Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 56
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّ : دوست رکھتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) فَاِنَّ : تو بیشک حِزْبَ اللّٰهِ : اللہ کی جماعت هُمُ : وہ الْغٰلِبُوْنَ : غالب (جمع)
اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے ۔
(آیت) ” ومن یتول اللہ ورسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغلبون (56) (5 : 55۔ 56) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اور اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔ ایمان کے اصول کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے غلبے کا وعدہ کیا ہے ۔ اور ایمانی اصل اور ایمانی قاعدہ یہ ہے کہ موالات اور دوستی صرف اللہ ‘ رسول اللہ ﷺ اور مومنین کے لئے ہو۔ پہلے یہ حکم دیا گیا کہ اگر تم یہودیوں کے ساتھ موالات کرو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اسلامی صفوں سے خارج تصور ہوگا ‘ تمہارا شمار یہودونصاری میں ہوگا اور معنوی اعتبار سے تمہارا یہ عمل دین سے ارتداد ہوگا۔ یہ لمحہ فکریہ قرآن میں بار بار آتا ہے ‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ایک مسلمان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اسلام کو مطلقا خیر سمجھے اور اس پر چلے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ غالب ہوگا یا اسے زمین کے اندر اقتدار اعلی نصیب ہوگا ۔ تمکن فی الارض اور غلبہ تو ایمان کے آثار ہیں اور اپنے وقت پر ضرور نمودار ہوتے ہیں اور یہ اس لئے نمودار ہوتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر پردے سے ظاہر ہو کہ اس نے اس دین کو اس کرہ ارض پر غالب کرنا ہے ۔ غلبے کا ویہ وعدہ اس لئے نہیں ہے کہ لوگ اس وعدے کے بل بوتے پر دین میں داخل ہوجائیں ۔ محض غلبہ مقصود نہیں ہے ‘ نہ اس میں ان کی ذات اور شخصیت کا کوئی فائدہ ہے ‘ یہ تو اللہ کی تقدیر ہوتی ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ازپس پردہ تقدیر نمودار ہوتی ہے ۔ یہ غلبہ جو انہیں نصیب ہوتا ہے تو یہ ان کے نظریہ حیات کے لئے ہوتا ہے ‘ ان کی ذات کے لئے نہیں ہوتا ۔ ان کے لئے اگر کچھ ہے تو وہ اس راہ جدوجہد کرنے کا ثواب اخروی ہے اور یہ اخروی ثواب انہیں اس جدوجہد کے ان نتائج پر بھی ملے گا ۔ مثلا کرہ ارض پر اگر دین غالب ہوجاتا ہے تو اس زمین پر جو اصلاحی کام ہوتا ہے ‘ اس تمام کا ثواب انہیں ملے گا ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ غلبے کا وعدہ کرتا ہے تاکہ وہ ثابت قدم ہوجائیں اور ان کے سامنے جو مشکلات بھیانک صورت میں کھڑی ہیں ان کے اثرات سے وہ آزاد ہوجائیں ۔ یہ مشکلات بعض نہایت ہی تباہ کن ہوتی ہیں ۔ جب وہ انجام کا یقین حاصل کرلیتے ہیں تو ان کے دل قوی ہوجاتے ہیں اور وہ مشکلات کو انگیز کرلیتے ہیں ۔ وہ مشکل گھاٹی کو سر کرلیتے ہیں اور پرامید ہوجاتے ہیں کہ اللہ ان کے ہاتھوں اس امت کے لئے کوئی بھلائی برپا کردے گا ۔ ان کو جہاد کا ثواب ملے گا اور دین کے غلبے کا ثواب ملے گا اور اس پر جو نتائج مرتب ہوں گے ان کا ثواب بھی ملے گا ۔ غرض اس مقام پر اس آیت کے لانے سے معلوم ہوتا پر اس آیت کے لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں جماعت مسلمہ کے شب وروز کیا تھے اور یہ کہ ایسی خوشخبری کی ضرورت تھی ۔ چناچہ یہ فیصلہ دیا گیا کہ غلبہ حزب اللہ ہی کا ہوگا ۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ آیات کس دور میں نازل ہوئیں ۔ ان حالات میں ہمارے لئے تمام نتائج کا خلاصہ اس مختصر فیصلے میں دے دیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کو غلبہ ہوگا اور ایک مومن مطمئن ہوجاتا ہے کہ بس یہی ہے سنت الہیہ کہ حزب اللہ غالب ہوگی اگرچہ بعض معرکوں میں اسے بظاہر شکست بھی ہوجائے ‘ اس لئے کہ بعض ظاہری حالات کے ہوتے ہوئے بھی اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے ۔ ہاں بعض مراحل تحریک میں شکست بھی نظر آتی ہے ۔ اس وعدے کے تحقق کی راہ بہرحال ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ موالات صرف اللہ رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کے لئے ہو۔ اب ذرا اس امر پر غور کریں کہ قرآن مجید نے اہل ایمان کو ان لوگوں کے ساتھ تعلق موالات قائم کرنے سے بار بار منع کیا ہے جو اہل ایمان کے نظریے کے خلاف ہیں ۔ اور ان کے لئے نئے نئے انداز اختیار کئے ہیں تاکہ یہ بات ان کے احساس و شعور کا حصہ بن جائے اور یہ اصول ان کے ایمان کا حصہ بن جائے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تصور حیات میں اس اصول کی کس قدر زیادہ اہمیت ہے ۔ اس سلسلے میں جب اہل ایمان کے نام پہلی پکار جاری ہوئی تو وہ براہ راست تھی اور اس میں ان کو منع کیا گیا کہ اہل کتاب کے ساتھ تعلق موالات قائم کریں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ فتح لے آئیں گے یا کوئی اور حکم جاری کردیں گے اور اس طرح تمام راز فاش ہوجائیں گے ۔ دوسری پکار میں ان کو اس بات سے ڈرایا گیا کہ اگر وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے دشمنوں سے تعلق موالات کریں گے تو مرتد ہوجائیں گے بلکہ چاہئے کہ تم ایک ایسی رجمنٹ کے سپاہی بن جاؤ جو اللہ کی خاص رجمنٹ ہے ۔ جس سے اللہ کو پیار ہے اور اس کو بھی اللہ سے محبت ہے ۔ اور یہی اللہ کی پارٹی ہے جسے غلبہ نصیب ہوگا ۔ اب یہاں ایک تیسری پکار ہمارے سامنے آتی ہے اس میں اہل ایمان کے جذبہ حمیت دین کو ابھارا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تو تمہارے دین ‘ تمہارے طریقہ عبادت کے نہ صرف یہ کہ مخالف ہیں بلکہ وہ تمہارے طریقوں کے ساتھ سخت مذاق بھی کرتے ہیں اس تیسری پکار میں اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ ساتھ دوسرے کفار کے ساتھ بھی تعلق موالات نہ رکھیں اور خدا خوفی کا رویہ اپنائیں ۔ اگر وہ مومن ہیں تو اللہ کی ان ہدایات پر اچھی طرح غور کریں اور اس پکار میں اہل کتاب اور کفار کی ایک دائمی صفت کا ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ بےعقل ہیں ۔
Top