Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ
: جب کہا
الْحَوَارِيُّوْنَ
: حواری (جمع)
يٰعِيْسَى
: اے عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
هَلْ
: کیا
يَسْتَطِيْعُ
: کرسکتا ہے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ
: کہ وہ
يُّنَزِّلَ
: اتارے
عَلَيْنَا
: ہم پر
مَآئِدَةً
: خوان
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
قَالَ
: اس نے کہا
اتَّقُوا اللّٰهَ
: اللہ سے ڈرو
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
حواریوں کا سلسلے میں) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ” اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ؟ “ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔
(آیت) ” نمبر 112 تا 115۔ اس گفتگو سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا مزاج کیسا تھا اور ان میں سے مخلص لوگ کس مزاج کے تھے یعنی آپ کے حواری ۔ ان حواریوں اور ہمارے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ اجمعین کے درمیان بہت بڑا فرق تھا ۔ ان حواریوں کے دلوں میں اللہ نے بطور الہام ایمان کا القاء کردیا تھا ۔ وہ ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ایمان پر گواہ ٹھہرایا ۔ ان حقائق کے ساتھ ساتھ اب دیکھئے کہ اس الہام اور معجزات کے دیکھے ہوئے وہ پھر ایک نئے معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ جان لیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں اور اب وہ عیسیٰ کے بعد اس دعوت کو پھیلائیں گے ۔ اصحاب محمد ﷺ کا حال یہ ہے کہ اسلام لانے کے بعد وہ آپ سے کوئی ایک معجزہ بھی طلب نہیں کرتے ۔ جونہی ان کے دلوں میں ایمان داخل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کی اور اس تصدیق پر انہوں نے کسی برہان و دلیل کا مطالبہ نہیں کیا انہوں نے حقانیت رسول کی شہادت صرف قرآن کو پڑھ کر دے دی ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کے حورایوں کے درمیان یہ ایک عظیم فرق ہے ۔ وہ ایک سطح پر ہیں اور یہ دوسری سطح پر ہیں ۔ لیکن یہ بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی مسلمان ہیں ۔ یہ بھی اللہ کے ہاں برگزیدہ ہیں اور وہ بھی برگزیدہ ہیں لیکن جس طرح اللہ نے چاہ دونوں کی سطح میں بہت ہی فرق رکھا بہت بڑا فرق ۔ ” کھانے کے اس خوان کا ذکر قرآن میں ہوا ہے لیکن نصاری کے لٹریچر میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ نہ ان اناجیل میں اس کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لکھی گئیں اگرچہ بہت بعد میں لکھی گئیں ۔ اس قدر طویل عرصے میں نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے اندر واقعات کی صحیح رپورٹنگ کی گئی ہوگی ۔ نیز ان اناجیل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض علماء نے ان روایات کو نقل کیا ہے اور ان میں انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت کے واقعات نقل کئے ہیں ۔ اس لئے یہ روایات اس کلام پر مشتمل نہیں جو اللہ نے اتارا تھا اور اس کا نام انجیل رکھا تھا ۔ البتہ ان اناجیل میں اس خوان کے قصے کو دوسرے انداز میں نقل کیا ہے ” متی کی انجیل کے اصحاح 15 کے آخر میں آتا ہے ۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو بلایا اور کہا مجھے سب کے بارے میں اندیشہ ہے کیونکہ ان کے لئے صرف تین دن ہیں جو میرے ساتھ چلیں گے اور ان کے پاس خوراک بھی نہیں ہے ۔ اور میں یہ بھی نہیں کرسکتا کہ انہیں روزے کی حالت میں واپس کروں کیونکہ راستے میں ان کے پریشانی ہوگی ۔ ان میں سے اس کے تلامذہ نے کہا ہماری تعداد زیادہ ہے اور ہم کہاں سے کھانا پاسکتے ہیں ۔ ان سے یسوع نے کہا تمہارے پاس کس قدر روٹیاں ہیں ۔ انہوں نے کہا : سات روٹیاں اور کچھ چھوٹی مچھلیاں ۔ آپ نے سب سے کہا کہ وہ زمین پر سہارا لے کر بیٹھ جائیں ۔ آپ نے روٹی اور مچھلیاں لیں ۔ شکر ادا کیا اور انہیں توڑا ۔ انہوں نے یہ روٹیاں شاگردوں کو دیں اور انہوں نے سب کو کھلائی اور سب سیر ہوگئے اور جب روٹیاں اٹھائیں تو سات تھال بھرے ہوئے تھے اور کھانے والے چار ہزار تھے جن میں عورتوں اور بچوں کا شمار نہ کیا گیا تھا ‘ ایسی ہی روایات دوسری اناجیل میں بھی آئی ہیں ۔ بعض تابعین کا خیال ہے کہ یہ مائدہ نہیں اترا ۔ مجاہد اور حسن اس طرف گئے ہیں ‘ کیونکہ جب حواریوں نے یہ سنا ” میں اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفران نعمت کیا تو اسے میں ایسی سزا دوں گا جیسی تمام جہان والوں میں کسی کو نہ دی گئی تھی ۔ “ تو وہ ڈر گئے اور انہوں نے اپنا یہ مطالبہ واپس لے لیا تھا ۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں ” لیث نے بذریعہ ابن سلیم مجاہد سے یہ روایت کی ہے کہ یہ ایک مثال تھی جو اللہ نے یہاں بیان کی ورنہ کوئی طعام اترا نہیں تھا ۔ “ ابن جریر نے حارث ‘ قاسم ‘ حجاج ابن جریج کے ذریعہ مجاہد سے یہ روایت کی ہے کہ یہ ایک دسترخوان تھا بعض کے اوپر کھانا ہو۔ انہوں نے اس مطالبے کو واپس لے لیا تھا جب انہیں بتایا گیا کہ ان پر عذاب آجائے گا اگر اس کھانے کے آنے کے بعد انہوں نے ناشکری کی ۔ انہوں نے ابو اللیث ‘ محمد ابن جعفر ‘ شعبہ ‘ منصور ابن زاذان کے واسطہ سے حسن سے یہ روایت کی ہے کہ مائدہ نازل نہیں ہوا تھا ۔ بشر ‘ نرید اور سعید کے واسطہ سے قتادہ کی یہ روایت ہے کہ حسن کہتے تھے کہ جب انہیں کہا گیا کہ اگر اس کے بعد انہوں نے کفران نعمت کیا تو انہیں ایسی سزا دی جائے جو عالمین میں سے کسی کو نہ دی گئی تھی تو انہوں نے ڈر کر کہا کہ ہمیں ایسے مائدہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس پر پھر یہ مائدہ نازل نہ ہوا۔ لیکن سلف صالحین میں سے اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ کھانا نازل ہوا تھا ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے الفاظ یہ استعمال کیے ہیں۔ (آیت) ” انی منزلھا علیکم “ (5 : 115) (میں اسے تم پر نازل کرنے والا ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ایک قسم کا وعدہ ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود قرآن کریم کے الفاظ میں رائے کی تائید کرتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ یہی درست ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حشر کے میدان میں اپنی قوم کے سامنے ایک عظیم جلسہ میں یاد دلاتے ہیں کہ میں نے تم پر یہ یہ انعامات کئے ۔ (آیت) ” إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ أَن یُنَزِّلَ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ۔ (5 : 112) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ” اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے “۔ حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تلامذہ تھے ‘ غریب لوگ تھے اور آپ کے بارے میں زیادہ جانتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ آپ انسان ہیں ۔ جانتے تھے کہ آپ ابن مریم ہیں اور آپ کے بارے میں جو کچھ جانتے تھے وہی کہتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ رب نہیں ہیں بلکہ وہ رب کے پروردہ بندہ ہیں ۔ یہ کہ وہ ابن اللہ نہیں ہیں ‘ بلکہ ابن مریم اور اللہ کے بندے ہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ رب وہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ان معجزات کا صدور کر رہا ہے ۔ وہ ان معجزات میں سے کوئی بات از خود صادر نہیں کرسکتے ۔ اپنی ذاتی قدرت مطالبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے نہ کیا ۔ اس لئے کہ وہ بذات خود قدرت نہ رکھتے تھے بلکہ انہوں نے مطالبہ ان الفاظ میں کیا ۔ (آیت) ” یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ أَن یُنَزِّلَ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ۔ (5 : 112) اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ۔ اب لفظ (آیت) ” ھل یستطیع “ ؟ میں مختلف تاویلات سامنے آتی ہیں ۔ سوال یہ تھا کہ ایمان اور کلمہ شہادت کے بعد وہ یہ سوال کرسکتے ہیں جبکہ وہ اپنے اسلام پر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو شاہد ٹھہراتے ہیں ۔ ” یستطیع “ کا مفہوم یہ بھی بتایا گیا ہے ھل یقد ؟ لیکن مقصد وہ نتیجہ ہے جو اس قدرت اور استطاعت کے نتیجے میں آسکتا ہے یعنی آسمان سے خوان ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ طلب کر رہے تھے کہ اگر وہ طلب کریں تو کیا اللہ ان کے مطابلے کو پورا کرے گا ۔ ایک قرات (آیت) ” ھل تستطیع ربک “ یعنی کیا آپ کو یہ سوال کرنے کا اختیار ہے کہ آپ نزول مائدہ کا سوال کریں ۔ بہرحال مفہوم جو بھی ہو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں انہیں تنبیہ کی کہ وہ ایسے سوالات نہ کریں اور خدا سے ڈریں ۔ (آیت) ” قَالَ اتَّقُواْ اللّہَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (112) ” تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو “۔ لیکن حواریوں نے دوبارہ مطالبہ کیا ۔ اور انہوں نے اپنے مطالبے کی غرض وغایت بھی بتا دی : (آیت) ” قَالُواْ نُرِیْدُ أَن نَّأْکُلَ مِنْہَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْْہَا مِنَ الشَّاہِدِیْنَ (113) ” انہوں نے کہا ” ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں “۔ وہ بہرحال یہ مائدہ کھانا چاہتے تھے جس کی کوئی نذیر زمین پر نہ ہو اس لئے کہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ معجزہ ہوتے دیکھیں اور انہیں یقین ہوجائے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے سچ کہا ۔ پھر وہ خود اپنی باقی ماندہ قوم کے لئے گواہ ہوجائیں کہ یہ عظیم معجزہ سرزد ہوا ۔ یہ تمام امور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا مقام ومعیار حضرت محمد ﷺ کے حواریوں سے ذرا کم تھا ۔ اگر دونوں کرداروں کا موازنہ کیا جائے تو صحابہ محمد کا مقام نہایت ہی ممتاز نظر آتا ہے ۔ اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں : (آیت) ” قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ِ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِّنکَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ (114) اس پر عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے دعا کی ” خدایا ! ہمارے رب ‘ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر ‘ جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔ “ جیسا کہ سیاق کلام میں بار بار اس بات کو دہرایا جاتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا نہایت ہی مودبانہ ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک مختار بندہ اپنے رب اور اپنے آقا کے ساتھ نہایت ہی رازدارانہ انداز میں بات کرتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ” اے اللہ “ ” اے ہمارے رب “ کے الفاظ کے ساتھ دعا شروع کرتے ہیں ۔ اے اللہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے اوپر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ اور یہ خوان ایسا ہو کہ ہمارے لئے خوشی اور انبساط کا سبب بنے اور وہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے سامان فرحت ہو ۔ نیز یہ آپ کے خصوصی رزق سے ہو ۔ اور آپ رزق دینے والوں میں سے حقیقی رزاق ہیں ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جانتے ہیں کہ وہ بندے ہیں اور اللہ ہی رب العالمین ہے اور یہ اعتراف وہ ایک کھلی مجلس اور دربار میں کرتے ہیں ۔ یہ کھلی مجلس دربار قیامت میں ہے اور حضرت کی قوم کے سامنے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرلیا ۔ لیکن اس قبولیت دعا کو سنجیدگی کا عنصر بھی دے یا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شایان شان تھا ۔ انہوں نے ایک معجزے کا مطالبہ کیا ۔ اللہ نے اسے قبولیت بخشی لیکن یہ شرط عائد کردی کہ اگر اس کے بعد کسی نے کفران نعمت کیا تو اسے شدید عذاب کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اس قدر شدید جس کی کوئی مثال نہ ہو ۔ اور ایسا عذاب کبھی کسی قوم پر نہ آیا ہو ۔ (آیت) ” قَالَ اللّہُ إِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْْکُمْ فَمَن یَکْفُرْ بَعْدُ مِنکُمْ فَإِنِّیْ أُعَذِّبُہُ عَذَاباً لاَّ أُعَذِّبُہُ أَحَداً مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (115) ” اللہ نے جواب دیا ” میں اس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو میں نے کسی کو نہ دی ہوگی۔ “ یہ سنجیدگی اللہ کی شان کے لائق ہے تاکہ معجزات کا مطالبہ ایک مذاق نہ بن جائے ۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ جن لوگوں کے سامنے بین اور معجز دلائل پیش ہوں اور پھر بھی وہ کفر کریں تو انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنے کا خوف تو ہو ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جن اقوام نے معجزات طلب کئے ہیں اور پھر انہوں نے سچائی کو تسلیم نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ضرور ہلاک کیا ہے ۔ رہی آیت زیر بحث تو ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد دنیا کا عذاب ہو اور اگر یہاں نہ ہو تو آخرت کا عذاب ہو۔ اب اس تنبیہ اور تخویف کے بعد یہاں سیاق کلام خاموش ہے کہ آیا یہ خوان اترا یا نہیں اور روئے سخن اپنے اصل موضوع کی طرف پھرجاتا ہے ۔ یعنی الوہیت اور ربوبیت کے اصل موضوع کی طرف کیونکہ اس سبق کا اصل موضوع یہی ہے ۔ یہ عظیم دربار ابھی تک جاری ہے اور لوگ اس کا تماشا کر رہے ہیں ۔ چاہیے کہ ہم ذرا اس کی طرف لوٹیں اور براہ راست سوال و جواب سے لطف اندوز ہوں ۔ اب اللہ تعالیٰ اس دربار میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم کی الوہیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ پیروکار بھی موجود ہیں جنہوں نے ان کو اور ان کی والدہ کو الہ سمجھا تھا تاکہ وہ سنیں اور ان کے سامنے حضرت ان کے لغو عقائد سے برات کا اظہار کریں ۔ یہ جواب نہایت ہی خوفناک فضا پیدا کرتا ہے ۔ ذرا ملاحظہ ہو :
Top