Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
ان سے کہو تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لئے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے ۔
(آیت) ” قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً وَاللّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (76) ” ان سے کہو تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لئے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے ۔ یہاں قرآن کریم نے لفظ ” ما “ استعمال کیا ہے ۔ حالانکہ یہاں مسیح کے لئے لفظ من استعمال کی جانا چاہئے تھا ‘ تاکہ اس میں وہ تمام مخلوقات آجائیں جن چیزوں کی پوجا کی گئی ۔ ان میں ذوی العقول بھی شامل ہیں ۔ اور لفظ ” ما “ اس عام چیز کی اصل ماہیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ان معبود اشیاء کی اصل ماہیت مخلوق ہے لہذا ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) روح القدس ‘ حضرت مریم صدیقہ (علیہ السلام) سب کے سب شامل ہوں گے اس لئے کہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے یہ سب مخلوق ہیں ۔ چناچہ اس انداز تعبیر میں بھی ایک خاص اشاریت پائی جاتی ہے ۔ اور نتیجہ یہی نکلے گا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی عبادت کا مستحق نہ رہے گا ‘ جبکہ کوئی مخلوق نفع ونقصان کی مالک بھی نہ ہوگی ۔ (آیت) ” ھو السمیع العلیم “۔ (5 : 76) (وہ سننے والا اور جاننے والا ہے) یعنی وجہ ہے کہ وہ نفع ونقصان پہنچا سکتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی پکاروں کو سنتا ہے ۔ وہ بندوں کی عبادت کو دیکھتا ہے ۔ وہ ان کے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ ان کی اس پکارو عبادت کے پیچھے جو جذبہ ہے اس کا بھی اسے علم ہے اور اللہ کے سوا جس قدر اور مخلوق ہے وہ نہ سنتی ہے ‘ نہ جانتی ہے اور نہ قبولیت کی طاقت رکھتی ہے ۔ اب اس بحث کو اس جامع دعوت کے ساتھ ختم کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اہل کتاب کے سامنے یہ تجویز رکھیں ۔
Top