Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
شَهَادَةُ
: گواہی
بَيْنِكُمْ
: تمہارے درمیان
اِذَا
: جب
حَضَرَ
: آئے
اَحَدَكُمُ
: تم میں سے کسی کو
الْمَوْتُ
: موت
حِيْنَ
: وقت
الْوَصِيَّةِ
: وصیت
اثْنٰنِ
: دو
ذَوَا عَدْلٍ
: انصاف والے (معتبر)
مِّنْكُمْ
: تم سے
اَوْ
: یا
اٰخَرٰنِ
: اور دو
مِنْ
: سے
غَيْرِكُمْ
: تمہارے سوا
اِنْ
: اگر
اَنْتُمْ
: تم
ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ
: سفر کر رہے ہو زمین میں
فَاَصَابَتْكُمْ
: پھر تمہیں پہنچے
مُّصِيْبَةُ
: مصیبت
الْمَوْتِ
: موت
تَحْبِسُوْنَهُمَا
: ان دونوں کو روک لو
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
الصَّلٰوةِ
: نماز
فَيُقْسِمٰنِ
: دونوں قسم کھائیں
بِاللّٰهِ
: اللہ کی
اِنِ
: اگر
ارْتَبْتُمْ
: تمہیں شک ہو
لَا نَشْتَرِيْ
: ہم مول نہیں لیتے
بِهٖ
: اس کے عوض
ثَمَنًا
: کوئی قیمت
وَّلَوْ كَانَ
: خواہ ہوں
ذَا قُرْبٰى
: رشتہ دار
وَلَا نَكْتُمُ
: اور ہم نہیں چھپاتے
شَهَادَةَ
: گواہی
اللّٰهِ
: اللہ
اِنَّآ
: بیشک ہم
اِذًا
: اس وقت
لَّمِنَ
: سے
الْاٰثِمِيْنَ
: گنہ گاروں
اے لوگوجو ایمان لائے ہو ‘ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لئے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں ‘ یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر لوگوں میں سے سے دو گواہ لے لیے جائیں ۔ پھر اگر کوئی شک پڑجائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ” ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں ‘ اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں ‘ اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے ۔
(آیت) ” 106 تا 108۔ ان تین آیات میں جو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص یہ محسوس کرے کہ اس کی موت قریب ہے اور وہ اپنے اہل و عیال کے نام وصیت لکھنا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ دو عادل گواہ اہل اسلام میں سے بلائے ۔ اگر وہ مقیم ہو اور ان کو وہ وصیت دے دے تو جو وہ اس کے ورثاء کے سامنے رکھیں گے اور اگر یہ سفر میں ہو اسے مسلمان گواہ نہ مل رہے ہوں تو پھر یہ بات جائز ہے کہ وہ غیر مسلم دو افراد کو شاہد مقرر کرے ۔ اگر اہل اسلام یا اہل میت ان دو افراد کی شہادت بابت وصیت میں شک کریں کہ انہوں نے وصیت کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ درست نہیں ہے ‘ اور وہ جس چیز پر مامور کئے گئے تھے وہ ٹھیک طور پر ادا نہیں کر رہے تو ان گواہوں کو نماز کی ادائیگی کے بعد یا ان کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کے بعد یہ حلف دیا جائے گا کہ وہ یہ شہادت اپنی یا کسی اور کے کسی مفاد کے لئے نہیں دے رہے اگرچہ کوئی رشتہ دار ہو اور یہ کہ انہوں نے کوئی امر مخفی نہیں رکھا ہے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو یقینا گناہگار ہوں گے ۔ اس قسم کے حلف کے بعد ان کی شہادت ثابت اور نافذ تصور ہوگی ۔ اب اس حلف کے بعد اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور جھوٹی شہادت دی ہے اور امانت میں خیانت کی ہے تو وارثان میں سے دو افراد یہ حلف اٹھائیں گے کہ ان کی شہادت پہلے دو گواہوں کی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور یہ کہ وہ یہ حلف اٹھا کر زیادتی نہیں کر رہے ہیں ۔ اس ثبوت اور حلف کے بعد پہلے دو گواہوں کی شہادت ختم تصور ہوگی اور ان دوسرے گواہوں کی شہادت نافذ ہوگی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان انتظامات کے ذریعے کسی امر کی اچھی طرح چھان بین ہو سکے گی اور لوگ شہادت دے سکیں گے اور نیز لوگوں کو یہ خوف نہ رہے گا کہ ان کی شہادت کے خلاف اور شہادت قائم ہوگی ۔ (آیت) ” ذَلِکَ أَدْنَی أَن یَأْتُواْ بِالشَّہَادَۃِ عَلَی وَجْہِہَا أَوْ یَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَیْْمَانٌ بَعْدَ أَیْْمَانِہِمْ ۔ (5 : 108) ” اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے ۔ “ آخر میں تمام لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ خدا ترسی کا رویہ اختیار کریں اور اس بات کا احساس کریں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ اس سے ڈریں اور اس کے حکام کی اطاعت کریں ۔ اس لئے کہ اللہ ان لوگوں کو راست نہیں دکھاتا جو اس کے نافرمان ہیں اور نہ ان کی راہنمائی بھلائی کی طرف کرتا ہے ۔ (آیت) ” وَاتَّقُوا اللّہَ وَاسْمَعُواْ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ (108) ” اللہ سے ڈرو اور سنو اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے ۔ “ ان تین آیتوں کی شان نزول کے بارے میں امام قرطبی فرماتے ہیں : اس بارے میں کوئی اختلاف میرے علم کی حد تک نہیں ہے کہ یہ آیات تمیم داری اور عدی ابن بداء مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ بخاری اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ تمیم داری اور عدی ابن بداء مکہ کو آتے جاتے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان جو بنی سہم قبیلے کا تھا سفر پر نکلا ۔ وہ ایسی سرزمین میں فوت ہوا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا ۔ اس نے ان دونوں کو وصیت کی اور انہوں نے اس کا ترکہ اس نوجوان کے وارثوں تک پہنچایا ۔ انہوں نے ایک چاندی کا جام روک لیا جسے سونے سے مزین کیا گیا تھا ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ نے قسم دی کہ نہ تو انہوں نے اسے چھپایا ہے اور نہ اس کو اس کے بارے میں کوئی علم ہے ۔ اس کے بعد یہ جام مکہ میں پایا گیا تو جن لوگوں سے ملا انہوں نے کہا ہم نے تمیم اور عدی سے خریدا ہے ۔ اب سہمی متوفی نوجوان کے وارث آئے ۔ انہوں نے یہ حلف اٹھایا کہ یہی جام سہمی کی ملکیت تھا ۔ اور یہ کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے اور یہ کہ ہم کوئی زیادتی نہیں کر رہے ۔ اس کے بعد سہمیوں کو جام دے دیا گیا ۔ یہ آیات اسی بارے میں نازل ہوئیں ۔ (الفاظ دارقطنی کے ہیں) یہ بات ظاہر ہے کہ یہ آیات جس معاشرے کی اصلاح کے لئے نازل ہوئیں اس معاشرے کے حالات کی چھاپ ان تدابیر کے اندر موجود ہے اور ان انتظامات کی نوعیت بھی ایسی ہو سکتی ہے ۔ اس خاص انداز شہادت اور خاص طریقہ ثبوت پر لازما اس وقت کے معاشرتی حالات اثر انداز ہوئے ہیں ۔ خصوصا نماز کے بعد حلف دینا ۔ کیونکہ نماز کے بعد انسان کا دینی شعور اور وجدان تازہ ہوتا ہے ۔ انسان اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ وہ بعد نماز مجمع عام میں حالف لے رہا ہے اور اگر یہ بات جھوٹی نکل جائے تو اسے بہت ہی بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ ان انتظامات کے اندر عربوں کے معاشرتی حالات کی جھلک موجود ہے اور اس وقت ایسے ہی اقدامات کی ضرورت تھی ۔ آج کل کے جدید معاشروں میں اثبات کے جدید وسائل بھی موجود ہیں اور انتظامات ثبوت کی نئی شکلیں بھی موجود ہیں مثلا کتابت ‘ رجسٹری ‘ امانت اور لاکرز ۔ سوال یہ ہے کہ آیا آج کے جدید معاشروں میں یہ انتظامات قابل عمل نہیں رہے ؟ ہم بعض اوقات کسی متعین معاشرے کو ذہن میں رکھ کر بات کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ فلاں فلاں انتظامات اب اس دور جدید میں قابل عمل نہیں رہے ہیں اب ان کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ان معاشروں کے بقیہ آثار ہیں جن کا دور گزر گیا ہے کیونکہ دور جدید کے وسائل بہت ہی ترقی کر گئے ہیں ۔ اکثر لوگوں کو ایسا دھوکہ ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ دین تمام انسانیت کے لئے آیا ہے ۔ ہر دور کے لئے آیا ہے اور آج کے اس جدید دور میں بھی انسانیت کی ایک بڑی تعداد اور آبادی بالکل ابتدائی اور پسماندہ حالت میں ہے ۔ وہ پسماندگی میں کانوں تک ڈوبی ہوئی ہے ۔ انسانیت کے اس بڑے حصے کو ایسے انتظامات بھی موجود ہیں جو ایسی پسماندہ سوسائٹیوں کے اندر بھی چل سکتے ہیں ۔ اور جوں جوں یہ سوسائٹیاں ترقی کرتی جاتی ہیں ‘ اسلام ان کی ترقی یافتہ ضروریات پوری کرتا ہے ۔ اسلامی شریعت کے اندر امانت اور ثبوت کے لئے ضوابط موجود ہیں اور اسلامی شریعت پھر ان کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔ یہ اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کا ایک معجزانہ کمال ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے یہ شریعت من جانب اللہ ہے اور اسے اللہ جل شانہ ‘ نے انسانیت کے لئے نازل فرمایا ہے ۔ نیز ہم اس بات کے سمجھنے میں بھی دھوکہ کھاتے ہیں کہ ہر ترقی پذیر معاشرے کی ضروریات اسلامی نظام میں پوری ہوتی ہیں ۔ اسلامی نظام حیات ہر معاشرے کے لئے اس کے حسب حالات انتظامات کرتا ہے جس میں جامعیت بھی ہوتی ہے اور لوگوں کے لئے یسر اور سہولت بھی ہوتی ہے ۔ اس طرح یہ دین ہر معاشرے کے حالت کے مطابق وسائل اور طریقے اختیار کرتا ہے ۔ پسماندگی میں بھی اور ترقی یافتہ صحراء اور جنگل میں بھی ‘ اس لئے کہ یہ دین تمام انسانوں کا دین ہے ۔ یہ ہر علاقے اور ہر زمانے کا دین ہے اور یہ بات بھی اس دین کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے ۔ اور ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم انسان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رب الناس کے مقابلے میں بھی لوگوں کے مفادات کو زیادہ سمجھتے ہیں اور جب ہم عملی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو ہمیں سخت شرمندگی ہوتی ہے ۔ لیکن واقعات و حوادث سے دو چار ہونے سے پہلے ہی ہمارے لئے یہ سمجھنا اچھا نہیں ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کے خالق کا احترام کریں اور بارگاہ الہ میں ایک بندے اور ایک غلام کی طرح بات کریں ۔ کاش کہ ہم نصیحت حاصل کریں ۔ کاش کہ ہم اپنی کوتاہ دامنی کا اعتراف کریں۔ درس نمبر 54 ایک نظر میں : یہ سبق اگرچہ نسبتا طویل ہے لیکن اس کا تعلق بھی نظریاتی اصلاح کے مضمون کے ساتھ ہے ۔ نصاری کے عقائد میں جو انحرافات پیدا ہوگئے تھے ان کی اصلاح مقصود ہے ۔ یہ انحرافات اس قدر دور رس تھے کہ ان کی وجہ سے نصاری اپنے بنیادی نظریات میں سماوی دین کے اصولوں سے منحرف ہوگئے تھے ۔ اور وہ اس عقیدہ توحید ہی سے نکل گئے تھے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اور ان سے پہلے آنے والے رسولوں نے دی تھی ۔ انہوں نے شرک کے وہ رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے تھے جن کا کوئی تعلق دین اسلام سے نہ تھا ۔ چناچہ اس سبق کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کے دین میں اللہ کی الوہیت اور بندوں کی عبودیت کا صحیح مفہوم بٹھایا جائے یہ اصلاح اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک عظیم جلسے میں جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام رسول اور تمام انسان موجود ہیں ‘ اس میں خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اعلان کرتے ہیں کہ میں نے ہر گز یہ تعلیم نہ دی تھی کہ لوگ مجھے میری والدہ اور دوسرے لوگوں کو الہ تسلیم کریں اور یہ کہ عیسائیوں کے مزعومات میں سے کسی بات کی تعلیم انہوں نے نہیں دی ہے ۔ قرآن کریم اس منظر کی خوب تصویر کشی کرتا ہے ‘ ان مناظر قیامت میں سے ایک ہے جسے قرآن کریم زندہ وتابندہ انداز میں پیش کرتا ہے ۔ یہ نہایت ہی موثر چلتا پھرتا منظر ہے ۔ ‘ دلوں کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ‘ جس کے اثرات کا عالم یہ ہے کہ انسان کا وجود کانپ اٹھتا ہے ۔ انسان اس طرح متحرک ہے ذرا قرآن کے الفاظ میں غور کیجئے ۔ (آیت) ” یَوْمَ یَجْمَعُ اللّہُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (109) ” جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ‘ آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ “ اللہ تعالیٰ ان تمام رسولوں کو جمع کرے گا جو مختلف زمانوں میں مبعوث ہوئے تھے ، یکے بعد دیگرے آئے تھے ‘ یا ایک ہی دور میں تھے مگر ان کا دائرہ کا علیحدہ تھا ۔ ہر ایک اپنے زون میں کام کر رہا تھا ۔ یا ہر شخص کسی قوم کے لئے مبعوث ہوا تھا اور اپنی قوم ہی میں کام کر رہا تھا ۔ ان سب کی دعوت ایک ہی تھی ‘ اگرچہ زمان ‘ مکان اور اقوام علیحدہ تھیں ۔ یہاں تک کہ خاتم النبین ﷺ آگئے ۔ انہوں نے تمام جہانوں کے لئے مکمل آخری دعوت دے دی جو ہر مکان ‘ ہر زمان اور ہر قوم اور ملت کے لئے ہے ‘ ہر رنگ ونسل کے لئے ہے ۔ یہ سب رسول ‘ جو مختلف اقوام وملل میں مبعوث ہوئے مختلف زمانوں میں آئے ‘ اب ان کا بھیجنے والا انہیں ایک ہی جگہ جمع کرکے ان تمام سے ایک ہی سوال کر رہا ہے ۔ یہ سب لوگ دنیا میں انسانیت کے نمائندے ہیں اور ہر ایک کو ایک زون کی رسالت دی گئی ہے ۔ مختلف ادوار اور مقامات کے لئے ۔ اب یہ نمائندے سب کے سب رب البشریت کے سامنے حاضر ہیں اور ایک عظیم اجتماع کا عظیم منظر ہے ۔ اور یہ منظر زندگی کے ساتھ ہر سو حرکت کرتا نظر آتا ہے ۔ (آیت) ” یَوْمَ یَجْمَعُ اللّہُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۔ (5 : 109) ” جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ۔ “ سوال یہ تھا ماذا اجبتم (تمہیں کیا جواب دیا گیا) یہ رسول انسان اور بشر تھے ۔ ان کا علم حضوری تھا ۔ اور وہ پوشیدہ چیزوں کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے ۔ انہوں نے اپنی اقوام کو راہ ہدایت کی طرف بلایا ۔ ان میں سے جس نے دعوت کو قبول کیا ۔ جس نے منہ پھیرا ‘ پھیرلیا ۔ اگرچہ رسول منکرین کے جواب کے بارے میں جانتے تھے کہ انہوں نے انکار کیا ہے لیکن ماننے والوں کی حقیقت سے باخبر نہ تھے کہ انہوں نے دل سے مانا ہے یا نہیں ۔ وہ تو صرف ظاہری بات پہ حکم لگا سکتے ہیں ۔ رہی پوشیدہ بات تو اس کا علم انہیں نہیں ہے اور اب وہ جناب باری میں حاضر ہیں اور وہ سب جاننے والوں سے زیادہ جاننے والا ہے اور وہ اللہ سے اس قدر ڈرتے ہیں جس قدر کوئی کسی سے ڈر سکتا ہے ۔ نیز یہ رسل باری تعالیٰ کی معرفت میں بھی بہت ہی اونچا مقام رکھتے ہیں اور وہ اس بات سے حیا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر اپنے علم کا اظہار کریں جو علم وخبیر ہے ۔ یہ ایک عظیم اجتماع میں ایک عظیم مسئولیت کا دن ہے ۔ عالم بالا کے دربار میں ‘ سب لوگوں کے سامنے کھلے دربار میں اور یہ ایک ایسی جواب طلبی ہے جس کا مقصد یہ بھی ہے کہ سب کے سامنے جواب طلب کیا جائے اور ان لوگوں کے سامنے یہ سوال و جواب ہو جو دنیا میں رسولوں کی تکذیب کرتے تھے تاکہ علی الاعلان یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ رسول از خود نہ آئے تھے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اللہ کا دین لے کر آئے تھے ۔ یہ دکھانا بھی مطلوب تھا کہ یہ کام وہ ذمہ داری سے کرتے رہے تھے محض شوق کے طور پر نہ کرتے تھے ۔ اب دیکھئے وہ اپنی مسئولیت کے مطابق جواب دے رہے ہیں ۔ اپنی ڈیوٹی ‘ فریضہ رسالت ‘ اپنی قوم کی بابت جواب دے رہے تھے جنہوں نے ان کی تکذیب کی تھی ۔ رہے رسول تو وہ اعلان کر رہے ہیں کہ سچا علم صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اس لئے ان کے پاس جو تھوڑی سی معلومات ہیں ان کا اظہار وہ علام الغیوب خدا کے سامنے نہیں کرنا چاہتے یہ عدم واقفیت کا اظہار وہ محض ادب اور حیاء کی وجہ سے کر رہے ہیں اور اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (آیت) ” قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (109) ” تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ “ رہے تمام دوسرے رسول ‘ جن کو بعض لوگوں نے مانا اور بعض نے ان کی تکذیب کی ‘ ان کی جانب سے سوال کا اصولی جواب ہی قبول کرلیا گیا ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ صحیح علم تو اللہ کے پاس ہے جو علام الغیوب ہے ۔ انہوں نے اپنا اور اپنی قوم کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ۔ اس منظر میں ان رسولوں سے مزید کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا ۔ مزید ضمنی سوال صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوتا ہے ۔ ان سے یہ مزید سوال اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں ‘ ان کے بعد ان کی قوم سخت فتنے میں پڑگئی ، ان کے بارے میں فضا کے اندر پیچیدگی پیدا ہوئی اور ان کی ذات کے بارے میں لوگ ادہام اور خرافات کا شکار ہوگئے ، ان کی ذات ‘ ان کی صفات ‘ ان کی ولادت اور ان کی پرورش کے بارے میں ان کی قوم نے عجیب و غریب نظریات گھڑ لیے ۔ اب ان سے ان لوگوں کے سامنے پوچھا جاتا ہے ‘ جو انہیں الہ سمجھتے تھے ۔ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی ذات اور ان کی والدہ کے اردگرد انہوں نے غلط افکار کے ہالے قائم کئے تھے ، ان کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ دیکھو تم پر اور تمہاری والدہ پر میں نے کس قدر انعامات اور اکرامات کئے ۔ یہ کہ تمہیں بہت سے معجزات عطا کئے کہ لوگ تم پر ایمان لے آئیں ۔ بعض لوگوں نے ان کی سخت تکذیب کی ۔ بعض لوگ ان آیات ومعجزات کو دیکھ کر سخت فتنے میں پڑگئے اور انہیں الہ بنا دیا ۔ حالانکہ یہ آیات ومعجزات تو اللہ کے عطا کردہ تھے اور جن باتوں کا ظہور ان کے ہاتھوں ہوا تھا وہ اللہ کی تائید ونصرت سے ہوا تھا ۔
Top