Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 80
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
تَرٰى : آپ دیکھیں گے كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے يَتَوَلَّوْنَ : دوستی کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا قَدَّمَتْ : جو آگے بھیجا لَهُمْ : اپنے لیے اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں اَنْ : کہ سَخِطَ : غضب ناک ہوا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَ : اور فِي الْعَذَابِ : عذاب میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے
آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں ۔ یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کیلئے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔
(آیت) ” تَرَی کَثِیْراً مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہ والنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَاء وَلَـکِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ (81) ” آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں ۔ یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کیلئے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ اگر فی الواقعہ یہ لوگ اللہ اور پیغمبر اور اس چیز کو ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے بیشتر تو خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔ ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتی ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے ۔ “ یہ بات جس طرح حضور اکرم ﷺ کے دور میں یہودیوں پر منطبق ہوتی تھی اسی طرح آج کے یہودیوں پر بھی منطبق ہے اور کل بھی ہوگی ۔ ہر دور میں اہل کتاب یہودی اور عیسائی اور جو دنیا کے اطراف واکناف میں پھیلے ہوئے ہیں ‘ ایسے ہی رہیں گے ۔ اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہم قرآن کریم کے اسرار و رموز پر غور کریں ۔ قرآن کریم میں امت مسلمہ کے لئے عجیب ہدایات موجود ہیں اور اسلامی تحریک کو چاہئے کہ وہ ہر وقت قرآن سے ہدایات اور پالیسیاں اخذ کرے ۔ یہودی مشرکین کے ساتھ اس دور میں تعلق موالات قائم کئے ہوئے تھے ۔ ان کو مسلمانوں کے خلاف جمع کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ کفار اور مشرکین ان مسلمانوں ان مسلمانوں سے زیادہ سیدھی راہ پر ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے ‘ اور اس کا اظہار غزوہ احزاب میں اچھی طرح ہوگیا تھا ۔ اس غزوہ سے پہلے اور بعد میں بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن رہے اور آج تک وہ اسی موقف پر قائم ہیں ۔ فلسطین میں اسرائیل کا قیام ہی ان جدید ملحدین اور کفار کی مساعی سے ہوا ہے ۔ رہے عیسائی تو ان کا حال یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا معاملہ پیش آتا ہے تو عیسائی مشرکین کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ بت پرستوں کے حامی و مددگار ہوتے ہیں ۔ جب بھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان کوئی معرکہ پیش آیا ۔ ان لوگوں کا دلی بغض اسلام کے خلاف کھل کر سامنے آگیا اور اب تک قائم ودائم ہے ۔ اگرچہ معاملہ ان لوگوں کا ہو جو نام نہاد مسلمان ہوں۔ کیا سچ کہا اللہ تعالیٰ نے (تری کثیرا منھم یتولون الذین کفروا “۔ (5 : 80) ” تم ان سے بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں ۔ “ (آیت) ” لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ (80) ” یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کیلئے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ یہ وہ کمائی ہے جو انہوں نے کی ہے اور وہ اللہ کا غضب ہے جو انکے لئے جمع ہو رہا ہے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دائما جہنم میں رہیں گے اور یہ کس قدر برا انجام ہے ۔ کس قدر برا پس انداز ہے جو یہ کر رہے ہیں ۔ کس قدر تلخ پھل ہے ۔ کفار کے ساتھ تعلق موالات کا ہے یہ پھل ! کیا ہم مسلمان اللہ کی اس بات کو نہیں سن رہے ؟ کیا ہمیں باز نہیں آنا چاہئے ان اقدامات سے جو ہم مسلسل کر رہے ہیں اور اللہ نے ان کی اجازت نہیں دی ہے ۔ پھر بھی ہم مسلمان اہل کتاب دشمنوں کے ساتھ تعلق موالات کے بارے میں سوچتے ہی یا متحدہ محاذ بناتے ہیں ہیں ۔ آخر اس کا سبب کا کیا ہے ؟ سبب تو یہی ہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان نہیں ہے ۔
Top