ
وَّلَا حَامٍ
: اور نہ حام
وَّلٰكِنَّ
: اور لیکن
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا
يَفْتَرُوْنَ
: وہ بہتان باندھتے ہیں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
الْكَذِبَ
: جھوٹے
وَاَكْثَرُهُمْ
: اور ان کے اکثر
لَا يَعْقِلُوْنَ
: نہیں رکھتے عقل
اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اور نہ حام ۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ۔
(آیت) ” نمبر 103 تا 104۔ انسانوں کے دل و دماغ یا تو اس صورت پر قائم ہوں گے جس پر انہیں اللہ نے پیدا کیا ۔ وہ صرف ایک الہ کی معرفت پائیں گے ‘ ایک رب العالمین کی غلامی کریں گے ‘ اسی کی شریعت کے تابع ہوں گے اور اللہ کے علاوہ تمام دوسرے شرائع وقوانین کو ترک کردیں گے ۔ تمام دوسرے الہوں کی ربوبیت کو ترک کردیں گے اور کسی اور سر چشمے سے اپنے قوانین اور ضوابط نہ لیں گے ۔ یہ ایک نہایت ہی فطری صورت حال ہوگی ‘ بندے کا اپنے رب کے ساتھ جوڑ ہوگا ‘ اس کی عبادت اور رب کریم کے ساتھ اس کے روابط نہایت ہی سادہ ہوں گے ورنہ وہ جاہلیت کی پیچ در پیچ گزر گاہوں میں سرگرداں رہے گا ۔ کبھی بت پرست ہوگا اور تہ بہ تہ کلمات کے اندر گم کردہ راہ رہے گا ۔ زندگی کے ہر موڑ پر ایک وہم اور تخیل اسے نچا رہا ہوگا ۔ جاہلیت کا ہر بت اس سے اپنے مراسم عبودیت ادا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہوگا ‘ ہر بت کا مطالبہ یہ ہوگا کہ وہ اسے راضی کرے پھر عبادات اور قربانیوں کے مراسم بھی متعدد اور متضاد ہوں گے اور ایک بت پرست کے ذہن میں کوئی اصول نہ ہوگا ۔ وہ عبادات کے مراسم کو ادا کرتا چلا جائے گا اور اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئے گی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ مختلف اور متفرق ارباب کی بندگی اسے تھکا کر چور چور کر دے گی اور اس کی انسانیت کا وہ شرف بھی ختم ہوجائے گا جو اللہ نے انسان کو دیا تھا ۔ جب اسلام آیا تو انسانیت موخر الذکر حالت میں تھی ۔ اس نے لوگوں کے سامنے نظریہ توحید پیش کیا اور بتایا کہ قوت حاکمہ ایک ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے ۔ اس نے صرف ایک رب کی بندگی کا نظریہ دیا تاکہ لوگ ایک دوسرے کی بندگی اور غلامی سے نجات پالیں ۔ نظریہ توحید کے ذریعے انسان کو متفرق الہوں کی بندگی سے نجات ملی اور انسانی ضمیر ادہام وخرامات کے ناقابل برداشت بوجھ سے نجات پا گیا ۔ انسانی فہم ودراک اور عقلمندی نے اپنا اصل مقام و مرتبہ پایا اور انسان کو مختلف اور متضاد مراسم عبودیت سے نجات ملی ۔ پھر انسان نے بت پرستی کے خلاف جہاد شروع کیا اور اس کی تمام شکلوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ۔ اس کے بعد زندگی کے تمام نشیب و فراز میں اس کا پیچھا کیا ‘ دل کی گہرائیوں ‘ عبادت کے طریقوں ‘ زندگی کی رسومات اور نظام قانون اور نظام حکومت ہر جگہ سے بت پرستی کا قلع قمع کردیا گیا ۔ افکار جاہلیت میں سے یہ ایک ٹیڑھی فکر تھی ‘ جس کا قرآن کریم یہاں علاج کر رہا ہے تاکہ اسے سیدھا کر دے ‘ دیا جلا کر اس ٹیڑھی راہ کو روشن کر دے اور فکر ونظر کے اسلامی اصولوں کا دیا جلا دے ۔ اصول شریعت اور اصول نظام زندگی ۔ (آیت) ” مَا جَعَلَ اللّہُ مِن بَحِیْرَۃٍ وَلاَ سَآئِبَۃٍ وَلاَ وَصِیْلَۃٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ (103) ” اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اور نہ حام ۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ۔ یہ جانوروں کی اقسام تھیں جنہیں وہ اپنے الہوں کے لئے چھوڑ دیتے تھے ۔ ان کی کچھ خاص شرائط ہوتی تھیں اور یہ شرائط انہوں نے فکر ونظر کی تاریخ کے تہ بہ تہ پردوں ادہام اور خرافات سے اخذ کی تھیں ۔ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام کیا تھے ؟ اور ان کے بارے میں جو ادہام و خرافات عربوں میں رائج تھے ان کا مصدر اور منبع کیا تھا ؟ ان کی تعریف میں روایات مختلف ہیں۔ بعض روایات کا یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا ۔ زہری نے سعید ابن مسیب سے یہ روایت کی ہے ۔ بحیرہ اونٹوں میں سے وہ قسم ہوتی ہے جس کا دودھ مالک خود استعمال نہیں کرتا تھا ۔ یہ صرف الہوں کے لئے ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ الہوں کا مال مذہبی پیشواؤں ہی کے لئے ہوتا ہوگا ۔ سائبہ وہ ہے جو وہ اپنے بتوں کی نذر کرتے تھے ۔ وصیلہ وہ ہوتی تھی جس کا پہلی بار کا بچہ مادہ ہو پھر دوبارہ بھی بچہ مادہ ہو یعنی دونوں کے درمیان اتصال ہوگیا ۔ یعنی درمیان میں نر پیدا نہ ہوا ۔ ایسی اونٹنی کو وہ بتوں کے نام پر ذبح کردیتے تھے اور حام اس اونٹ کو کہتے تھے کہ جس کی نسل سے کئی بچے پیدا ہوئے ہوں ۔ اس کی تعداد مقرر تھی جب وہ اس تعداد تک پہنچ جاتا تو اسے حام اس لئے کہتے تھے کہ اس نے اپنی پشت کو مزید استعمال سے بچا لیا ۔ اب اس پر سوار نہ ہوتے ۔ اہل لغت کہتے ہیں : بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کے کان پھاڑتے تھے ۔ وہ کہتے (بحرت اذن الناقہ بحرا) (میں نے اپنی اونٹنی کے کان پھاڑ دیئے) ایسی اونٹنی کو بحورہ بھی کہتے تھے اور بحیرہ بھی ۔ اور یہ کان آخری حصے تک پھاڑ دیئے جاتے تھے اور بحر کو بھی بحر اس لئے کہتے ہیں کہ یہ وسیع ہوتا ہے ۔ اہل جاہلیت کے نزدیک بحیرہ کا گوشت کھانا حرام ہوتا تھا اور اسے بحیرہ اس طرح قرار دیتے کہ جب وہ پانچویں بار بچہ دے اور وہ نر ہو ۔ اب وہ اس کے کان پھاڑ دیتے اس کا گوشت حرام قرار دے دیتے اور اس کی قربانی اور اس پر سواری ممنوع ہوتی ۔ کوئی شخص اسے اپنے پانی سے نہ روکتا اور کوئی شخص اسے اپنی چراگاہ سے بھی نہ روکتا ۔ سائبہ وہ اونٹنی ہوتی جسے پن کردیا جائے اور اسے مسیبہ بھی کہتے ہیں ۔ جاہلیت کے زمانے میں اگر کوئی نذر مانتا کہ وہ سفر سے خیرت سے لوٹا یا بیماری سے تندرست ہوا تو وہ یہ نذر دے گا ۔ تو وہ کہتا میری اونٹنی سائبہ ہوئی ‘ حرمت اور آزادانہ چرنے چگنے میں وہ بھی بحیرہ کی طرح ہوتی ۔ اور وصیلہ کے بارے میں بعض اہل لغت نے یہ لکھا ہے کہ اگر بکری کے دو بچے ہوں ایک نر ہو اور دوسرا مادہ ہو تو عرب کہتے ہیں کہ اس مادہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ولادت کی تو وہ اس بکری کو ذبح نہ کرتے تھے ۔ بعض کہتے تھے کہ اگر بکری مادہ جنے تو یہ ان کی ہے ۔ اور اگر نہ جنے تو وہ اسے اپنے الہوں کے نام ذبح کردیتے تھے اور اگر نر اور مادہ دونوں یکجا پیدا ہوں تو کہتے کہ چونکہ یہ بھائی بہن اکٹھے ہوئے ہیں اس لئے وہ بکری کو ذبح نہ کرتے ۔ حام وہ اونٹ ہوتا جس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہوتے تو اس کے بارے میں وہ کہتے کہ اس نے اپنی پیٹھ کو بچا لیا ہے اس لئے وہ اس کو چراگاہ اور پانی سے نہ روکتے ۔ “ (دیکھئے احکام القرآن جصاص) ان جانوروں کی تعریف کے بارے میں اور بھی کئی روایات وراد ہیں اور ان کے پیچھے بس یہی تصور ہے جو اوپر ہم نے ذکر کیا ۔ ان جانوروں کے تقدس کے لئے ان اسباب سے کوئی ارفع اور معقول سبب کسی روایت میں نہیں آیا ہے ۔ جیسا کہ درج بالا اقتباس سے معلوم ہوگا یہ تمام اسباب بت پرستی اور جاہلیت کے ادہام اور اندھیروں کا نتیجہ تھے جب فیصلے ادہام اور تاریک خیالی کے زاویے سے ہوتے تو پھر وہم پرستی اور تاریک خیالی کی نہ کوئی حد رہتی ہے اور نہ کوئی اصول اور میعار رہتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں چند مذہبی رسومات پیدا ہوجاتی ہیں کبھی ان رسومات میں کمی آجاتی ہے اور کبھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہ اصول جاہلیت عربیہ کے اندر بھی رائج تھا اور یہی صورت ہر دور اور ہر جگہ واقعہ ہو سکتی ہے ۔ جب بھی توحید سے لوگ ہٹیں گے وہ ایسی ہی وہمیات کا شکار ہوں گے اس لئے کہ توحید ہی وہ نظریہ ہے جس میں نہ ٹیڑھ ہے اور نہ تاریکی ہے ۔ تمام جاہلی نظاموں میں رسوم وتوہمات کی ظاہری شکلیں تو مختلف ہوتی ہیں لیکن خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ بنیاد تاریک خیالی پر ہوتی ہے یعنی زندگی کے معاملات میں اللہ کے سوا کسی اور جگہ سے ہدایات لینا ۔ جاہلیت کسی مخصوص زمانے کا نام نہیں ہے بلکہ جاہلیت ایک صورت حال کا نام ہے جو بار بار رنگ بدل کر سامنے آتی رہتی ہے ۔ مختلف شکلوں میں آتی ہے ۔ مختلف ادوار میں آتی ہے ۔ اب صورت حال یا تو ایسی ہوگی کہ ایک اللہ حاکم ہوگا اور اس کے مقابلے میں تمام مخلوق اس کی غلام اور محکوم ہوگی ۔ ہر قسم کا اقتدار اللہ کے لئے ہوگا ‘ شعور وفکر اللہ سے لیا گیا ہوگا ‘ نیت اور عمل اللہ کے حوالے سے ہوگا ۔ نظم ونسق اور اجتماعی طور طریقے اللہ کی مرضی سے ہوں گے ۔ اقدار اور پیمانے اللہ کے تصور سے وضع ہوں گے ‘ قوانین اور ضوابط اللہ کے نافذ ہوں گے ۔ اور تمام تصورات فلسفے اور ہدایات اللہ ہی سے اخذ ہوں گے یا پھر جاہلیت ہوگی ‘ کسی بھی رنگ دھنگ میں ‘ اس میں بندہ بندے کا غلام ہوگا یا بندہ اللہ کے سوا کسی اور مخلوق کا غلام ہوگا ‘ اس جاہلیت کے نہ حدود ہوں گے اور نہ ضابطے ہوں گے اس لئے کہ کوئی انسان کوئی ایسا ضابطہ بنا ہی نہیں سکتا جسے الہی ضابطہ اور اصول کہا جاسکے اس لئے کہ عقل انسانی پر بیشمار چیزیں اثرات ڈال دیتی ہیں ہر دور میں جب انسان نے کوئی تصور اور کوئی نظم دینے کی کوشش کی ہے وہ بیشمار عوامل سے متاثر ہوا ہے اور وہ مختلف اطراف سے پریشر اور دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکا ‘ جب تک کہ وہ موزوں ترین ضابطے کے سامنے جھکا نہیں ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس بیان اور توضیح کو چودہ سو سال گزر گئے ہیں اور جب بھی عقل انسانی نے عقیدہ توحید سے روگردانی کی وہ پچیدہ راہوں میں گم ہوگیا اور بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گیا ۔ وہ مختلف متعدد اور متفرق ارباب کا معتقد ہوتا رہا ۔ اس نے اپنی آزادی ‘ اپنی شرافت اور اپنی قوت مقابلہ سے ہاتھ دھویا ۔ صرف اس زیر بحث مسئلہ تقدس حیوانات ہی کو اگر لیا جائے تو آج بھی مصر کے اندر دسیوں خرافات ملیں گے جن میں بعض حیوانات کو تقدس کے خیال سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ بعض اولیاء اور مقدس لوگوں کے نام پر ‘ بعینہ اسی طرح چھوڑ دیئے جاتے ہیں جس طرح قدیم زمانوں میں الہوں کے نام پر حیوانات چھوڑے جاتے تھے ۔ ان مراسم عبودیت اور جاہلیت کے مسئلے کا تعلق صرف ایک اصول کے ساتھ ہے اور یہ اصول نقطہ آغاز ہے ۔ اس نقطے سے دو راستے نکلتے ہیں یا تو اسلام کا راستہ ہوگا اور یا جاہلیت کا ، نقطہ یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں حاکمیت کس کی چلے گی ؟ اسلامی شریعت کے مطابق حاکمیت اللہ کی ہوگی یا غیر اللہ کی حاکمیت ہوگی اور لوگ اپنے لئے احکام اور طریقے خود وضع کر رہے ہوں گے یا وہ مراسم عبودیت اور اقداروپیمانے خود متعین کریں گے ۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں پر الوہیت اللہ کی ہوگی یا اللہ کی مخلوق میں سے کسی اور کی ہوگی ۔ غیر اللہ میں سے جو بھی اللہ کی حاکمیت کا دعویدار بن جائے گا بس وہ الہ تصور ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کا غاز ہی اس مضمون سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مراسم کی اجازت نہیں دی ہے اگر اللہ نے بحیرہ ‘ سائبہ وصیلہ اور حام جیسے مراسم کی منظوری نہیں دی ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر کس نے یہ نام نہاد جانور حرام کئے ہیں ۔ (آیت) ” مَا جَعَلَ اللّہُ مِن بَحِیْرَۃٍ وَلاَ سَآئِبَۃٍ وَلاَ وَصِیْلَۃٍ وَلاَ حَامٍ ۔ (5 : 103) ” اللہ نے بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام نامی جانوروں کو وہ حیثیت نہیں دی “۔ اور وہ لوگ جو اس شریعت اور قانون کی اطاعت کرتے ہیں وہ کفار ہیں ‘ یہ لوگ اس لئے کفار ہیں کہ یہ لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ کبھی وہ خود اپنی طرف سے ایک بات بناتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت ہے اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے معاملات کے اندر اللہ کی شریعت کا دخل قبول نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے نافرمان نہیں ہیں ۔ یہ سب کفر ہے ۔ (آیت) ” وَلَـکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ (103) ” مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بےعقل ہیں “۔ مشرکین عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور یہ دین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا ۔ یہ لوگ اللہ کی ذات کے منکر نہ تھے ‘ بلکہ وہ ذات باری کے وجود کا اعتراف کرتے تھے ۔ وہ اللہ کی قدرت کے بھی معترف تھے اور اس بات کا بھی اعتراف کرتے تھے کہ اللہ ہی متصرف فی الامور ہے ۔ لیکن ان اعتراضات کے باوجود وہ اپنے لئے قوانین خود بناتے تھے اور اس کے بعد وہ یہ یقین کرتے تھے کہ یہ قوانین اللہ کی جانب سے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کافر بن گئے اور یہ بات ان تمام لوگوں پر صادق آئے گی جو کسی بھی وقت جاہلیت میں زندگی بسر کرتے ہوں اور اپنے لئے قانون خود بناتے ہوں ۔ پھر وہ یہ گمان کرتے ہوں کہ یہ اللہ کی شریعت ہے۔ اللہ کی شریعت تو ہی ہے جو کتاب اللہ کے اندر موجود ہے ۔ جو اللہ نے اتاری اور نبی نے بیان کی ۔ وہ نہ مبہم ہے اور نہ پیچیدہ ہے ۔ اللہ کی شریعت اس بات کی متحمل نہیں ہے کہ اپنی جانب سے شریعت کے اوپر افتراء باندھے اور یہ زعم کرے کہ وہ شریعت ہے یا کتاب اللہ ہے جیسا کہ جاہلیت کے پیروکاروں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ خود ایک شریعت بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ایسے دعوے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کفر کے ساتھ متصف کرتا ہے اور کافر کہنے کے بعد ایسے لوگوں کو اللہ بےعقل بھی کہتا ہے اس لئے کہ وہ عقلمند ہوتے تو اللہ پر افتراء نہ باندھتے ۔ اگر وہ عقلمند ہوتے تو یہ گمان نہ کرتے کہ ان کا یہ افتراء چل سکے گا ۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے قول وفعل میں بھی تضاد ہے ۔ (آیت) ” وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ إِلَی مَا أَنزَلَ اللّہُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْْہِ آبَاء نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَلاَ یَہْتَدُونَ (104) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لئے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کئے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو ؟ “۔ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت نازل کی ہے وہ واضح ہے ۔ وہ قرآن کریم اور سنت رسول کی شکل میں ریکارڈ ہے ۔ یہی وہ معیار ہے ‘ اور یہی وہ یونٹ ہے جس سے اسلام اور جاہلیت کے راستے جدا ہوتے ہیں ۔ ایک ہے ایمان کا راستہ اور دوسرا ہے کفر کا راستہ ۔ اس جہاں میں یا تو صورت حال یہ ہوگی کہ لوگوں کو ما انزل اللہ کی طرف ‘ دعوت دی جائے گی اور وہ اس پر لبیک کہیں گے اور اس صورت میں وہ مسلمان کہلائیں گے یا وہ اس دعوت کا انکار کریں گے ‘ اس صورت میں وہ کافر ہوں گے اور ان دو صورتوں کے درمیان کوئی تیسری صورت نہیں ہے ۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ جب انہیں اللہ اور رسول اللہ کی طرف دعوت دی جائے تو یہ کہتے ہیں ہمارے لئے وہی راستہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ یہ لوگ اس طرح بندوں کے وضع کردہ قوانین کی اطاعت کرنے لگے اور انہوں نے ان قوانین کو ترک کردیا جو بندوں کے رب نے وضع کئے تھے انہوں نے آزادی کے اس نعرے کو ترک کردیا ‘ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ انسانوں کی غلامی کو ترک کر دو اور عقل وضمیر کی پیروی اختیار کرو چاہے یہ عقل وضمیر ان کی اپنی ہو یا آباؤاجداد کی ہو۔ اس کے بعد قرآن مجید ان کے موقف پر تعجب اور تاسف کا اظہار کرتا ہے ۔ (آیت) ” أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَلاَ یَہْتَدُونَ (104) ” اگرچہ ان کے آباؤ اجداد کسی چیز کو نہ سمجھتے ہوں اور نہ ہی راہ ہدایت پر ہوں “۔ اس استفہام کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ آباؤ اجداد کے اتباع سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ وہ عقلمند نہیں ہیں اور اگر عقلمند ہوں تو پھر آباؤ اجداد کی اطاعت جائز ہے اور اس صورت میں اللہ اور رسول اللہ کے احکام کو ترک کرنا جائز ہے ۔ یہ بات نہیں ہے بلکہ اس اظہار تعجب میں محض ان کی واقعی صورت حال کو بیان کرنا مطلوب ہے کہ اس سے قبل ان کے آباؤ اجداد نامعقول باتوں کو مانتے تھے ۔ اس لئے کہ ان کے آباء پھر اپنے آباء کو ماننے والے تھے اور ان آباء نے بھی خود اپنے لئے قواعد و ضوابط وضع کئے تھے اور شریعت الہی کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص اپنے آباء اور اجداد کے رسم و رواج کا اتباع کرتا ہے تو وہ یقینا بےعقل ہے اور رہا ہدایت پر نہیں ہے ۔ چاہے وہ اپنے آپ اور اپنے قوانین کے بارے میں جو چاہے کہے ۔ جبکہ اللہ بہت ہی علیم وخبیر ہے اور سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم بہرحال یہی ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے اور یہ اللہ کی شہادت ہے ۔ جو شخص اللہ کی شریعت سے حکم عدولی کرتا ہے وہ جاہل بھی ہے اور گمراہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ پر افتراء باندھنے والا اور کافر بھی ہے ۔ اہل کفر کے اقوال وافعال کے بیان کے اختتام کے بعد اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو ایمان لائے ہیں ۔ یہاں اہل کفر سے ان کی مکمل علیحدگی کردی جاتی ہے اور ان کو ممیز کردیا جاتا ہے ۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ تمہارے فرائض اور واجبات کیا ہیں اور یہ کہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ان کا موقف کیا ہے اور یہ کہ وہ اللہ کے سپرد ہیں اور ان کی زندگیاں اس فانی دنیا کے سپرد نہیں ہیں ۔ نہ ان کا مقصد ان دنیا کے مفادات کا حصول ہے ۔
Top