Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءُوْكُمْ : تمہارے پاس آئیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَقَدْ دَّخَلُوْا : حالانکہ وہ داخل ہوئے ( آئے) بِالْكُفْرِ : کفر کی حالت میں وَهُمْ : اور وہ قَدْ خَرَجُوْا : نکلے چلے گئے بِهٖ : اس (کفر) کے ساتھ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو كَانُوْا : تھے يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
جب یہ لوگ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔
(آیت) ” نمبر 61 تا 64۔ یہ ایسی عبادتیں ہیں جن کے اندر کچھ چلتی پھرتی تصاویر نظر آتی ہیں اور یہ قرآن مجید کا منفرد اسلوب ہے ۔ صدیاں گزر گئیں لیکن ان لوگوں کی تصاویر آج بھی ان عبارات میں واضح ہیں ‘ جن کے بارے میں قرآن کریم ان آیات میں بحث کرتا ہے ۔ یہاں جو نقشہ کھنیچا گیا ہے وہ یہودیوں کا ہے ‘ اس سے کہ آگے پیچھے بات انہی کی ہو رہی ہے ۔ اگرچہ اس میں بعض وہ لوگ بھی نظر آتے جو مدینہ کے منافقین ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہیں ‘ ” بھائی ہم بھی تو ایمان لا چکے ہیں “ لیکن اپنی بغل میں کفر چھپائے ہوئجے ہیں جب آئے تو یہ کفر ان کے ساتھ تھا۔ لیکن ان کے منہ میں رام رام ہے اور بغل میں کفر کی چھری ہے ۔ یہ گروہ غالباگروہ تھا یہود تھا جو راتوں کو اسلام کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے ‘ اور ان میں سے بعض دوسروں سے یہ کہتے تھے کہ صبح اس قرآن پر اپنے ایمان کا اعلان کرو اور شام کو پھر کفر کا اعلان کر دو ‘ اور اس طرح اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرو۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی قرآن کو ترک کردیں اور اپنے دین کو چھوڑ دیں یہ اس افراتفری اور شک وشبہ کی فضا کی وجہ سے ہے ۔ (آیت) ” واللہ اعلم بما کانوا یکتمون “۔ (5 : 61) ” اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں “۔ یہ اللہ کا کہنا ہے اور اللہ حقائق کے جاننے والے ہیں ۔ اور اس اعلان سے اہل ایمان کو اطمینان نصیب ہوتا ہے کہ ان کا رب ان کا محافظ اور نگہبان ہے ۔ وہی انہیں یہودیوں کی سازشوں سے بچا سکتا ہے کیونکہ اللہ کا علم ان کی خفیہ سازشوں پر محیط ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ان کو ایک دھمکی ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو۔۔۔۔ سیاق کلام کو لے کر ذرا آگے بڑھئے ۔ اس منظر میں ان کی کچھ اور تصاویر آتی ہیں ۔ (آیت) ” وتری کثیرا منھم یسارعون فی الاثم والعدوان واکلھم السحت ، لبئس ما کانوا یعملون (62) ” تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت ہی بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں “۔ مسارعہ باب مفاعلہ ہے بہت سے لوگ ہیں جو باہم مقابلہ کررہے ہیں ‘ گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر حرام مال کھاتے ہیں ۔ یہ تصویر نہایت ہی مکروہ اور بدنما ہے ۔ لیکن جب کسی قوم کی اخلاقی حالت بگڑ جائے اور اس میں فساد سرایت کرجائے تو اس میں ایسی ہی صورت حالات پیدا ہوجایا کرتی ہے ۔ زندگی کی اعلی اقدار ختم ہوتی ہیں ‘ معاشرے پر شر غالب ہوجاتی ہوجاتا ہے اور جب بھی انسان کو ایسے معاشروں کو دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے تو یہ پایا جاتا ہے کہ ان میں لوگ شر ‘ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاشرے کے کے طاقتور لوگ اپنے دائرے میں اور زبردست لوگ اپنے دائرے میں ظالم ہوتے ہیں ۔ گناہ میں آلودگی اور ظلم ایسے گرے ہوئے فاسد معاشروں میں صرف طاقتور لوگوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ضعفاء بھی ان جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں یہاں تک سب لوگ اثم وعدوان کے سیلاب میں بہتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ ضعفاء بیشک زبردستوں پر ظلم کرنے پر قادر نہیں ہوتے لیکن یہ ضعفاء پھر آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور اگر ایک دوسرے پر ظلم نہ بھی نہ کرسکیں تو یہ لوگ پھر اللہ کی حرمتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس لئے کہ فاسد معاشروں کے اندر پھر اللہ کے حدود ہی رہ جاتے ہیں جن کو توڑنے کے لئے ان کے سامنے میدان کھلا ہوتا ہے ۔ ایسے میں نہ طاقتور حکام اور نہ ضعفاء محکوم حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ غرض جو معاشرے بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوجائے اس میں گناہ کی زندگی اور ظلم کی حرکات کا دور دورہ ہوتا ہے بلکہ گناہ اور ظلم کی طرف دوڑنے کے مقابلے (مسارعت) ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” لبئس ما کانوا یعملون “۔ (5 : 92) ” بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں ۔ “ یہاں سیاق کلام فاسد معاشروں کی ایک دوسری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے علماء اور مشائخ گنگ ہیں ‘ بولتے ہی نہیں ۔ علماء جو شریعت اور قانون کے نگران اور نگہبان ہیں ‘ ان کے سامنے قانون توڑے جاتے ہیں ۔ مشائخ جو علم دین کے استاد ہیں ان کے سامنے غلط افکار پھیل رہے ہیں اور وہ منع نہیں کرتے اور ان کے سامنے لوگ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
Top