Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ
: تم ضرور پاؤگے
اَشَدَّ
: سب سے زیادہ
النَّاسِ
: لوگ
عَدَاوَةً
: دشمنی
لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے
الْيَھُوْدَ
: یہود
وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا
: اور جن لوگوں نے شرک کیا
وَلَتَجِدَنَّ
: اور البتہ ضرور پاؤگے
اَقْرَبَهُمْ
: سب سے زیادہ قریب
مَّوَدَّةً
: دوستی
لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان)
الَّذِيْنَ قَالُوْٓا
: جن لوگوں نے کہا
اِنَّا
: ہم
نَصٰرٰى
: نصاری
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّ
: اس لیے کہ
مِنْهُمْ
: ان سے
قِسِّيْسِيْنَ
: عالم
وَرُهْبَانًا
: اور درویش
وَّاَنَّهُمْ
: اور یہ کہ وہ
لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ
: تکبر نہیں کرتے
تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب تران لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے ۔
سورة المائدہ کا آخری حصہ ایک نظر میں : اس پارے میں سورة مائدہ کا بقیہ حصہ ہے ‘ اس کے ابتدائی حصوں کے بارے میں تفصیلات پارہ ششم میں گزر چکی ہیں ۔ نیز اس میں سورة انعام کے آغاز سے لے کر آیت (آیت) ” ولو اننانزلنا الیھم الملئکۃ) تک کا حصہ بھی مذکور ہے جس کے بارے میں تفصیلی بحث سورة انعام کے آغاز میں ہوگی ۔ یہاں صرف اس حصے پر تبصرہ کیا جا رہا ہے جو سورة مائدہ سے رہ گیا تھا ۔ پارہ ششم میں اس سورة کے تعارف میں ہم نے کہا تھا : ” اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن کریم حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر اس لئے نازل فرمایا کہ اس کے ذریعے وہ ایک امت کو برپا کریں ‘ وہ امت ایک مملکت کی بنیاد رکھے ‘ ایک معاشرے کو منظم کرے اور یہ مملکت لوگوں کے ضمیر ‘ ان کے اخلاق سنوارے اور ان کی عقلی تربیت کرے ۔ اس قرآن کے ذریعے اس معاشرے کے اجتماعی تعلقات کے حدود وقیود وضع ہوں اور اس مملکت کے اندر لوگوں کے تعلقات بھی منضبط ہوں اور پھر دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اس مملکت کے تعلقات استوار ہوں ۔ اس امت کے تعلقات دوسری امتوں اور ملتوں کے ساتھ قائم ہوں ۔ قرآن اس تمام پوری امت کو ایک مضبوط رسی کے اندر باندھ دے ‘ اس کے متفرق اجزاء کو جمع کر دے ‘ اس کے فرقوں کو جمع کر دے اور اسے ایک مضبوط محور کے اندر پختہ کر دے ‘ اسے اللہ کی اس بادشاہت کے اندر لے آئے اور اس کا رخ ایک سمت میں ہوجائے ۔ یہ ہے دین اسلام جیسا کہ درحقیقت وہ اللہ کے نزدیک ایسا ہی ہے اور جسے مسلمانوں نے ایسا ہی سمجھا جب وہ صحیح مسلمان ہوا کرتے تھے ۔ جیسا کہ سابقہ تین طویل سورتوں میں ہم نے دیکھا اس سورة میں بھی مختلف موضوعات کو لیا گیا ہے ۔ ان تمام موضوعات کے درمیان قدر مشترک کیا چیز ہے ؟ وہی جس کے حصول کے لئے اس دنیا میں پیغام اسلام کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ یعنی ایک امت کی تشکیل ‘ ایک مملکت کا قیام اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کا قیام ۔ اس معاشرے کا قیام بھی ایک خاص نظریہ کے مطابق ایک خاص تصور حیات کی روشنی میں اور بالکل جدید انداز میں مطلوب تھا ۔ اس معاشرے کی روح عقیدہ توحید تھی ۔ عقیدہ توحید اس کا پہلا اصول اقرار پایا اور عقیدہ توحید کے اہم عناصر یہ ہیں کہ الہ اور حاکم فقط اللہ ہے ‘ وہی اس کائنات کا تھامنے والا ہے ۔ اسی کا حکم چلتا ہے ‘ زندگی گزارنے کے طریقے صرف اسی سے اخذ کئے جاسکتے ہیں ‘ وہی شارع ہے ‘ وہی زندگی کی اعلی قدریں متعین کرنے کا حق رکھتا ہے اور حس وقبح کے پیمانے صرف وہی متعین کرسکتا ہے ۔ “ ” اس سورة میں اعتقادی افکار کی توضیح کی گی ہے اور اسے بت پرستانہ خرافات اور انحرافات سے پاک کیا گیا ہے ۔ نیز اہل کتاب نے جو تحریفات کیں انہیں بھی دور کیا گیا ہے اور جماعت مسلمہ کے سامنے خود اس کا اپنا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ کہ اس کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے ‘ اور اس کے راستے میں جو کانٹے ہیں اور جو جال بچھے ہوئے ہیں ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے ۔ کہاں کہاں اس دین کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور کہاں کہاں پھسلن ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ‘ اس سورة میں عبادات اسلام اور شعائر اسلام بھی بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ایک مسلم کی روح پاک ہوجاتی ہے اور اس کا رابطہ اس کے رب کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے ۔ نیز اعتقادات و عبادات کے ساتھ ساتھ اس میں اجتماعی روابط ‘ حکومت کے لئے قانون سازی اور پھر دوسری حکومتوں کے ساتھ اسلامی حکومت کے تعلقات کے اصول بھی بتائے گئے ہیں ۔ نیز اسلامی معاشرے میں حلال و حرام کا بھی ذکر ہے کہ مسلمانوں کے لئے کن چیزوں کا کھانا حرام ہے کن مشروبات کا پینا حرام ہے اور کن عورتوں سے نکاح حرام ہے ۔ کیا کیا اعمال برے ہیں اور کیا کیا طرز ہائے عمل غیر اسلامی ہیں۔ غرضیکہ یہ سورة ایک مکمل گٹھڑی ہے جس کے اندر ‘ یہ تمام امور ایک ہی جگہ آگئے ہیں اور یہ گٹھڑی مجموعہ دین ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ دین ان تمام امور پر مشتمل ہے ۔ “ اس سورة کی نوعیت اور اس کے مشمولات وموضوعات کی اس عام تصویر کشی کی روشنی میں ہم اس کے اس بقیہ حصے کا بھی بڑی خوبی سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ چناچہ اس حصے میں بھی وہ مباحث اور موضوعات یا ان کے ساتھ ملتی جلتی بحثیں موجود ہیں جن کی تفصیلات پارہ ششم میں گزر چکی ہیں ۔ امت مسلمہ کی مخالفت کرنے والے عناصر بعض دوسرے کیمپوں کا تعارف ان مباحث میں کرایا گیا ہے ‘ جن کے بارے میں وہاں اشارات رہ گئے تھے ۔ یہ بات نہایت ہی تعجب خیز ہے کہ یہ وہی کیمپ ہیں جو ہمیشہ تحریک اسلامی یا احیائے اسلام کی تحریکات کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ اگرچہ اس تحریک کے دشمنوں کے رنگ مختلف ہیں لیکن اصل کینہ ایک ہی ہے جو ان کے دلوں میں جاگزین ہے۔ نیزان میں ایک نہایت ہی قلیل تعداد ہدایت کے طالب لوگوں بھی ہے ۔ مثلا بعض عیسائی گروہ ‘ جو ہدایت قبول کر رہے ہیں اور جب اس وقت حضور کی جانب سے انہوں نے یہ دعوت پر سوز سنی تو اس ان کے دل پگھل گئے اور انہوں نے لبیک کہہ کر اپنے آپ کو ثواب آخرت اور جنت کا مستحق کرلیا ۔ ان باقی مباحث میں سے ایک بحث یہ بھی ہے کہ حلال و حرام کے موضوع پر قانون سازی کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور اہل ایمان کے لئے سخت ممانعت ہے کہ وہ اس موضوع پر اللہ تعالیٰ کے حق اقتدار اور قانون سازی پر دست درازی کریں ۔ اہل ایمان کو خدا کا خوف کرنا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ ایمان وکفر کا ہے اور انہوں نے ایمان لانے کا اعلان تو کر ہی دیا ہے ۔ اس کے علاوہ قسموں ‘ جوئے ‘ شراب ‘ پانسوں ‘ بتوں اور حالت احرام کے اندر شکار جیسے قانون اور فقہی احکام ‘ خانہ کعبہ ‘ حرام مہینوں ‘ ہدی اور وہ جانور جن کے گلوں میں پٹے ڈالے ہوئے ہوتے ہیں بطور علامت قربانی کی بابت مسائل نیز اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ شرعی احکام اور نبی کریم ﷺ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کی پیروی کی تاکید اور خدا اور رسول کی مخالفت سے ڈرانے کے مضامین بھی دیئے گئے ہیں اور تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ کے عذاب اور اس کے انتقام سے ڈرو اور ہر وقت اس ذات باری کو پیش نظر رکھو جس کے پاس تم نے لوٹ کر جانا ہے ۔ اس کے بعد جماعت مسلمہ کی تربیت کے بعض پہلو بھی لئے گئے ہیں ‘ وہ اقدار جن کے مطابق اس کے پوری دنیا کے ساتھ معاملہ کرنا ہے ‘ مثلا یہ کہ خبیث چیزوں کی کثرت سے انہیں متاثر نہ ہونا چاہئے ۔ انہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پاک اور طبیب چیزیں ہمیشہ کم ہوتی ہیں ۔ نیز ان اقدار اور آداب میں سے اہم ادب یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ سے ہر بات کے بارے میں نہ پوچھا جائے اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی بات کو مجمل چھوڑ دیا ہے تو اہل ایمان کو اس کے بارے میں پوچھنے گریز کرنا چاہئے ۔ اس حصے میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ جاہلیت کی عادات اور رسوم کو باطل قرار دے دیا گیا ہے ۔ بت پرستی کی ممانعت کردی گئی ہے اور بعض قسم کے جانوروں اور ذبیحوں کے حوالے سے جو شرک اور بت پرستی باقی ہے اسے ختم ہونا چاہئے ۔ مثلا بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ ‘ اور حام وغیرہ اور یہ کہ حلال و حرام کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ پوری زندگی کے لئے قانون سازی کا اختیار اللہ کو حاصل ہے اور کوئی قانون سازی لوگوں کے رواج اور لوگوں کی اصلاحات کے مطابق نہیں ہو سکتی ۔ یہ کام صرف اللہ کا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے ۔ اس کے افراد کے اندر باہم مکمل تکافل ہو اور وہ دوسرے لوگوں سے مکمل طور پر جدا ہو اور کٹے ہوئے ہوں ۔ اسے اپنی مخصوص ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہئے اور دوسرے اہل باطل کی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بری الذمہ رکھنا چاہئے ۔ اور اپنے انجام اور دوسرے لوگوں کے انجام کو بھی مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردینا چاہئے ‘ جس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں ہوگا ۔ اسلامی قانون سازی کرتے ہوئے مضمون کا خاتمہ اس امر پر ہوتا ہے کہ اگر کوئی سفر میں ہو اور اپنے خاندان سے دور ہو اور وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس پر شہادت مقرر کرے ۔ اس طرح نظر آتا ہے کہ یہ قانون سازی اس لئے ضروری تھی کہ مسلمان جہاد فی سبیل اللہ اور تلاش وسائل اور فضل اللہ کے لئے باہر نکلیں گے ۔ لیکن اس قانون سازی میں بھی تمام معاملات کو خوف آخرت کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے ۔ باقی سورة میں اہل کتاب میں سے نصاری کے عقائد کے بعض دوسرے پہلوؤں کو لیا گیا ہے اور اس مقصد کے لئے حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کے بعض گوشوں کو لایا گیا ہے ۔ اور ان معجزات کو بیان کیا گیا ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ظاہر ہوئے ۔ حواریوں نے جو کھانا طلب کیا تھا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کی الوہیت کے مسائل اور یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہر گز ایسے دعاوی نہیں کئے تھے ‘ اور قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر کی جھلکی بھی دکھائی گئی ہے جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا معاملہ تمام انسانیت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ اللہ رب العالمین کے لئے پیش ہوتا ہے اور اس خوفناک منظر میں تمام اقوام رسل موجود ہیں۔ سورة کا خاتمہ اس موقف پر ہوتا ہے کہ زمین وآسمانوں کا اصل مالک اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی قید وبند نہیں ہے ۔ (آیت) ” وللہ ملک السموت والارض وما فیھن واللہ علی کل شیء قدیر) ” زمین و آسمانوں اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ “ سورة کے اس بقیہ حصے کے اس سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طریق کار اور اسی منہاج بحث کے مطابق اس کے مباحث آگے بڑھ رہے ہیں ‘ جس کی طرف ہم نے محولہ بالااقتباسات میں اشارہ کیا ہے ۔ اب ہم بقیہ اسباق پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔ درس نمبر 52 ایک نظر میں : یہ سبق یہود ونصاری اور مشرکین کے بارے میں ہونے والی طویل گفتگو ہی کا حصہ ہے ‘ جو پارہ ششم میں چل رہی تھی اور جس میں یہ بتانا مقصود تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور امت مسلمہ کے بارے میں ان لوگوں کا موقف کیا ہے ۔ یہ بات چیت اس سورة میں نصف سے بھی زیادہ حصے پر مشتمل ہے ۔ اس بات چیت میں وعموما یہود ونصاری دونوں کے نظریاتی فساد سے پردہ اٹھایا گیا ہے ‘ اور خصوصا یہودیوں کی بری نیت اور برے کردار سے بحث کی گئی ہے ۔ یہ کردار ان کا خود ان کے انبیائے سابقہ کے ساتھ رہا۔ حضرت نبی ﷺ کے ساتھ بھی رہا اور وہ اس پورے عرصہ میں اہل اسلام کے بجائے مشرکین کے معاون و مددگار رہے ۔ وہاں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہود ونصاری جن عقائد تک پہنچے ہوئے ہیں وہ صراحۃ کفریہ عقائد ہیں اس لئے کہ انہوں نے تورات ‘ انجیل اور قرآن کریم تینوں میں آئے ہوئے عقائد چھوڑ دیئے ہیں ‘ جب تک وہ تورات ‘ انجیل اور اب نازل ہونے والے کلام الہی کو قائم نہ کریں اس وقت تک ان کی کوئی دینی حیثیت نہ ہوگی ۔ اب بات کا رخ حضور اکرم ﷺ کی طرف ہوجاتا ہے کہ آپ کی طرف جو کچھ بھی نازل ہوتا ہے آپ اسے یہودی ونصاری اور مشرکین سب تک پہنچا دیں ‘ اس لئے کہ ان سب لوگوں نے دین الہی کو چھوڑ دیا ہے اور اب ان سب کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور امت مسلمہ کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ اور اہل ایمان ہی کو دوست اور ولی بنائے اور یہود ونصاری اور مشرکین کے ساتھ تعلق موالات قائم نہ کرے کیونکہ یہ لوگ خود ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ یہودی تو اہل کفر اور اہل شرک کے ساتھ بھی دوستی کا تعلق قائم کئے ہوئے ہیں حالانکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ذریعہ ان پر لعنت ہوچکی ہے ۔ یہ تو تھا سابقہ مضمون اب یہاں حضور ﷺ کے حوالے سے ان سب گروہوں نے جو موقف اختار کر رکھا ہے وہ بیان کیا جاتا ہے اور امت مسلمہ کے ساتھ انہوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ اور آخرت میں ان کا جو انجام ہونے والا ہے وہ بیان کیا جاتا ہے ۔ نزول قرآن کے وقت امت مسلمہ قرآن کریم کو یوں لیتی تھی کہ وہ اپنے تمام منصوبے ‘ اپنی تمام سرگرمیوں اور لوگوں کے متعلق اپنے تمام مواقف اور رویے اس کے مطابق ڈھالتی چلی جاتی تھی اور حالت یہ تھی کہ قرآن کریم ‘ ان کا ہادی ‘ محرک ‘ مرشد اور لیڈر تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر معرکے میں وہ غالب رہتی اور اس کے مخالف مغلوب رہتے ‘ اس لئے کہ ہر معرکے میں براہ راست وہ ربانی کمانڈ میں لڑتی تھی ‘ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ امت کی قیادت عالم بالا کی ربانی ہدایات کے مطابق فرماتے تھے ۔ کیا وہ ربانی ارشادات ہمارے سامنے موجود نہیں ؟ کیا وہ کتاب کریم جس کے اندر وہ ہدایات رقم ہیں موجود نہیں ؟ موجود ہے اور آج جو لوگ دعوت اسلامی دے رہے ہیں یا کل جو لوگ یہ کام کریں گے ان کو چاہئے کہ وہ ان ہدایات اور فیصلوں کو اس طرح لیں جس طرح کہ گویا یہ ہدایات ابھی نازل ہو رہی ہیں اور وہ تمام لوگوں کے مقابلے میں اپنا موقف ان ہدایات کی روشنی میں متعین کر رہے ہیں ۔ تمام مذاہب ومسالک اور تمام آراء اور نظریات اور تمام طور طریقوں اور تمام اقدار اور پیمانوں کے مقابلے میں ان کا موقف ان کی روشنی میں متعین ہو رہا ہے اور یہ کام آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے اور کل بھی ۔ (آیت) ” لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا) ” تم اہل ایمان کی عدوات میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے ۔ “ عربیت کے اعتبار سے اس آیت کے مخاطب رسول اللہ ﷺ بھی ہو سکتے ہیں ‘ اور عام اہل ایمان بھی ‘ اس لئے کہ یہ ایک ایسی حقیقت اور ایسا مفہوم ہے جو سب کو بچشم سراب بھی نظر آتا ہے اور یہ انداز کلام ایسا ہے کہ اسالیب عربی کے اندر اس کے نظائر موجود ہیں خواہ مخاطب حضور ہوں یا ایک عام مسلمان دونوں صورتوں میں آیت کے ظاہری معنی بالکل واضح ہیں ۔ البتہ جو نکتہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس عبادت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے بھی پہلے یہودیوں کو لیا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مشرکین کے مقابلے میں یہودیوں کی اسلام دشمنی زیادہ ہے اور تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے یہ بات بھی بالکل واضح ہے ‘ اگر غور کیا جائے ۔ یہ بات درست ہے کہ گرائمر کے قواعد کے مطابق واو سے جو عطف ہوتا ہے ‘ اس میں تعاقب یا ترتیب کا لحاظ نہیں ہوتا اور معطوف اور معطوف علیہ حکم میں برابر ہوتے ہیں ۔ لیکن یہودیوں کو مشرکین سے پہلے اس لئے لایا گیا ہے کہ وہ اصلا اہل کتاب تھے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ گمان کرے کہ وہ مسلم دشمنی میں شاید مشرکین سے کم ہوں گے ‘ اس لئے یہاں قواعد نحو سے ہٹ کر اس تقدیم سے یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ یہ لوگ مسلم دشمنی میں کم نہیں ہیں ۔ اگرچہ قواعد نحو میں اس تقدیم سے یہ تاثر نہیں ملتا لیکن اس بات کا احتمال ضرور ہے کہ یہ اشارہ مقصود ہو کہ یہ لوگ مشرکین سے بھی اسلام دشمنی میں شدید تر ہیں۔ آغاز اسلام سے آج تک جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں اسلام کے حوالے سے یہودیوں کے طرز عمل پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے مشرکین عالم کے مقابلے میں یہودی اسلام دشمنی میں بہت ہی آگے رہے ہیں ۔ جونہی مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی ‘ یہودی اس کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور جب امت مسلمہ ایک امت بنی ‘ انہوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں ۔ قرآن کریم نے ان کی ان سازشوں اور مکاریوں کے بارے میں نہایت ہی واضح فیصلے کئے اور اشارات دیئے جو اس معرکہ آرائی کا ایک واضح ثبوت ہیں جو یہودیوں نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف اور امت مسلمہ کے خلاف اس کی طویل تاریخ میں برپا کئے رکھی اور جس کے شعلے گذشتہ چودہ سو سال میں کسی بھی وقت فرد نہیں ہوئے اور جس کی گرمی آج بھی چاردانگ عالم میں ہر سو محسوس کی جارہی ہے ۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ امن اور معاہدہ پر امن بقائے باہمی (Co-existAnce) کیا ۔ آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی جوان کے پاس موجود کتاب تورات کی تصدیق کرتا تھا لیکن یہودیوں نے اس عہد کو وفا نہ کیا ۔ انہوں نے وہی رویہ اختیار کیا جو انہوں نے اس سے پہلے اپنے اللہ اپنے نبیوں کے ساتھ اختیار کیا تھا اور جس کی وجہ سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ تبصرہ کیا ۔ (آیت) ” ولقد انزلنا الیک ایت بینت وما یکفربھا الا الفسقون او کلما عھدوا عھدا نبذہ فریق منھم بل اکثرھم لا یومنون ولما جاء ھم رسول من عند اللہ مصدق لما معھم نبذ فریق من الذین اوتوا الکتاب کتاب اللہ وراء ظھورھم کانھم لا یعلمون) ” ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں ۔ کیا ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا ‘ تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور بالائے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں ‘ جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے ۔ اور جب ان کے پاس ‘ اللہ کی طرف سے کوئی رسول ‘ اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ‘ تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ “ جس دن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ‘ اوس اور خزرج اسلام پر جمع ہوئے ‘ یہودی مسلمانوں کے دلی دشمن بن گئے ‘ اس لئے کہ اسلام کی وجہ سے ان قبائل کے اندر یہودیوں کا عمل دخل یکسر ختم ہوگیا ۔ اس مشکل اور عظیم اتحاد کی وجہ سے ہی امت مسلمہ کی قیادت وجود میں آگئی اور اس کی زمام اختیار حضرت محمد ﷺ نے اپنی ہاتھ میں لی اور پورے علاقے سے یہودیوں کے اقتدار کے مواقع ختم ہوگئے ۔ یہودیوں کی مکارانہ ذہنیت کے بس میں جو وسائل اور جو ہتھیار تھے ‘ انہوں نے وہ سب مسلمانوں کے خلاف استعمال کئے ۔ بابل کی اسیری ‘ مصر کی غلامی اور رومن عروج کے زمانے میں گزرنے والی غلامانہ زندگی کے شب وروز میں انہوں نے جو مکاری اور عیاری سیکھی تھی وہ سب انہوں نے اسلام کے خلاف استعمال کی ۔ حالانکہ تمام اقوام اور ملتوں نے ان کے ساتھ جس تنگ دلی کا رویہ اختیار کیا تھا ‘ اسلام نے اس کے برعکس ان کے ساتھ نہایت ہی فراخدلی کا ثبوت دیا ۔ لیکن انہوں نے اسلام کے اس حسن سلوک کا بدلہ اس مکر و فریب سے دیا جو فجر اسلام سے آج تک جاری ہے اور جو نہایت ہی گھٹیا ذہنیت کا غماز ہے ۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جزیرۃ العرب کی تمام قوتوں کو اکٹھا کیا اور رات دن عرب کے متفرق قبائل کو اس مہم کے لئے جمع کرتے رہے ۔ (آیت) ” ویقولون للذین کفروا ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا “۔ ” وہ ان لوگوں سے کہتے جنہوں نے کفر کی راہ کی کہ یہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت کی راہ پر ہیں ۔ “ اور جب اسلام یہودیوں کی سازشوں کے برعکس غالب ہوگیا تو انہوں نے اپنی سازشوں کا رنگ بدلا ۔ انہوں نے اسلامی لٹریچر کے اندر اپنی جانب سے گھڑی ہوئی باتیں داخل کرنے کی پالیسی اختیار کی ۔ صرف کتاب اللہ ان کی دسترس سے باہر رہی ‘ اس لئے کہ اس کی حفاظت کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی تھی انہوں نے مسلمانوں کی صفوں کے اندر اپنے ایجنٹ داخل کئے ۔ جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ابھی ان کے ذہن میں پختگی پیدا نہ ہوئی تھی ان کے اندر انہوں نے فتنہ پردازی شروع کردی یہ کام وہ مختلف علاقوں میں کرتے رہے اور آج تک وہ مسلمانوں کے خلاف دنیا کے اطراف واکناف میں لوگوں کو جمع کرتے ہیں ۔ چانچہ اس وقت دنیا کے چپے چپے پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں نے جال بچھا رکھے ہیں ۔ اس جنگ میں وہ عیسائی اور بت پرست دونوں اقوام کو استعمال کر رہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے اندر غیر اسلامی طور طریقے رائج کرتے ہیں اور مسلمان ممالک کے اندر ایسی لیڈر شب سٹیج پر لاتے ہیں جن کے صرف نام مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے وہ دین اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینکنے کے عمل میں مصروف ہیں ۔ ذرا پھر اللہ تعالیٰ کے اس کلام پر غور فرمائیں : ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے ۔ “ ٭ جس شخص نے مدینہ کی نوخیز اسلامی مملکت کے خلاف تمام قبائل کو جنگ احزاب میں جمع کیا اور بنی قریظہ اور دوسرے یہودیوں کو جمع کیا اور قریش مکہ اور دوسرے قبائل کو جمع کیا یہ کون تھا ؟ یہودی ۔ ٭ وہ شخص جس نے عوام کو برانگیختہ کیا ‘ اشرار کو مدینہ میں جمع کیا ‘ اور مکروہ پروپیگنڈا کیا جس کے نتیجے میں حضرت عثمان شہید ہوئے اور اس کے بعد نہایت ہی تباہ کن واقعات پیش آئے وہ کون تھا ؟ یہودی ۔ ٭ وہ لوگ جو احادیث رسول میں موضوعات داخل کرتے رہے وہ کون تھا ؟ یہودی ۔ ٭ اسلام کی آخری خلافت ‘ خلافت عثمانیہ کے دور میں قومیت کے نعرے کس نے بلند کئے ‘ عالم اسلام میں انقلابات برپا کرکے اسلامی شریعت اور اسلامی دساتیر کو کس نے منسوک کیا اور جس شخص نے خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے سلطان عبدالحمید کے بعد لادینی نظام رائج کیا ‘ وہ کون تھا ؟ اتاترک یہودی ۔ ٭ وہ تمام اقدامات جو پورے عالم اسلام میں اور پوری دنیا میں اسلامی تحریکات کے خلاف کئے جاتے ہیں ان کی پشت پر کون ہے ؟ یہودی ۔ ٭ اس کرہ ارض پر مادیت اور ملحدانہ نظریات کا موجد کون ہے ؟ یہاں حیوانی اور میلانات ‘ جنسی بےراہ روی کے پھیلانے کی تحاریک کی پشت پر کون ہے ؟ ان تمام نظریات کا پرچار کون کرتا ہے جو تمام مذہبی مقدسات اور شعائر کے خلاف ہیں ؟ صرف اور صرف یہودی ۔ غرض یہودیوں نے اسلام کے خلاف پوری اسلامی تاریخ میں جو معرکہ آرائی کی ہے اس کی داستانی نہایت ہی طویل ہے ۔ اور اس کے مقابلے میں مشرکین اور بت پرستوں نے اسلام کے خلاف جو کچھ کیا وہ بہت ہی کم ہے ۔ زمانہ قدیم میں بھی اور دور جدید میں بھی ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ مشرکین عرب کے ساتھ اسلام کی معرکہ آرائی مجموعی طور پر صرف بیس سال تک رہی ؟ اس طرح اہل فارس کے ساتھ بھی ایک مختصر عرصہ جنگ رہی ۔ دور جدید میں اگرچہ ہندوستان کے مشرکین بظاہر اسلام کے خلاف لڑتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی دشمنی اور جنگ یہودیوں کے مقابلے میں کچ بھی نہیں ہے ۔ عالمی صہیونیت (یاد رہے کہ سوشلزم اور کمیونزم عالمی صہیونیت کی شاخیں ہی تصور ہوتی ہیں) ہمیشہ سے اسلام دشمنی میں پیش پیش رہی ہے اور اس سے قبل یہودیوں نے اسلام کے خلاف جو محاذ آرائی کی اور یہ جس قدر طویل اور وسیع رہی ہے اس کے مقابلے میں صرف صلیبی جنگیں ہی کس قدر وقعت رکھتی ہیں جن پر ہم آگے چل کر بات کریں گے ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ پر بار بار غور کریں ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت ” یہود اور مشرکین “ کو پاؤ گے “ تو بات کا حق ہونا واضح ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں مشرکین کے مقابلے میں یہودیوں کو پہلا نمبر دیا گیا ہے اور پھر جب ہم یہودیوں کے اس تاریخی رول کو بھی پیش نظر رکھیں جو انہوں نے اسلام کے خلاف ادا کیا ‘ جس کے کچھ واقعات کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فقرے میں یہودیوں کو کیوں پہلے نمبر پر رکھا ہے ۔ بیشک یہودی نہایت ہی بدفطرت لوگ ہیں ‘ ان کے مزاج میں شر ہے ‘ ان کے دلوں کے اندر اسلام اور نبی اسلام کے خلاف کینہ بھرا ہوا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں اور نبی اکرم کو خبردار فرماتے ہیں اور ان لوگوں کی اس بری اور شریر فطرت پر اگر دنیا میں کسی نے قابو پایا تو وہ اسلام اور مسلمان تھے ‘ لیکن اس وقت جب مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان تھے ۔ صرف اسلام ہی تھا ‘ جس نے اس بدفطرت مخلوق سے لوگوں کو نجات دلائی تھی لیکن اس وقت جب اہل اسلام ‘ اسلام کا حق پورا پورا ادا کرتے تھے ۔ (آیت) لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ (82) وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ (83) وَمَا لَنَا لاَ نُؤْمِنُ بِاللّہِ وَمَا جَاء نَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن یُدْخِلَنَا رَبَّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِیْنَ (84) فَأَثَابَہُمُ اللّہُ بِمَا قَالُواْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ جَزَاء الْمُحْسِنِیْنَ (85) وَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَکَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُوْلَـئِکَ أَصْحَابُ الْجَحِیْمِ (86) ” تم اہل ایمان کی عدوات میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں ، یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے ۔ جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں ، وہ بول اٹھتے ہیں کہ ” پروردگار ‘ ہم ایمان لائے ‘ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ” آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جب کہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے ؟ “ ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ جزاء ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لئے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا ‘ تو وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔ “ ” ذرا ان آیات پر غور کیجئے ۔ یہ ایک مخصوص صورت حال کی نشاندہی کر رہی ہیں اور ان میں جو فیصلہ ہے یہ بھی ایک مخصوص صورت حال میں ہے ۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیرورکاروں میں سے ایک فریق کے بارے میں ایک تبصرہ ہے جو کہتے تھے کہ ہم ” نصاری “ ہیں اور تبصرہ ان الفاظ میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ محبت میں یہ لوگ قریب تر ہیں ۔ لیکن یہ بات یہاں ذہن میں رہنا چاہئے کہ یہ ایک متعین صورت حال پر تبصرہ ہے اس لئے یہ صرف مخصوص صورت حالات پر ہی منطبق ہوگا ۔ اکثر لوگوں نے اس تبصرے کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے ۔ بعض لوگ اس تبصرے کو اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں کہ اہل اسلام بعض مخالف کیمپوں کے ساتھ اپنے موقف میں نرمی پیدا کرلیں حالانکہ اپنے موقف میں نرمی کرنا اہل اسلام کے لئے نہایت ہی مضر ہے ۔ اس سے دشمن کی پالیسی اور موقف کے سمجھنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے ۔ اس لئے ہم یہاں مناسب سمجھتے ہیں کہ ظلال القرآن میں اس صورت حال کی وضاحت کردیں جس کی تصویر کشی ان آیات میں کی گئی ہے ۔ ان آیات میں جن لوگوں کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ” نصاری “ ہیں ‘ اور وہ مسلمانوں کی دوستی میں قریب تر ہیں اور یہ لوگ عالم دین اور تاریک الدنیا قسم کے فقیر ہیں اور وہ متکبر اور مغرور بھی نہیں ہیں۔ (آیت) ” ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ (82) ” یہ اس لئے کہ ان میں عالم دین اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے “۔ لیکن قرآن مجید بات کو یہاں ہی ختم نہیں کردیتا ۔ نہ بات کو مجمل چھوڑا جاتا ہے ۔ نہ اسے ہر اس شخص کے لئے عام چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہتا ہے میں نصرانی ہوں اس گروہ کی تصویر میں کچھ مزید رنگ بھرے جاتے ہیں اور اس گروہ کے موقف کو یوں واضح کیا جاتا ہے ۔
Top