Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔
(آیت) ” نمبر 20 تا 26۔ یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور اسے یہاں تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ یہ تفصیلات جس حکمت کے تحتی دی گئی ہیں اس کے کئی پہلو ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنی اسرائیل ان لوگون میں سے ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے دعوت اسلامی کی مخالفت کی اس کے خلاف سازش کی ‘ مدینہ میں اس کے خلاف برسرپیکار رہے اور پورے جزیرۃ العرب میں اس کے ساتھ محاربت کرتے رہے ۔ وہ پہلے ہی دن سے جماعت مسلمہ کے خلاف برسرجنگ تھے ، انہوں نے مدینہ میں نفاق پیدا کیا اور منافقین کی پرورش کرتے رہے ۔ یہ لوگ ان منافقین کی امداد کرتے رہے اور یہ امداد اسلامی نظریہ حیات کے خلاف بھی تھی اور مسلمانوں کے خلاف بھی ۔ انہوں نے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا ‘ ان کے ساتھ لمبے چوڑے وعدے کئے اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف افواہ سازی کا کام کیا ‘ خفیہ رویشہ دوانیاں کیں ‘ مکاریوں سے کام لیتے رہے اور اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرتے رہے ۔ انہوں نے شکوک و شبہات بھی پھیلانے کی کوشش کی ۔ اسلامی عقائد میں بھی اور اسلامی قیادت کے خلاف بھی اور کچھ عرصہ بعد یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف پوری طرح کھل کر سامنے آگئے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ جماعت مسلمہ کے سامنے انکی پوری حقیقت کو کھول کر رکھ دیا جائے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اس کے دشمن کس قماش کے لوگ ہیں ‘ ان کا مزاج کیا ہے ‘ ان کی تاریخ کیا ہے ‘ ان کے وسائل عدوات کیا ہیں اور اس معرکے کی نوعیت کیا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ آنے والی پوری اسلامی تاریخ میں ملت اسلامیہ کہ دشمن رہیں گے بعینہ اسی طرح جس طرح یہ لوگ خود اپنی تاریخ میں ہمیشہ حق کے دشمن رہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تاریخ ملت اسلامیہ کے سامنے رکھ دی اور اچھی طرح کھول کر رکھ دی اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہ لوگ جو ذرائع کام میں لاتے تھے وہ بھی ان کے سامنے رکھ دیئے ۔ اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل اس دین کے حامل تھے جو حضرت محمد ﷺ کے آخری دین سے پہلے سچا دین تھا اور اسلام سے قبل بنی اسرائیل ایک طویل تاریخ رکھنے والی ملت تھے ، ان کے عقائد میں انحراف واقعہ ہوگیا تھا اور انہوں نے اس عہد و پیمان کی بار بار خلاف ورزی کی تھی جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ اس نظریاتی انحراف اور اس عہد کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوگئے تھے اور ان تمام امور کا تقاضا یہ تھا کہ امت مسلمہ ان کو پوری تاریخ سے آگاہ ہو کیونکہ وہ اس سے قبل کی تمام رسالتوں کی امین اور وارث ہے اور ربانی نظریہ حیات اور صحیح عقائد کی نگہبان ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ امت مسلمہ کو ان تمام تاریخی انقلابات کا علم ہو اور اس کو معلوم ہو کہ کہاں کہاں ان لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور اس کے کیا نتائج نکلے ۔ بنی اسرائیل کی زندگی اور ان کے اخلاق پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوئے تاکہ اس تجربے کی وجہ سے تحریک اسلامی ان مقامات میں سنبھل کر چلے جہاں ٹھوکریں لگتی ہیں ‘ جہاں سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے اور جہاں سے انحراف شروع ہوتا ہے تاکہ ان تاریخی تجربات کے نتیجے میں وہ صحیح راہ پر گامزن رہے ۔ اور اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے تجربات کے کئی پہلو تھے ۔ یہ بہت طویل تجربات تھے اور اللہ تعالیٰ کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ جب اقوام وملل پر ایک طویل عرصہ گزر جاتا ہے تو وہ سنگدل ہوجاتی ہیں اور ان کی بعد کی نسلیں اصل راہ سے ہٹ جاتی ہیں اور یہ کہ امت مسلمہ کی تاریخ قیام قیامت تک طویل رہے گی اور اس پر ایسے ادوار آئیں گے جن مین وہ بعینہ بنی اسرائیل جیسے حالات میں مبتلا ہوجائے گی ، اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تاریخ اسلام میں پیدا ہونے والے قائدین اور تجدید واحیائے دین کرنے والے مجددیں کے سامنے بھی ایسے تجربات کے نمونے ہونے چاہئیں کہ اقوام وملل کے اندر کس طرح انحراف اور گمراہی سرایت کر جاتی ہے ۔ ان مجددین کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج کیسے ہوگا ‘ اس لئے کہ ہدایت اور صراط مستقیم سے دور چلے جانے میں وہ لوگ بہت ہی سنگدل ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر ایسا کریں ، غافل ‘ خام اور کم علم لوگ بہت جلد ہدایت قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک جدید دعوت آتی ہے جو انہیں پسند آجاتی ہے اور وہ اسے قبول کرلیتے ہیں ۔ وہ اپنے اوپر سے گردو غبار جھاڑ لیتے ہیں ‘ کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے ۔ چونکہ یہ جدید دعوت ان کی فطرت کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے اس لئے ان کی زندگی میں بہار آجاتی ہے ۔ لیکن جن لوگوں کے سامنے پہلے دعوت آجاتی ہے ‘ ان کے لئے دوبارہ وہ دعوت پرکشش نہیں ہوتی ۔ نہ ہو ان کے اندر حرکت پیدا کرتی ہے نہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی عظیم دعوت ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے زیادہ محنت اور طویل اور صبر آزماجدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قصہ بنی اسرائیل کی تفصیلات کی حکمتوں میں سے یہ بہت اہم پہلو تھے ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قصص کو ہمیشہ تفصیلات کے ساتھ دیا ہے اس لئے کہ امت مسلمہ عقائد کی وارث تھی ۔ اسے اب انسانیت کی قیادت کے فرائض سرانجام دینے تھے ۔ اس کے کئی اور پہلو بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہاں ان اشارات سے زیادہ دینا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا اس سبق مین ہم اس مجلس کی طرف واپس آتے ہیں ۔ (آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21) ” یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلمات کے اندر ایسا اشارہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی قوم اس جہاد کے سلسلے میں متردد ہے اور انہیں خطرہ تھا کہ وہ الٹے پاؤں پھرجائے گا ۔ انہوں نے بنی اسرائیل کے مصر سے واپسی کے طویل سفر کے اندر اچھی طرح تجربہ کرلیا تھا کہ یہ لوگ بار بار نافرمانی کرتے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو مصر سے نکالا تھا اور ان کو اس ذلت اور بدبختی کی زندگی سے آزاد کیا تھا ‘ جس میں عرصہ غلامی مصر میں وہ مبتلا تھے ۔ یہ آزادی انہیں اللہ کے نام پر ملی تھی اور اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ نے ان کے لئے سمندر کو چیر دیا تھا اور اس میں فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا تھا ۔ اس کے بعد جب وہ ایک ایسی قوم سے ہو کر گزرے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو انہوں نے فورا مطالبہ کردیا تھا کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایسا ہی الہ بنا دو جیسا کہ ان لوگوں کا الہ ہے ۔ (آیت) ” یا موسیٰ اجعل لنا الھا کما لھم الھہ) اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقررہ میعاد پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرگوشی کے لئے کوہ طور پر چلے گئے تو پیچھے سے سامری نے ان زیورات سے جو آتے ہوئے ان کی عورتوں نے مصریوں کی عورتوں سے چرا لئے تھے ‘ ایک بچھڑا بنا دیا ۔ یہ بچھڑا ایسا ہی آواز کرتا تھا جس طرح ایک بچھڑا آواز کرتا ہے ۔ یہ لوگ اس بچھڑے پر ٹوٹ پڑے اور کہا کہ یہ تو وہی خدا ہے جس کی ملاقات کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چلے گئے ، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واضح معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے ان کے لئے تپتے ہوئے صحرا کے اندر سے ایک پتھر سے 12 چشمے نکالے ۔ ان پر من اور سلوی جیسے طعام نازل ہوئے جو نہایت ہی لذیذ تھے لیکن انہوں نے ان لذیذ ومفید کھانوں کو چھوڑ کر ان کھانوں کا مطالبہ کردیا جو مصر میں وہ کھاتے تھے حالانکہ وہاں وہ بڑی ذلت کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ وہاں انہوں نے ساگ ‘ ترکاری ‘ گیہوں ‘ لہسن اور پیاز کا مطالبہ کیا اور اس کھانے پر صبر نہ کیا جو ان پر نازل ہو رہا تھا حالانکہ وہ عزت اخلاص اور اعلی مقاصد کے لئے کام کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ان اعلی مقاصد کی طرف کھینچ لا رہے تھے اور وہ پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو گائے کے معاملے میں بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس میں پس وپیش اور بہانہ بازی کرتے اور مدت تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ۔ اور بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے اس حکم پر عمل کیا لیکن وہ کرنے والے نہ تھے ۔ (آیت) ” فذبحوھا وما کادوا یفعلون) پھر انہوں نے ان کا تجربہ اس وقت بھی کیا تھا جب وہ کوہ طور سے واپس ہوئے اور ان کے پاس وہ تختیاں تھیں جن میں وہ میثاق اور عہد تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ۔ انہوں نے اس عہد سے انکار کردیا اور عہد شکنی پر ثابت قدم رہے۔ ان انعامات اور ان کے جواب میں ان نافرمانیوں اور اس کے بعد اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کی معافی کے باوجود پھر بھی انہوں نے اس عہد کو تسلیم نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کے سروں پر پہاڑ اس طرح لٹکانا پڑا جس طرح کہ بادل کا ایک ٹکڑا ہو اور وہ اس حالت میں آگیا کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ اب یہ ان کے اوپر گرنے ہی والا ہے ۔ (آیت) ” وظنوا انہ واقع بھم “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طویل سفر آزادی میں ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ۔ آپ ان کو لے کر ارض مقدس کی دہلیز تک آپہنچے تھے جس کا وعدہ ان کے ساتھ خود اللہ نے کیا تھا اور اس زمین کے لئے ہی وہ مصر سے نکلے تھے ۔ وہ زمین جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عہد کیا تھا کہ یہ لوگ اس میں بادشاہت قائم کریں گے اور اللہ اس میں پھر ان پر انبیاء بھیجے گا تاکہ وہ اللہ کی نگرانی اور قیادت میں زندگی کے بہترین دن گزاریں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ‘ اس لئے ان کا یہ حق تھا کہ وہ ایک بار پھر ان کی جانب سے بدعہدی سے ڈریں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آخری دعوت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے وہ تمام باتیں رکھ دیں جو انکی سابقہ تاریخ میں سے قابل ذکر تھیں اور ان کے سامنے وہ تمام بشارتیں رکھ دیں جو مستقبل میں ان کو حاصل ہونے والی تھیں ان کے سامنے وہ تمام امور رکھ دیئے جن سے ان کے حوصلے بڑھ سکتے تھے اور وہ سخت سے سخت ڈراوا بھی رکھ دیا : (آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21) ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “ اللہ کا انعام اور وہ وعدے پورے ہوگئے ۔ اللہ نے ان میں انبیاء بھیجے اور بادشاہ پیدا کئے۔ اس باب میں اللہ نے انہیں وہ کچھ دیا جو اقوام عالم میں کسی کو نہ دیا گیا تھا تاریخ کی اس یونٹ تک ‘ اور وہ ارض مقدس جسے فتح کرنے جا رہے تھے جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی ۔ اور یہ تحریر اللہ کی تھی ‘ لہذا اس کا پورا کیا جانا حق الیقین تھا ۔ اس سے پہلے اللہ نے ان کے ساتھ جو بھی وعدے کئے تھے وہ ایک ایک کرکے پورے کردیئے گئے تھے اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جس کی طرف وہ بڑھ رہے تھے ۔ اس سے پیچھے ہٹنا انکے لئے دنیا وآخرت کا خسران تھا ۔۔۔۔۔ لیکن بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے ۔ بزدل سست اور پیچھے کی طرف پلٹنے والے اور بار بار وعدہ خلافی کرنے والے :
Top