Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
اے لوگوجو ایمان لائے ہو ‘ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لئے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں ‘ یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر لوگوں میں سے سے دو گواہ لے لیے جائیں ۔ پھر اگر کوئی شک پڑجائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ” ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں ‘ اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں ‘ اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے ۔
(آیت) ” 106 تا 108۔ ان تین آیات میں جو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص یہ محسوس کرے کہ اس کی موت قریب ہے اور وہ اپنے اہل و عیال کے نام وصیت لکھنا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ دو عادل گواہ اہل اسلام میں سے بلائے ۔ اگر وہ مقیم ہو اور ان کو وہ وصیت دے دے تو جو وہ اس کے ورثاء کے سامنے رکھیں گے اور اگر یہ سفر میں ہو اسے مسلمان گواہ نہ مل رہے ہوں تو پھر یہ بات جائز ہے کہ وہ غیر مسلم دو افراد کو شاہد مقرر کرے ۔ اگر اہل اسلام یا اہل میت ان دو افراد کی شہادت بابت وصیت میں شک کریں کہ انہوں نے وصیت کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ درست نہیں ہے ‘ اور وہ جس چیز پر مامور کئے گئے تھے وہ ٹھیک طور پر ادا نہیں کر رہے تو ان گواہوں کو نماز کی ادائیگی کے بعد یا ان کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کے بعد یہ حلف دیا جائے گا کہ وہ یہ شہادت اپنی یا کسی اور کے کسی مفاد کے لئے نہیں دے رہے اگرچہ کوئی رشتہ دار ہو اور یہ کہ انہوں نے کوئی امر مخفی نہیں رکھا ہے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو یقینا گناہگار ہوں گے ۔ اس قسم کے حلف کے بعد ان کی شہادت ثابت اور نافذ تصور ہوگی ۔ اب اس حلف کے بعد اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور جھوٹی شہادت دی ہے اور امانت میں خیانت کی ہے تو وارثان میں سے دو افراد یہ حلف اٹھائیں گے کہ ان کی شہادت پہلے دو گواہوں کی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور یہ کہ وہ یہ حلف اٹھا کر زیادتی نہیں کر رہے ہیں ۔ اس ثبوت اور حلف کے بعد پہلے دو گواہوں کی شہادت ختم تصور ہوگی اور ان دوسرے گواہوں کی شہادت نافذ ہوگی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان انتظامات کے ذریعے کسی امر کی اچھی طرح چھان بین ہو سکے گی اور لوگ شہادت دے سکیں گے اور نیز لوگوں کو یہ خوف نہ رہے گا کہ ان کی شہادت کے خلاف اور شہادت قائم ہوگی ۔ (آیت) ” ذَلِکَ أَدْنَی أَن یَأْتُواْ بِالشَّہَادَۃِ عَلَی وَجْہِہَا أَوْ یَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَیْْمَانٌ بَعْدَ أَیْْمَانِہِمْ ۔ (5 : 108) ” اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے ۔ “ آخر میں تمام لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ خدا ترسی کا رویہ اختیار کریں اور اس بات کا احساس کریں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ اس سے ڈریں اور اس کے حکام کی اطاعت کریں ۔ اس لئے کہ اللہ ان لوگوں کو راست نہیں دکھاتا جو اس کے نافرمان ہیں اور نہ ان کی راہنمائی بھلائی کی طرف کرتا ہے ۔ (آیت) ” وَاتَّقُوا اللّہَ وَاسْمَعُواْ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ (108) ” اللہ سے ڈرو اور سنو اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے ۔ “ ان تین آیتوں کی شان نزول کے بارے میں امام قرطبی فرماتے ہیں : اس بارے میں کوئی اختلاف میرے علم کی حد تک نہیں ہے کہ یہ آیات تمیم داری اور عدی ابن بداء مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ بخاری اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ تمیم داری اور عدی ابن بداء مکہ کو آتے جاتے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان جو بنی سہم قبیلے کا تھا سفر پر نکلا ۔ وہ ایسی سرزمین میں فوت ہوا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا ۔ اس نے ان دونوں کو وصیت کی اور انہوں نے اس کا ترکہ اس نوجوان کے وارثوں تک پہنچایا ۔ انہوں نے ایک چاندی کا جام روک لیا جسے سونے سے مزین کیا گیا تھا ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ نے قسم دی کہ نہ تو انہوں نے اسے چھپایا ہے اور نہ اس کو اس کے بارے میں کوئی علم ہے ۔ اس کے بعد یہ جام مکہ میں پایا گیا تو جن لوگوں سے ملا انہوں نے کہا ہم نے تمیم اور عدی سے خریدا ہے ۔ اب سہمی متوفی نوجوان کے وارث آئے ۔ انہوں نے یہ حلف اٹھایا کہ یہی جام سہمی کی ملکیت تھا ۔ اور یہ کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے اور یہ کہ ہم کوئی زیادتی نہیں کر رہے ۔ اس کے بعد سہمیوں کو جام دے دیا گیا ۔ یہ آیات اسی بارے میں نازل ہوئیں ۔ (الفاظ دارقطنی کے ہیں) یہ بات ظاہر ہے کہ یہ آیات جس معاشرے کی اصلاح کے لئے نازل ہوئیں اس معاشرے کے حالات کی چھاپ ان تدابیر کے اندر موجود ہے اور ان انتظامات کی نوعیت بھی ایسی ہو سکتی ہے ۔ اس خاص انداز شہادت اور خاص طریقہ ثبوت پر لازما اس وقت کے معاشرتی حالات اثر انداز ہوئے ہیں ۔ خصوصا نماز کے بعد حلف دینا ۔ کیونکہ نماز کے بعد انسان کا دینی شعور اور وجدان تازہ ہوتا ہے ۔ انسان اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ وہ بعد نماز مجمع عام میں حالف لے رہا ہے اور اگر یہ بات جھوٹی نکل جائے تو اسے بہت ہی بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ ان انتظامات کے اندر عربوں کے معاشرتی حالات کی جھلک موجود ہے اور اس وقت ایسے ہی اقدامات کی ضرورت تھی ۔ آج کل کے جدید معاشروں میں اثبات کے جدید وسائل بھی موجود ہیں اور انتظامات ثبوت کی نئی شکلیں بھی موجود ہیں مثلا کتابت ‘ رجسٹری ‘ امانت اور لاکرز ۔ سوال یہ ہے کہ آیا آج کے جدید معاشروں میں یہ انتظامات قابل عمل نہیں رہے ؟ ہم بعض اوقات کسی متعین معاشرے کو ذہن میں رکھ کر بات کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ فلاں فلاں انتظامات اب اس دور جدید میں قابل عمل نہیں رہے ہیں اب ان کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ان معاشروں کے بقیہ آثار ہیں جن کا دور گزر گیا ہے کیونکہ دور جدید کے وسائل بہت ہی ترقی کر گئے ہیں ۔ اکثر لوگوں کو ایسا دھوکہ ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ دین تمام انسانیت کے لئے آیا ہے ۔ ہر دور کے لئے آیا ہے اور آج کے اس جدید دور میں بھی انسانیت کی ایک بڑی تعداد اور آبادی بالکل ابتدائی اور پسماندہ حالت میں ہے ۔ وہ پسماندگی میں کانوں تک ڈوبی ہوئی ہے ۔ انسانیت کے اس بڑے حصے کو ایسے انتظامات بھی موجود ہیں جو ایسی پسماندہ سوسائٹیوں کے اندر بھی چل سکتے ہیں ۔ اور جوں جوں یہ سوسائٹیاں ترقی کرتی جاتی ہیں ‘ اسلام ان کی ترقی یافتہ ضروریات پوری کرتا ہے ۔ اسلامی شریعت کے اندر امانت اور ثبوت کے لئے ضوابط موجود ہیں اور اسلامی شریعت پھر ان کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔ یہ اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کا ایک معجزانہ کمال ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے یہ شریعت من جانب اللہ ہے اور اسے اللہ جل شانہ ‘ نے انسانیت کے لئے نازل فرمایا ہے ۔ نیز ہم اس بات کے سمجھنے میں بھی دھوکہ کھاتے ہیں کہ ہر ترقی پذیر معاشرے کی ضروریات اسلامی نظام میں پوری ہوتی ہیں ۔ اسلامی نظام حیات ہر معاشرے کے لئے اس کے حسب حالات انتظامات کرتا ہے جس میں جامعیت بھی ہوتی ہے اور لوگوں کے لئے یسر اور سہولت بھی ہوتی ہے ۔ اس طرح یہ دین ہر معاشرے کے حالت کے مطابق وسائل اور طریقے اختیار کرتا ہے ۔ پسماندگی میں بھی اور ترقی یافتہ صحراء اور جنگل میں بھی ‘ اس لئے کہ یہ دین تمام انسانوں کا دین ہے ۔ یہ ہر علاقے اور ہر زمانے کا دین ہے اور یہ بات بھی اس دین کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے ۔ اور ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم انسان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رب الناس کے مقابلے میں بھی لوگوں کے مفادات کو زیادہ سمجھتے ہیں اور جب ہم عملی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو ہمیں سخت شرمندگی ہوتی ہے ۔ لیکن واقعات و حوادث سے دو چار ہونے سے پہلے ہی ہمارے لئے یہ سمجھنا اچھا نہیں ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کے خالق کا احترام کریں اور بارگاہ الہ میں ایک بندے اور ایک غلام کی طرح بات کریں ۔ کاش کہ ہم نصیحت حاصل کریں ۔ کاش کہ ہم اپنی کوتاہ دامنی کا اعتراف کریں۔ درس نمبر 54 ایک نظر میں : یہ سبق اگرچہ نسبتا طویل ہے لیکن اس کا تعلق بھی نظریاتی اصلاح کے مضمون کے ساتھ ہے ۔ نصاری کے عقائد میں جو انحرافات پیدا ہوگئے تھے ان کی اصلاح مقصود ہے ۔ یہ انحرافات اس قدر دور رس تھے کہ ان کی وجہ سے نصاری اپنے بنیادی نظریات میں سماوی دین کے اصولوں سے منحرف ہوگئے تھے ۔ اور وہ اس عقیدہ توحید ہی سے نکل گئے تھے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اور ان سے پہلے آنے والے رسولوں نے دی تھی ۔ انہوں نے شرک کے وہ رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے تھے جن کا کوئی تعلق دین اسلام سے نہ تھا ۔ چناچہ اس سبق کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کے دین میں اللہ کی الوہیت اور بندوں کی عبودیت کا صحیح مفہوم بٹھایا جائے یہ اصلاح اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک عظیم جلسے میں جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام رسول اور تمام انسان موجود ہیں ‘ اس میں خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اعلان کرتے ہیں کہ میں نے ہر گز یہ تعلیم نہ دی تھی کہ لوگ مجھے میری والدہ اور دوسرے لوگوں کو الہ تسلیم کریں اور یہ کہ عیسائیوں کے مزعومات میں سے کسی بات کی تعلیم انہوں نے نہیں دی ہے ۔ قرآن کریم اس منظر کی خوب تصویر کشی کرتا ہے ‘ ان مناظر قیامت میں سے ایک ہے جسے قرآن کریم زندہ وتابندہ انداز میں پیش کرتا ہے ۔ یہ نہایت ہی موثر چلتا پھرتا منظر ہے ۔ ‘ دلوں کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ‘ جس کے اثرات کا عالم یہ ہے کہ انسان کا وجود کانپ اٹھتا ہے ۔ انسان اس طرح متحرک ہے ذرا قرآن کے الفاظ میں غور کیجئے ۔ (آیت) ” یَوْمَ یَجْمَعُ اللّہُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (109) ” جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ‘ آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ “ اللہ تعالیٰ ان تمام رسولوں کو جمع کرے گا جو مختلف زمانوں میں مبعوث ہوئے تھے ، یکے بعد دیگرے آئے تھے ‘ یا ایک ہی دور میں تھے مگر ان کا دائرہ کا علیحدہ تھا ۔ ہر ایک اپنے زون میں کام کر رہا تھا ۔ یا ہر شخص کسی قوم کے لئے مبعوث ہوا تھا اور اپنی قوم ہی میں کام کر رہا تھا ۔ ان سب کی دعوت ایک ہی تھی ‘ اگرچہ زمان ‘ مکان اور اقوام علیحدہ تھیں ۔ یہاں تک کہ خاتم النبین ﷺ آگئے ۔ انہوں نے تمام جہانوں کے لئے مکمل آخری دعوت دے دی جو ہر مکان ‘ ہر زمان اور ہر قوم اور ملت کے لئے ہے ‘ ہر رنگ ونسل کے لئے ہے ۔ یہ سب رسول ‘ جو مختلف اقوام وملل میں مبعوث ہوئے مختلف زمانوں میں آئے ‘ اب ان کا بھیجنے والا انہیں ایک ہی جگہ جمع کرکے ان تمام سے ایک ہی سوال کر رہا ہے ۔ یہ سب لوگ دنیا میں انسانیت کے نمائندے ہیں اور ہر ایک کو ایک زون کی رسالت دی گئی ہے ۔ مختلف ادوار اور مقامات کے لئے ۔ اب یہ نمائندے سب کے سب رب البشریت کے سامنے حاضر ہیں اور ایک عظیم اجتماع کا عظیم منظر ہے ۔ اور یہ منظر زندگی کے ساتھ ہر سو حرکت کرتا نظر آتا ہے ۔ (آیت) ” یَوْمَ یَجْمَعُ اللّہُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۔ (5 : 109) ” جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کرکے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ۔ “ سوال یہ تھا ماذا اجبتم (تمہیں کیا جواب دیا گیا) یہ رسول انسان اور بشر تھے ۔ ان کا علم حضوری تھا ۔ اور وہ پوشیدہ چیزوں کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے ۔ انہوں نے اپنی اقوام کو راہ ہدایت کی طرف بلایا ۔ ان میں سے جس نے دعوت کو قبول کیا ۔ جس نے منہ پھیرا ‘ پھیرلیا ۔ اگرچہ رسول منکرین کے جواب کے بارے میں جانتے تھے کہ انہوں نے انکار کیا ہے لیکن ماننے والوں کی حقیقت سے باخبر نہ تھے کہ انہوں نے دل سے مانا ہے یا نہیں ۔ وہ تو صرف ظاہری بات پہ حکم لگا سکتے ہیں ۔ رہی پوشیدہ بات تو اس کا علم انہیں نہیں ہے اور اب وہ جناب باری میں حاضر ہیں اور وہ سب جاننے والوں سے زیادہ جاننے والا ہے اور وہ اللہ سے اس قدر ڈرتے ہیں جس قدر کوئی کسی سے ڈر سکتا ہے ۔ نیز یہ رسل باری تعالیٰ کی معرفت میں بھی بہت ہی اونچا مقام رکھتے ہیں اور وہ اس بات سے حیا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر اپنے علم کا اظہار کریں جو علم وخبیر ہے ۔ یہ ایک عظیم اجتماع میں ایک عظیم مسئولیت کا دن ہے ۔ عالم بالا کے دربار میں ‘ سب لوگوں کے سامنے کھلے دربار میں اور یہ ایک ایسی جواب طلبی ہے جس کا مقصد یہ بھی ہے کہ سب کے سامنے جواب طلب کیا جائے اور ان لوگوں کے سامنے یہ سوال و جواب ہو جو دنیا میں رسولوں کی تکذیب کرتے تھے تاکہ علی الاعلان یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ رسول از خود نہ آئے تھے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اللہ کا دین لے کر آئے تھے ۔ یہ دکھانا بھی مطلوب تھا کہ یہ کام وہ ذمہ داری سے کرتے رہے تھے محض شوق کے طور پر نہ کرتے تھے ۔ اب دیکھئے وہ اپنی مسئولیت کے مطابق جواب دے رہے ہیں ۔ اپنی ڈیوٹی ‘ فریضہ رسالت ‘ اپنی قوم کی بابت جواب دے رہے تھے جنہوں نے ان کی تکذیب کی تھی ۔ رہے رسول تو وہ اعلان کر رہے ہیں کہ سچا علم صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اس لئے ان کے پاس جو تھوڑی سی معلومات ہیں ان کا اظہار وہ علام الغیوب خدا کے سامنے نہیں کرنا چاہتے یہ عدم واقفیت کا اظہار وہ محض ادب اور حیاء کی وجہ سے کر رہے ہیں اور اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (آیت) ” قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (109) ” تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ “ رہے تمام دوسرے رسول ‘ جن کو بعض لوگوں نے مانا اور بعض نے ان کی تکذیب کی ‘ ان کی جانب سے سوال کا اصولی جواب ہی قبول کرلیا گیا ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ صحیح علم تو اللہ کے پاس ہے جو علام الغیوب ہے ۔ انہوں نے اپنا اور اپنی قوم کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ۔ اس منظر میں ان رسولوں سے مزید کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا ۔ مزید ضمنی سوال صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ہوتا ہے ۔ ان سے یہ مزید سوال اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں ‘ ان کے بعد ان کی قوم سخت فتنے میں پڑگئی ، ان کے بارے میں فضا کے اندر پیچیدگی پیدا ہوئی اور ان کی ذات کے بارے میں لوگ ادہام اور خرافات کا شکار ہوگئے ، ان کی ذات ‘ ان کی صفات ‘ ان کی ولادت اور ان کی پرورش کے بارے میں ان کی قوم نے عجیب و غریب نظریات گھڑ لیے ۔ اب ان سے ان لوگوں کے سامنے پوچھا جاتا ہے ‘ جو انہیں الہ سمجھتے تھے ۔ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی ذات اور ان کی والدہ کے اردگرد انہوں نے غلط افکار کے ہالے قائم کئے تھے ، ان کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ دیکھو تم پر اور تمہاری والدہ پر میں نے کس قدر انعامات اور اکرامات کئے ۔ یہ کہ تمہیں بہت سے معجزات عطا کئے کہ لوگ تم پر ایمان لے آئیں ۔ بعض لوگوں نے ان کی سخت تکذیب کی ۔ بعض لوگ ان آیات ومعجزات کو دیکھ کر سخت فتنے میں پڑگئے اور انہیں الہ بنا دیا ۔ حالانکہ یہ آیات ومعجزات تو اللہ کے عطا کردہ تھے اور جن باتوں کا ظہور ان کے ہاتھوں ہوا تھا وہ اللہ کی تائید ونصرت سے ہوا تھا ۔
Top