Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ
: کیوں
لَا يَنْھٰىهُمُ
: انہیں منع نہیں کرتے
الرَّبّٰنِيُّوْنَ
: اللہ والے (درویش)
وَالْاَحْبَارُ
: اور علما
عَنْ
: سے
قَوْلِهِمُ
: ان کے کہنے کے
الْاِثْمَ
: گناہ
وَاَكْلِهِمُ
: اور ان کا کھانا
السُّحْتَ
: حرام
لَبِئْسَ
: برا ہے
مَا
: جو
كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ
: وہ کر رہے ہیں
ان کے علماء ومشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کرتے ۔ یقینا بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو یہ تیار کر رہے ہیں
(آیت) ” (62) لولا ینھھم الربنیون والاحبار عن قولھم الاثم واکلھم السحت ، لبئس ما کانوا یصنعون (63) ” ان کے علماء ومشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کرتے ۔ یقینا بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو یہ تیار کر رہے ہیں۔ “ جب کوئی معاشرہ اخلاقی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ اور فساد کا شکار ہوتا ہے تو اس کی ایک بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں قانون کے نگران قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ (علمائ) اخلاقی رہبر (مشائخ) بداخلاقیوں اور ظلم پر سکوت کرتے ہیں اور بنی اسرائیل کی کیا خصوصیات تھیں ؟ (آیت) ” کانوا لا یتناھون عن منکرفعلوہ) ” وہ اس برائی سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے جو وہ کرتے تھے ۔ “ یہ قرآن ہی نے دوسری جگہ ان کے بارے میں کہا ہے ۔ ایک صحت مند ‘ زندہ ‘ قوی اور فاضلانہ معاشرے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر طرف امر بالعروف اور نہی عن المنکر کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ اور اس میں ہر وقت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مشن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ اور اس میں ہر وقت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مشن امر بالعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے اور اس کے عوام کے اندر بھی ایسے عناصر غالب ہوتے ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف کان دھرتے ہیں ۔ اور معاشرے کے اوپر اس قسم کے روایات کی گرفت ہو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ختم نہ کیا جاسکتا ہو اور نہ ایسے لوگوں کا بال بیکا کیا جاسکتا ہو جو یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی شکل میں برپا ہونے والے ایک صحت مند معاشرے کے بارے میں فرمائی ہے ۔ (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ‘۔ (3 : 11) ” تم خیر امت ہو ‘ حکم دیتے ہو نیکی کا اور منع کرتے ہو منکر سے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہو “۔ اور بنی اسرائیل جو ایک فاسد معاشرے کے خوگر تھے ان کے بارے میں ہے (کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ) ” وہ اس برائی سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے ۔ “ یہ بات گویا دو قسم کے معاشروں کا مابہ الامتیاز ہے ۔ یہاں یہودیوں کے علماء اور مشائخ کو ملامت کی جاتی ہے کہ وہ کیوں گنگ ہوگئے ہیں اور وہ ان لوگوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے جو گناہ کی زندگی ‘ باہم ظلم کی روش اور حرام خوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور کتاب اللہ کی حفاظت کا جو فریضہ ان پر عائد کیا گیا تھا اسے وہ پورا نہیں کرتے ۔ یہ ان تمام لوگوں کے لئے ڈرانے والے کی پکار ہے جو اہل دیں اور علماء کہلاتے ہیں ۔ معاشرے کی اصلاح یافساد ان لوگوں پر موقوف ہے جو اس معاشرے ‘ دین اور قانون کے نمائندے ہوتے ہیں یعنی علماء ومشائخ ۔ اگر وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض ادا کرتے ہیں تو اصلاح ہوگی اور اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو بگاڑ ہوگا اور جس طرح ہم نے اس سے قبل ظلال القرآن میں کہا ہے کہ اس کام کے لئے ایک حکومت درکار ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے اور یہ نظام دعوت وتبلیغ سے علیحدہ ہو اس لئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسا اقتدار جس کے ذریعہ امر بالمعروف اور عن المنکر ایک بامعنی چیز ہو ۔ محض زبانی جمع خرچ نہ ہو ۔ اب ان لوگوں کی فکری کجی اور اخلاقی بےراہ روی کی ایک مثال دی جاتی ہے ۔ قرآن کریم ان گمراہ اور ذلیل یہودیوں کی کج فکری اور بد روی کی ایک نہایت ہی گھاؤنی مثال دیتا ہے ۔ (آیت) ” غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا ، بل یدہ مبسوطتن ینفق کیف یشآء “ (5 : 63) ” یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ باندھے گئے ان کے ہاتھ ‘ اور لعنت پڑی ان پر اس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ‘ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ “ یہ یہودیوں کا اللہ کا بارے میں نہایت ہی برا تصور تھا ۔ ان کی بہت ہی بدظنیاں قرآن نے جگہ جگہ نقل کی ہیں ۔ ایک جگہ انہوں نے کہا ” اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ “ اور یہ انہوں نے اس وقت کیا کہ جب ان سے اسلامی مقاصد کے لئے چندہ مانگا گیا ۔ اللہ کے ہاتھ بندھے ہونے سے عربی محاورے کے مطابق مراد یہ تھی کہ اللہ بخیل ہے ۔ ان کے خیال کے مطابق اللہ لوگوں کو بہت کم ضروریات دیتا ہے ۔ انہیں بھی کم دیا جاتا ہے اس لئے وہ کس طرح خرچ کریں ‘؟ ان کا شعور اس قدر بگڑ گیا تھا اور ان کے دل اس قدر سخت ہوگئے تھے کہ انہوں نے اللہ جل شانہ کے لئے لفظ بخیل بھی استعمال نہ کیا ‘ بلکہ اس سے بھی برا لفظ استعمال کیا جو زیادہ توہین آمیز ہے ۔ یعنی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ اللہ یہی جواب ان کو ان کے الفاظ میں دیتے ہیں ۔ ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ اور ان کو راندہ درگاہ قرار دیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” غلت ایدیھم ولعنوا بماقالوا “۔ (5 : 64) ان کے ہاتھ باندھ دئیے گئے اور اس لئے باندھ دیئے گئے کہ انہوں نے یہ بکواس کی اور ان پر لعنت کردی گئی اور ایسا ہی ہوا کہ تاریخ میں بنی اسرائیل سے زیادہ کوئی بخیل اور زرپرست قوم نہیں ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی گری ہوئی سوچ درست فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات کبریا کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں کہ وہ بڑا کریم ہے ۔ اس کے ہاتھ کھلے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بلاحساب فیضان رحمت کرتا ہے ۔ (بل یدہ مبسوطتن ، ینفق کیف یشآء “۔ (5 : 64) ” اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے “۔ اللہ کے عطیے تو جاری ہیں اور تمام مخلوقات پر ان کی بارش ہو رہی ہے دیکھنے والوں کے لئے بالکل واضح ہیں ۔ دیکھو اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں ‘ اس کا فضل وکرم بھرپورے ہے ‘ اس کے عیطے عظیم ہیں ‘ اپنی زبان سے خود بولتے ہیں ‘ ہاں یہودیوں کو وہ نظر نہیں آتے ‘ اس لئے کہ وہ رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ رات دن انکار ونافرمانی میں غرق ہیں اور رات دن اللہ کی ذات کے بارے میں ان کا رویہ توہین آمیز ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم ﷺ کے سامنے ان کے مستقبل کے بارے میں ایک منظر پیش فرماتے ہیں کہ ان کا حشر کیا ہونے والا ہے اور یہ حشر ان کا اس لئے ہونے والا ہے کہ یہ لوگ محمد ﷺ کے نام پروانہ رسالت آنے پر جل بھن گئے ‘ خصوصا اس وجہ سے کہ اس رسالت کے ذریعے ان کے خلاف قدیم وجدید فرد جرم عائد کردی گئی ۔ (آیت) ” ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا “۔ ” حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹا اضافہ کو موجب بن گیا ہے “ ۔ اس کینہ اور حسد کی وجہ سے رسالت حضور ﷺ کو کیوں مل گئی اور پھر مزید اس وجہ سے کہ اس رسالت نے ان کی تمام گندی کو بےکم وکاست ریکارڈ کردیا یہ لوگ سرکشی اور کفر و انکار کی راہ پر مزید آگے ہی بڑھیں گے ۔ اس لئے کہ انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا ۔ لہذا ایمان کے برعکس راہ کفر ہی پر یہ لوگ آگے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور مزید کفر کرنے کی وجہ سے اور اپنی فطری سرکشی اور طغیان کی وجہ سے یہ لوگ اس راہ میں مزید آگے بڑھیں گے اور حضور اکرم ﷺ ان کے لئے روزوبال وجان بنتے چلے جائیں گے ۔ مستقبل کے لئے ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے بھی دشمن ہوں گے ۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ سخت بعض ہوگا اور جب بھی وہ اسلام کے خلاف کوئی زبردست سازش تیار کریں گے اور جنگ کی آگ بھڑکائیں گے اور تحریک اسلامی کے خلاف کوئی جنگی اسکیم تیار کریں گے اللہ تعالیٰ اس کو ختم کر دے گا اور جماعت مسلمہ کو بچا لے گا ۔ (آیت) ” والقینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ کلما اوقدوا نارا للحرب اطفاھا اللہ (5 : 64) ” ہم نے انکے درمیان قیامت کے لئے عدوات اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکا تے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ “ آج تک یہودی فرقے ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ “ اگرچہ آج کے دور میں بظاہریہ نظر آتا ہے کہ عالمی یہودیت متحد ہوگئی ہے ۔ اور اسلامی ممالک میں وہ جابجا جنگ کے شعلے بھڑکا رہی ہے اور کامیاب ہے ۔ لیکن بات یہ نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے ایک مختصر عرصے کو سامنے رکھ کر بات کریں یا کسی ایک مظہر کو اور کسی صورت حال کے ایک پہلو ہی کو دیکھ کر فیصلہ کردیں ۔ گزشتہ چودہ سو سال کے اندر بلکہ اسلام سے پہلے کے ادوار میں بھی ‘ یہودی ذلیل اور باہم دست و گریبان رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیشہ جلاوطن اور دوبدر پھرتے رہے ہیں ۔ ان کا آخری انجام بھی وہی ہوگا جس پر وہ پہلے تھے چاہے ان کے اردگرد جس قدر سہارے ہوں ۔ لیکن اصل کنجی تو یہ ہے کہ آیا دنیا میں کوئی اسلامی رجمنٹ بھی ہے یا نہیں ؟ یہ اسلامی رجمنٹ ہی ہے جس کے ہاتھوں ان کی ذلت لکھی ہوئی ہے ۔ چونکہ اس وقت ایمان میں پختہ کار لوگوں کی رجمنٹ مفقود ہے ‘ جو اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرتی ہے اور جو دست قدرت کا آلہ اور ذریعہ بنتی ہے اور اس رجمنٹ کے ذریعے اللہ وہ کچھ کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ۔ ہاں جب یہ امت اسلامی نظریہ حیات پر جمع ہوگی ‘ ایمان کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرلے گی ‘ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام حیات کے مطابق بنائے گی اور اسلامی شریعت کو نافذ کرے گی ‘ اس دن پھر اللہ کا وعدہ اس کی مخلوقات میں سے ان شریر ترین لوگوں پر صادق ہوگا اور یہودیوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترکش میں شرارت اور سازش کے جو تیر بھی ہیں وہ اسلامی صفوں کے خلاف چلاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں جس قدر گرفت ہے وہ اسے ان اسلامی دستوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں جو احیائے علوم کی تحریک کے ہر اول دستے بن رہے ہیں یہ یہودی تمام دنیا میں چھان بین کر رہے ہیں اور اپنے گماشتوں کے ذریعے یہ جگہ جگہ ان اسلامی رجمنٹوں کا سر کچل رہے ہیں ۔ نہایت ہی وحشیانہ جرائم اور نہایت ہی ناپسندیدہ کاروائیاں وہ اسلامی لیڈر شپ کے خلاف کر رہے ہیں ۔ وہ اس اسلامی رجمنٹ کے خلاف کسی بھی عہد موالات اور کسی بھی ذمے اور کسی بھی قومی اور بین الاقوامی چارٹر کا کوئی خیال نہیں کرتے لیکن اللہ نے اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے ہیں اس کا وعدہ سچا ہے کہ حزب اللہ ہی غالب ہوگی ۔ (آیت) ” والقینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ کلما اوقدوا نارا للحرب اطفاھا اللہ (5 : 64) ” ہم نے انکے درمیان قیامت کے لئے عدوات اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکا تے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ “ یہ شروفساد جس کے نمائندے اور جس کے ماڈل یہود ہیں ‘ دائمی امر نہیں ہے ۔ ایک دن آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا دستہ اٹھائے گا جو اسے پاش پاش کر دے گا ۔ اللہ تعالیٰ فساد فی الارض کو پسند نہیں کرتا اور جس چیز کو اللہ پسند نہیں کرتا تو ضروری ہے کہ ایک ایسی قوت اٹھائے جو اسے پاش پاش کر دے ۔ (آیت) ” ویسعون فی الارض فسادا ۔ واللہ لا یحب المفسدین (5 : 63) ” یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔ “ اس سبق کے آخر میں عظیم ایمانی اصول کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ خطہ ارض پر دین کے قیام اور اسلامی نظام کے قیام کے معنی یہ ہیں کہ اس میں اصلاحی کام ہوں گے ‘ لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے ‘ ان کی دنیاوی فلاح و بہبود کے کام زوروں پر ہوں گے اور فلاح دنیا کے ساتھ ساتھ انہیں فلاح آخرت بھی نصیب ہوگی ۔ اس خطہ ارض پر پھر دنیا اور آخرت میں فرق نہ ہوگا اور نہ وہاں دین دنیا میں تضاد ہوگا یہ نظام بیک وقت دنیا اور آخرت کا ضامن ہوگا اور اس میں دین اور دنیا علیحدہ نہ ہوں گے ۔ اس عظیم تبدیلی کا ذکر اس بات کے بعد کیا جاتا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین سے انحراف کرلیا ہے ۔ وہ حرام خور ہوگئے ہیں اور انہوں نے احکام شریعت کے مفہوم کو بدل دیا ہے ۔ یہ کام انہوں نے محض دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے کیا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے اصل دین کا اتباع کرتے تو یہ ان کے لئے دنیا وآخرت اور آسمان و زمین دونوں میں ان کے لئے اچھا ہوتا بشرطیکہ وہ صحیح راہ اختیار کرتے ۔
Top