Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ
: ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے
عَنْ
: سے
مُّنْكَرٍ
: برے کام
فَعَلُوْهُ
: وہ کرتے تھے
لَبِئْسَ
: البتہ برا ہے
مَا كَانُوْا
: جو وہ تھے
يَفْعَلُوْنَ
: کرتے
انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ‘ برا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا تھا
(آیت) ” کَانُواْ لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (79 ” انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ‘ برا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا تھا۔ سرکشی اور ظلم ہر معاشرے میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے کہ ہر معاشرے میں شریر ‘ مفسد اور منحرف لوگ ہوتے ہیں ، یہ زمین کسی بھی وقت شروفساد سے خالی نہیں رہ سکتی ۔ معاشرے کے اندر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی روش نرالی ہوتی ہے لیکن معاشرے کا اجتماعی مزاج شر اور منکر کو برداشت نہیں کرتا اور سرکشی اور ظلم کو معاشرے کے مسلمات قرار پانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لئے سرکشی اور ظلم کا ارتکاب کسی بیدار معاشرے کے اندر بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ اسی طرح زندہ معاشروں کے اندر برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے اور معاشرہ اجتماعی طور پر شر کے خلاف رد عمل ظاہر کم ہوجاتے ہیں معاشرے کے اجتماعی بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور برائی چند افراد کے اندر محدود ہوتی ہے ۔ معاشرہ ان کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے اور انہیں جمنے نہیں دیتا ۔ ایسے حالات میں فحاشی اور منکر شائع نہیں ہوتے ۔ پھیلتے نہیں بلکہ سکڑتے ہیں اور یہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور مزاج کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے اس اجتماعی منظر کو یہاں اس مکروہ شکل میں پیش کرکے اور اس پر تنقید کرکے قرآن ‘ اسلامی نظام جماعت کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ اس کا ایک مضبوط اجتماعی وجود ہونا چاہئے اور اس وجود کے اندر اس قدر قوت دفاع ہونی چاہئے کہ وہ سرکشی اور ظلم کو برداشت ہی نہ کرے ‘ چہ جائیکہ وہ معاشرے کی ایک عام روش ہوجائے ۔ اسلامی معاشرے کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اسے بڑی سختی سے سچائی پر قائم ہونا چاہئے اور باطل کے بارے میں سخت حساس ہونا چاہئے ۔ دین کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ اس امانت کی حفاظت کریں جس کے وہ امین اور محافظ ہیں ۔ اور شر فساد سرکشی اور ظلم کی راہ روکیں اور اس معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ چاہے یہ شر ایسے حکام کی جانب سے ہو جن کا حکومت پر تسلط ہو یا ایسے سرمایہ داروں کی طرف سے ہو جنہوں نے دولت جمع کر کے اثر ورسوخ حاصل کرلیا ہو یا ایسے شرپسندوں کی طرف سے ہو جن کو معاشرے میں ایذا رسانی کی قوت حاصل ہو یا ایسے عوام کی جانب سے ہو جو بےراہ رو ہیں ۔ اسلامی نظام بہرحال خدائی نظام ہے اور اس کے خلاف اٹھنے والے بااثر ہوں یا بےاثر ہوں وہ سب باغی تصور ہوں گے ۔ اسلام اس فرض کی ادائیگی پر بہت ہی زور دیتا ہے ۔ اگر معاشرے کا اجتماعی وجود کسی شر کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تو اسلام پورے معاشرے کو مجرم گردانتا ہے ۔ جس طرح ایک ایک فرد ذمہ دار ہے اسی طرح برائی کے خلاف اٹھنے کی ذمہ داری بھی پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔ امام احمد (رح) نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” جب بنی اسرائیل نے برائیوں کا ارتکاب شروع کیا تو انکے علماء نے انہیں منع کیا ۔ وہ منع نہ ہوئے ‘ ان علماء نے بھی ان معصیت پیشہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا اور انکے ساتھ کھانا پینا شروع کردیا ۔ اللہ نے سب کو باہم ملا دیا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان پر لعنت کی اس لئے کہ یہ لوگ سرکشی کرتے تھے اور ظلم کرتے تھے ۔ یہ بات کرتے وقت رسول ﷺ جو تکیہ سے ٹیک لگا کر لیٹے ہوئے تھے ‘ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :” نہیں ‘ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان کو حق پر سختی سے مجبور کرو گے ۔ “ ابو داؤد نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت نقل کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بنی اسرائیل میں جو پہلا نقص داخل ہوا وہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے ملتا تو کہتا : اے فلاں اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تم کر رہے ہو ‘ اسے چھوڑ دو اس لئے کہ یہ جائز نہیں ہے ۔ پھر دوسرے دن اسے ملتا تو اس کی یہ بری بات اسے اس بات سے نہ روکتی کہ وہ اس کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنے اور اس کا ہمنشین ہو ‘ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے سب کو باہم ملا دیا۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ” ملعون کردیا اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ۔ “ لعن سے فاسقون تک ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ” ہرگز نہیں تمہیں امر بالمعروف کرنا ہوگا اور نہی عن المنکر کرنا ہوگا اور تمہیں ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہوگا اور تمہیں ان کو حق پر کھڑا کرنا ہوگا یا تمہیں انہیں سچائی پر مجبور کرنا ہوگا ۔ “ ‘ صرف امر اور نہی سے مسئلہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اصرار کرنا ہوگا کہ ظالم باز آجائیں ۔ ان کے ساتھ مقاطعہ کرنا ہوگا اور شر کو قوت سے مٹانا ہوگا ۔ فساد معصیت اور زیاتیوں کی راہ روکنی ہوگی ۔ امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ ابو سعید خدری ؓ کی حدیث نقل کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے جس نے بھی منکر کو دیکھا ‘ اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے اسے روکے ‘ اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ “ امام احمد (رح) نے اپنی سند کے ساتھ عدی ابن عمیرہ سے نقل کیا ہے ۔ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ” اللہ خاص گناہگاروں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا ۔ ہاں جب وہ اپنے درمیان برائی کو دیکھیں اور وہ اس کے خلاف اجتجاج کرسکتے ہوں مگر نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ خاص مجرموں کی وجہ سے عام لوگوں کو بھی مبتلائے عذاب کرتے ہیں ۔ “ امام ترمذی نے ابو سعید سے نقل کیا ہے :” حضور ﷺ نے فرمایا ! بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق ہے ۔ ‘ قرآن وسنت کی نصوص اس مفہوم میں بکثرت وارد ہیں ۔ اسلامی معاشرہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں صورت یہ نہ ہو کہ ایک شخص برائی دیکھے اور کہے مجھے اس سے کیا واسطہ ؟ بلکہ اسلامی معاشرے کے اندر برائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ۔ وہ حدود شریعت کے حق میں اٹھ کھڑا ہو اور یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جس پر ایک اسلامی جماعت کی اساس ہے ‘ اس کے سوا ایک مسلم معاشرے کے وجود کا تصور ہی نہ ہوگا ۔ یہ حمیت اور جذبہ قلب میں تب پیدا ہوگا جب انسان میں اللہ کے اوپر پختہ یقین پیدا ہوجائے اور اسے یہ شعور ہو کہ اس ایمان کے تقاضے کیا ہیں ۔ پھر اسے اسلامی نظام زندگی کا صحیح فہم حاصل ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل نظام ہے وہ اس نظریے کو سنجیدگی کے ساتھ لے اور اس کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کردے ۔ اسلامی معاشرہ ہوتا ہی وہ ہے جس میں قانون کا ماخذ شریعت الہی ہو ۔ اس کی اٹھان اسلامی منہاج پر ہو ‘ اور یہ معاشرہ ایک مسلمان کو اس بات کا موقع دیتا ہو کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرسکے ۔ یہ اس کا انفرادی علم نہ ہو کہ وہ اصلاح کی لہریں اٹھائے اور سمندر کے اندر گم ہوجائیں ۔ حالات ایسے نہ ہوں کہ ایک مسلمان سرے سے اصلاح کر ہی نہ سکے ‘ جیسا کہ آج کل عالم اسلام کے اکثر اوطان میں صورت حال ایسی ہے کہ انفرادی طور پر بھی کوئی امر بالعروف کا فریضہ ادا نہیں کرسکتا کیونکہ عالم اسلام کا اجتماعی نظام اس اصول پر قائم ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے معاملات میں دخل ہی نہیں دے سکتا اور اسامی معاشروں میں فسق وفجور اور اللہ کی معصیت کو لوگوں کے شخصی معاملات سمجھتا ہے ۔ کوئی کسی کے کام میں دخل نہیں دے سکتا بلکہ اسلامی معاشروں میں ظلم ‘ مار دھاڑ ‘ سرکشی اور زیادتی اور اس قدر طاقتور ہیں کہ ڈر کے مارے لوگوں کے منہ بالکل بند ہیں۔ زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور جو شخص بھی برائی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔ حقیقی جدوجہد اور بھاری قربانیاں اس امر کے لئے دینی چاہئیں کہ ایک فلاحی اور خیر پسند معاشرہ قائم ہو اور فلاح اور خیر پر مشتمل معاشرہ صرف اسلامی نظام کے زیر سایہ ہی قائم ہو سکتا ہے اور یہ نیک معاشرہ دوسری جزوی اصلاحات اور شخصی بھلائی کے معاملات سے بھی پہلے بذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قائم ہونا چاہئے ۔ اگر پورا معاشرہ گندہ ہو تو کسی فرد کو ستھرا نہیں کہا جاسکتا ۔ جبکہ جاہلیت کی سرکشی غالب ہو اور معاشرے کا اجتماعی ڈھانچہ جاہلیت پر قائم ہو ۔ اس میں قانون شریعت نافذ نہ ہو ‘ تو ایسے حالات میں ابتدائی کام شروع کرنا چاہئے اور نیکی کو جڑوں سے اٹھنا چاہئے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ کسی خطے میں اسلامی سلطنت قائم ہو اور جب یہ اقتدار قائم ہوجائے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام بنیاد سے شروع ہوگا۔ یہ تمام امور پختہ ایمان کے متقاضی ہیں اور اس بات کے محتاج ہیں کہ نظام زندگی کی تبدیلی میں عزم ویقین کا کام شروع کیا جائے ۔ جب ایمان کامل ہوگا تو اللہ پر اعتماد ہوگا ۔ اور جب اللہ پر اعتماد ہوگا تو راستہ جس قدر طویل ہو ‘ پروانہ ہوگا اور انسان اپنے اجر کا امیدوار اللہ سے ہوگا ۔ پھر یہ مومن اس شخص کا انتظار نہیں کرتا جو اس دنیا میں بھی کچھ چاہتا ہے ۔ نہ مومن گمراہ معاشرے کو خاطر میں لاتا ہوگا ۔ پھر یہ مومن اس شخص کا انتظار نہیں کرتا جو اس دنیا میں بھی کچھ چاہتا ہے ۔ نہ مومن گمراہ معاشرے کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ وہ اہل جاہلیت سے کوئی نصرت طلب کرتا ہے ۔ وہ تمام نصوص قرآنی اور احادیث نبوی جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں وارد ہیں وہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلم کے فرائض کا تعین کرتی ہیں ۔ وہ معاشرہ جس نے اللہ کے اقتدار اعلی کے اصول کو تسلیم کر لیا ہوتا ہے جس میں اللہ کی شریعت نافذ ہوچکی ہوتی ہے اگرچہ اس میں حکومت ظالمانہ ہو ‘ اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گناہ پھیل جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق ہے ۔ امام جائز بہرحال امام ہوتا ہے اور جب تک یہ ظالم بادشاہ بھی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرے وہ امام بن ہی نہیں سکتا ۔ جب تک وہ شریعت قائم نہ کرے وہ امام نہیں ہے ۔ وہ تو کچھ اور ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ۔ (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون) ” جس نے اس قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں ۔ جاہلی معاشروں کے اندر ہونے والا بڑا منکر ‘ جس سے تمام منکرات پیدا ہوتے ہیں وہ یہی منکر ہے جس کی رو سے اللہ کے حق حاکمیت کو مسترد کیا ہوا ہوتا ہے اور اللہ کی شریعت کے قانون کو نافذ نہیں کیا جاتا ۔ اب اگر ایسے معاشرے سے واسطہ ہے تو اہل ایمان کو سب سے پہلے اس عظیم منکر کا قلع قمع کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک بنیادی منکر ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ اس کے خلاف نکیر کریں اور دوسرے جزوی منکرات میں وقت ضائع نہ کریں جو اس بڑے منکر کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ۔ وہ تو اس کے فروعات ہیں اور ان کا وجود ہی اس بڑے منکر کا مرہون منت ہے ۔ اس میں کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ ہم اپنی قوتیں ان جزوی منکرات کے خلاف جدوجہد میں ضائع کریں ۔ بہت سے نیک فطرت اور صالح لوگ ان جزوی منکرات کے خلاف جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ یہ منکرات اس منکر اکبر کی پیداوار ہیں ۔ وہ منکر یہ ہے کہ لوگ اللہ کے حقوق پر دست درازی کرکے اللہ کے حق حاکمیت کو سلب کرتے ہیں ‘ اور اللہ کی شریعت کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں اپنی قوتیں ان جزوی منکرات کے ازالے میں ضائع نہیں کرنا چاہئیں ‘ جو اس منکراول یعنی طاغوتی اقتدار اعلی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک اور بحث نہیں ہے کہ یہ اسی کا نتیجہ ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک طاغوتی معاشرے میں جب ہم لوگوں کو نہی عن المنکر کرتے ہوئے کہیں کہ یہ برا کام ہے ایسا مت کرو ‘ تو ہمارے سامنے معیار اور پیمانہ کیا ہوگا ۔ مثلا ایک اسلامی آدمی کہے کہ یہ منکر ہے اور ادھر ادھر سے دس افراد اٹھ کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں گے ہر گز نہیں ‘ یہ تو برا کام نہیں ہے ۔ ہاں پرانے زمانے کی باتیں کرتے ہوئے ‘ یہ بات کبھی ایسی تھی ۔ اب دنیا بدل گئی ہے ۔ معاشرہ ترقی کر گیا ہے اور اب اقدار بدل گئی ہیں ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ایک پیمانہ ہو اور تمام لوگ اچھائی اور برائی کو اس کے مطابق جانچیں ۔ اب یہ پیمانہ اور یہ اقدار ہم کہاں سے اخذ کریں ۔ یہ میزان اور معیار کہاں سے لائیں ؟ کیا لوگوں کے اندازے ‘ لوگ کے رواج ‘ ان کی خواہشات پیمانہ حسن وقبح قرار پائیں ۔ یہ چیزیں تو بدلتی رہتی ہیں ۔ اس طرح تو ہم ایک ایسے صحرا میں داخل ہوجائیں گے جس میں کوئی راہنما نہ ہوگا اور ایسے سمندر میں داخل ہوں گے جو بےکنار ہوگا ۔ لہذا میزان عدل کا قیام پہلے ضروری ہے ۔ اس میزان اور پیمانے کو مستقل ہونا چاہئے جو لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلتا ہوا نہ ہو ۔ اور یہ ہے اللہ کا ترازو ‘ مستقل اور دائمی ۔ اب اگر کوئی معاشرہ سرے سے اللہ کے میزان ہی کو تسلیم نہیں کرتا تو ۔۔۔۔۔ جب لوگ اپنے فیصلے شریعت کے مطابق ہی نہیں کرتے تو ۔۔۔۔ بلکہ صورت یہ ہو کہ جو شخص اسلامی نظام کا داعی ہو ‘ اس پر ظلم ہو رہا ہو ‘ اس سے انتقام لیا جا رہا ہو ‘ اس کے ساتھ تمسخر اور مزاح ہو رہا ہو تو ۔۔۔۔۔ کیا ایسے حالات میں جزوی اصلاح کی جدوجہد ضائع نہ ہوگی محض مذاق ہو کر نہ رہ جائے گی ‘ کیا فائدہ ہوگا کہ تم ایسے معاشرے میں اٹھو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو اور بعض جزئیات کی اصلاح کے لئے انجمن بنا کر جدوجہد شروع کر دو جن کے تولنے کے بارے میں لوگوں کے پیمانے اور میزان مختلف ہوں جن کے اندر مختلف الرائے ہوں ‘ ہر شخص اپنی خواہشات کے مطابق رہ لینے میں آزاد ہو ۔ لہذا ضروری ہے کہ اصولا ایک جج پر اتفاق ہو ‘ ایک پیمانے پر اتفاق ہو ‘ ایک مقتدر اعلی اور حاکم پر اتفاق ہو ‘ اس فورم پر اتفاق ہو جو فیصلہ کرے گا اور اختلاف رائے کی صورت میں اس کا جو فیصلہ ہو اور اسے تسلیم کیا جائے ۔ یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے معروف اکبر کو قائم کیا جائے اور معروف اکبر یہ ہے کہ اللہ کے حق حاکمیت کو تسلیم کرایا جائے اور اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی جدوجہد کی جائے ، سب سے پہلے نہی عن المنکر الاکبر کیا جائے اور منکر اکبر یہ ہے کہ اللہ کے اقتدار اعلی کا انکار ہو رہا ہو ۔ اللہ کی شریعت متروک ہو ۔ اس اساس کو استوار کر کے ہی صالح معاشرے کی تعمیر ممکن ہے ۔ اس کے بعد پھر ہر طرف سے اصلاح معاشرہ کی کوششیں شروع کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام کوششوں کو مجتمع کرلیا جائے ‘ ان ایک سمت میں لگا دیا جائے اور اس اساس کو قائم کیا جائے یعنی اسلامی نظام حکومت ۔ بعض اوقات انسان دیکھتا ہے کہ بہت ہی اچھے لوگ ‘ نہایت ہی عظیم جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور وہ امر بالعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔ لیکن فروعی منکرات میں ۔ جبکہ وہ اساس جس پر اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے اور جس کے اوپر امر بالمعروف ونہی عن المنکر قائم ہوتا ہے وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ کیا فائدہ ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں لوگوں کو زنا سے روکیں جو زنا کو سرے سے جرم ہی تصور نہیں کرتا ۔ صرف جبری مباشرت کو جرم تصور کرتا ہے ‘ اور جبری مباشرت میں بھی شریعت کے مطابق سزا نہیں دیتا اس لئے کہ وہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتا ۔ نہ وہ شریعت کو نظام زندگی تسلیم کرتا ہے ۔ کیا فائدہ ہے کہ ہم لوگوں کو اسلام کے خلاف لعن طعن کرنے سے روکیں ایک ایسے معاشرے میں جس میں اللہ کی حکومت کا اعتراف نہ ہو ‘ جس میں اللہ کی بندگی نہ ہوتی ہو ‘ بلکہ اس میں انسانوں کو رب بنایا گیا ہو ۔ انسان لوگوں کے لئے پارلیمنٹ سے قانون نازل کرتے ہوں ‘ لوگوں کے لئے نظام زندگی اور زندگی کے طور طریقے وضع کرتے ہوں ‘ ان کے لئے اقدار حیات اور حسن وقبیح کے پیمانے وضع کرتے ہوں اور گالیاں دینے والا جسے گالیاں دی جارہی ہیں وہ دونوں اللہ کے دین سے خارج ہوں ۔ حالات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فائدہ کیا ہوگا ؟ صغائر تو صغائر میں کہتا ہوں ان کبائر سے روکنے کا فائدہ کیا ہوگا ؟ جبکہ اکبر الکبائر سے کوئی کسی کو نہ روکتا ہو ‘ کفر عام ہو اور اللہ کی شریعت اور نظام زندگی متروک ہو ۔ یہ معاملہ اس سے بہت برا اور بہت اہم ہے ۔ یہ نیک لوگ جو سعی اور جہد کر رہے ہیں اس سے یہ بہت ہی بڑا ہے ۔ یہ ایسا مرحلہ نہیں ہے جس کے اندر ہم فروعی معاملات اور جزوی اصلاحات کے اندر اپنی قوتیں ضائع کریں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر جزوی معاملات نہ ہوں بڑے معاملات نہ ہوں اور جزوی اصلاحات کے اندر اپنی قوتیں ضائع کریں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر جزوی معاملات نہ ہوں بڑے معاملات ہوں بلکہ حدود اللہ کیوں نہ ہوں لیکن حدود اللہ بھی تب قائم ہوں گی کہ ہم اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کا اعتراف کرلیں اور یہ مسئلہ طے ہوجائے کہ اقتدار اعلی اللہ کا ہوگا ۔ اللہ کے سوا کسی کو حق حاکمیت حاصل نہ ہوگا ۔ جب تک یہ اعتراف حقیقت واقعیہ نہیں بن جاتا ‘ جب تک شریعت کو ماخذ قانون قرار نہیں دے دیا جاتا ‘ جب تک اللہ کی ربوبیت اور اللہ کی حاکمیت حکومت اور قوت کے ماخذ نہ بن جائیں تو فروعات کے اندر تمام کوششیں اور تمام انفرادی مساعی ضائع ہوں گی اور ہوتی رہیں گی ۔ مناسب یہی ہے کہ ہم سب سے پہلے منکراکبر کے خلاف جہدوجہد شروع کردیں اور تمام دوسرے منکرات کو بعد میں لیں۔ حضور ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ جو بھی تم میں سے کسی منکر کو پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو ‘ دل سے برا جانے اور یہ ضعیف الایمان کا درجہ ہے ۔ اہل دین پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ منکر کو ہاتھ سے نہیں روک سکتے ۔ وہ زبان وقلم سے بھی منکر کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتے ۔ اس کے بعد اضعف الایمان کا درجہ ہی رہ جاتا ہے ۔ دل سے برا جاننا ۔ دل کی دنیا میں تو کوئی مداخلت کر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے دل کی دنیا والے ہمیشہ اضعف الایمان کے درجے میں ہوئے ہیں ‘ یعنی برائی کو دل سے برا جاننا ۔ اگر وہ سچے مسلمان ہوں اور دل سے برائی کو برا سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی منفی موقف نہیں ہے جو کوئی برائی کے خلاف اختیار کرے گا ۔ جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے ۔ حضور ﷺ نے جو انداز بیان اختیار کیا ہے وہ مثبت انداز ہے ۔ مثلا دل سے برائی کو برا سمجھتا ہی دل کی جانب سے ایک مثبت کام ہے ۔ مثلا دل اسے برا سمجھتا ہے ‘ اس سے نفرت کرتا ہے اور منکر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ۔ اور دل و دماغ ایسی صورت حال کو جائز قانونی صورت نہیں سمجھتے ۔ اور جب دل و دماغ کسی صورت حال کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ بھی درحقیقت اس صورت حالات کو ختم کرنے کی طرف ایک مثبت اقدام ہوتا ہے ۔ دل میں یہ عزم ہوتا ہے کہ جب بھی فرص ملے گی اس منکر صورت حال کی جگہ معروف صورت حال کو قائم کردیا جائے اور ایسا شخص انتظار میں بیٹھا ہوگا کہ کس وقت وہ منکر پر حملہ آور ہو اور یہ تمام کام ایجابی اور مثبت کام ہیں اگرچہ یہ ایک ضعیف درجہ ہے ۔ کسی برے وقت میں ایک مسلمان کے لئے یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ اس درجے پر قائم رہے ۔ کم ازکم وہ منکر کے سامنے ہتھیار تو نہیں ڈالتا کہ منکر ایک واقعہ ہے اسے مان ہی لو۔ اور بعض اوقات جب احساس زیاں ختم ہوجاتا ہے تو انسا اضعف الایمان کے مقام سے بھی گر جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ بنی اسرائیل کی طرح پورا معاشرہ لعنت کا مستحق ہوجاتا ہے اور اللہ کا یہ قول ان پر صادق آتا ہے ۔ ” بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا ۔ اب اس سے آگے بھی بات بنی اسرائیل ہی کی چلتی ہے اور اس پر ہمارے اس پارے کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ حضور ﷺ کے دور میں ان کے جو شب وروز تھے وہ بتائے جاتے ہیں ۔ کم وبیش ہر دور میں ان کے حالات ایسے ہی رہے ہیں ۔ ان لوگوں نے ہمیشہ اہل اسلام اور جماعت مسلمہ کے خلاف کفار اور بت پرستوں کے ساتھ ایکا کیا اور اس کا سبب یہ ہے ‘ باوجود اس کے کہ وہ اہل کتاب ہیں ‘ وہ اللہ اور نبی ﷺ پر ایمان نہیں لائے ۔ چونکہ وہ اس آخری دین میں داخل نہیں ہوئے وہ مومن نہیں ہیں ۔ اگر یہ مومن ہوتے تو کافروں کے ساتھ تعلق موالات قائم نہ کرتے ۔
Top