Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعے سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے ‘ پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لئے درد ناک سزا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 94 تا 100۔ ذرا پیچھے دیکھ کر اس سورة کی ابتدائی آیات کو ایک بار پھر پڑھئے ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَۃُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ غَیْْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (1) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہِ وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْہَدْیَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلا آمِّیْنَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّہِمْ وَرِضْوَاناً وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ (2) (5 : 1۔ 2) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو ‘ بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو ، ۔۔۔۔۔ حرام مہینوں میں کسی کو حلال نہ کرلو ‘ قربانی کے جانوروں پر دست درازی نہ کرو ‘ ان جانوروں پر ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ انکو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو۔ یہ ممانعت اس شکار کے بارے میں تھی جب شکاری حالت احرام میں ہو ‘ اور یہ ممانعت خدا پرستی کی نشانیوں (شعائر) کی بےحرمتی کے بارے میں تھی ‘ قربانی کے جانوروں ‘ پٹے ڈالے ہوئے نذر کے جانوروں ‘ حاجیوں کے ساتھ چھیڑ کی ممانعت کی گئی تھی ‘ لیکن ان مموعات پر دنیا میں کوئی سزا نہ سنائی گئی تھی ۔ صرف یہ کہا گیا تھا کہ یہ کام گناہ گاری کے کام ہیں ۔ اب دنیا میں بطور سزا کفارے کا بیان کیا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والا اپنے کئے کا مزہ چکھے ۔ البتہ سابقہ غلطیوں کی معافی کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اگر کسی نے پہلے ان ممنوعات کا ارتکاب کیا ہو تو وہ معاف ہیں لیکن آئندہ اس ہدایت کے اعلان ویبان کے بعد جو دوبارہ اس کا ارتکاب کرے گا اسے سخت سزاد دی جائے گی اور وہ انتقام الہی سے بچ نہ سکے گا ۔ آیات کے اس مجموعے کا آغاز بھی اسی شناسا آواز کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” (یایھا الذین امنوا) اس خطاب کے بعد ان کو کہا جاتا ہے کہ اب تمہاری آزمائیش ہونے والی ہے ۔ یعنی اس شکار کے بارے میں جس سے تم کو حالت احرام میں منع کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورماحکم لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الیم “۔ (94) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعے سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے ‘ پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لئے درد ناک سزا ہے ۔ یہ بہت ہی آسان شکار ہوتا ہے اللہ اسے خود انکی طرف چلاتا ہے ‘ ایسا شکار ہوتا ہے کہ وہ اسے ہاتھوں کے ساتھ بھی پکڑ سکتے ہیں ‘ ان کے نیزے اور تیر بھی اسے بسہولت مار سکتے ہیں ۔ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ حرم میں شکار خود خیموں کے اندر آجاتا ہے ‘ ان کے گھروں کے اندر آجاتا ہے اور یہ اللہ کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے اور یہ وہی آزمائش ہے جس میں بنی اسرائیل فیل ہوئے اور پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکے ۔ انہوں نے پہلے اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے باصرار یہ مطالبہ کیا کہ ان کے لئے ایک ایسا دن مقرر کریں جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہونا ممنوع ہو ۔ اس دن وہ مکمل آرام کریں ‘ نماز پڑھیں اور کسی دنیاوی اور معاشی کام میں مشغول نہ ہوں ۔ اللہ نے ہفتے کا دن مقرر کردیا لیکن اللہ نے شکار ان کی آزمائش کے لئے وافر مقدار میں ساحلوں تک چلایا ۔ یہ شکار ان کی نظروں کے سامنے پھرتا اور جب ہفتہ نہ ہوتا تو شکار نظر ہی نہ آتا ۔ جس طرح مچھلی بالمعموم پانی میں چھپی ہوئی ہوتی ہے اب یہ دیکھ دیکھ کر بچارے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو نہ نبھا سکے ۔ یہودیوں کی معروف رگ پھڑکی ‘ ان کی اصل فطرت جاگی ۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ حیلے بہانے کرنے شروع کردیئے ۔ چناچہ انہوں نے ہفتے کے دن شکار کو گھیرنا شروع کردیا جسے وہ بعد کے دنوں میں شکار کرتے ۔ ان کی یہی حرکت تھی جس پر اللہ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ ان کے سامنے رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” وسئلھم عن القریتہ التی کانت حاضرۃ البحر اذ یعدون فی السبت اذ تاتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرعا ویوم لا یسبتون لا تاتیھم کذلک نبلوھم بما کانوا یفسقون “۔ (7 : 163) ” اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقعہ تھی انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں لوگ سبت کے دن احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دونوں میں نہیں آتی تھیں ۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ “ امت اسلامیہ بھی ایسے ہی ابتلاء میں مبتلا کی گئی تھی اور یہ کامیاب رہی جبکہ یہودی ناکام ونامراد رہے ۔ اور قرآن کریم کی اس آیت کا یہی مفہوم ہے : (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ‘ ولو امن اھل الکتب لکان خیرا لھم منھم المومنون واکثرھم الفسقون ۔ (3 : 11) ” اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو ‘ جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘ اگر یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا ‘ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔ “ بیشمار مراحل ایسے آئے جن میں امت اسلامیہ آزمائشوں میں کامیاب رہی اور بنی اسرائیل ناکام رہے اور یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر سے خلافت کا مقام بنی اسرائیل سے سلب کرلیا اور امت مسلمہ کو اس مقام پر فائز کردیا۔ اور امت مسلمہ کو زمین پر وہ عروج عطا کیا جو اس سے قبل کسی کو بھی نہ دیا تھا ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی کسی سابقہ امت کے دور میں اس طرح متمکن نہ ہوا تھا ‘ جس طرح امت مسلمہ کے دور میں پوری طرح ظاہر ہوا ۔ لیکن یہ اس دور میں ہوا جس میں امت مسلمہ فی الواقع امت مسلمہ تھی اور جس دور میں وہ یہ سمجھتی تھی کہ اسلام وہ ہے جو لوگوں کی عملی زندگی کے اندر نمودار ہو اور لوگوں کی زندگی اسلامی شریعت کے مطابق بسر ہو رہی ہو ۔ اس دور میں امت مسلمہ کو یہ احساس تھا کہ اسے یہ عظیم امانت سپرد کی گئی ہے اور اسے اس کا امین قرار دیا گیا ہے ۔ یہ کہ امت مسلمہ کو پوری انسانیت کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے اور اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو اسلام نظام حیات کے مطابق استوار کرے اور ان پر اللہ کی اس امانت کو قائم کرے ۔ یہ آزمائش کہ حالت احرام میں لوگ بسہولت شکار کرسکتے تھے لیکن بطور آزمائش انہیں شکار سے روک دیا گیا ان آزمائشوں میں سے ایک ہے جن میں یہ امت کامیاب رہی ۔ ایسی آزمائشوں کے ذریعے اس امت کو آزمانا اور آزما کر تربیت دینا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت ہی بڑی اور کھلی مہربانی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو منتخب کرلیا ہے ۔ اس امتحان کی حکمت کی تصریح بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے ۔ (آیت) ” لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب “ ” تاکہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون ہے جو اس سے غائبانہ ڈرتا ہے “۔ ایک مسلمان کے ضمیر کے اندر جو اصول رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے غائبانہ کون ڈرتا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی مضبوط قاعدہ ہے جس کے اوپر اسلامی نظریہ حیات کی عمارت کھڑی ہے ۔ اسی قاعدے کے مطابق ایک مسلمان کا طرز عمل طے پاتا ہے اور یہ طرز عمل نظریہ خلافت فی الارض اور اسلامی نظام زندگی کے مطابق ہوتا ہے ۔ لوگ اللہ کو نہیں دیکھتے ‘ لیکن جب وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ انکے نفس کے اندر موجود ہوتا ہے ۔ ایک انسان کے تصور اور فہم میں اللہ غیب ہوتا ہے لیکن دل مومن اس پر غائبانہ ایمان لا کر ‘ اللہ سے ڈرتا ہے ۔ جب کسی کے دل و دماغ کے اندر یہ عظیم حقیقت ‘ حقیقت ایمان بالغیب بیٹھ جاتی ہے اور انسان اللہ سے ڈرنے لگتا ہے اور حسی رویت اور حسی مشاہدے سے مستغنی ہوجاتا ہے اور یہ مومن لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہے ‘ جبکہ اس نے اللہ کو بچشم سر دیکھا نہیں ہوتا ۔ وجود انسانی کے اندر اس عظیم حقیقت کا بیٹھ جانا ‘ اس کے اندر ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اس کی فطری قوتیں آزاد ہوجاتی ہیں اور اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو مشنری سپرٹ ودیعت کی ہے وہ بدرجہ اکمل کام کرتی ہے اور وہ جس قدر بھی عالم غیب کے قریب پہنچتا ہے (جو انسان کے لئے تیار کیا گیا ہے) اسی قدر وہ عالم حیوانات سے دور ہوتا جاتا ہے ۔ اور اس سطح تک بلند ہوجاتا ہے جو انسان کے لئے محسوسات کے اندر سکیڑ لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو مادی دنیا کے اندر محدود کرکے محض حیوانی دائرے کے اندر چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں تصریح فرماتے ہیں کہ اس ابتلاء میں حکمت کیا ہے تاکہ اہل ایمان کے نفوس اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اللہ کو علم لدنی کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے غائبانہ طور پر کون ڈرتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق دنیا میں لوگوں کو نہیں پکڑتا ۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور گرفت صرف ان باتوں پر ہوتی ہے جو واقع ہوجائیں ۔ (آیت) ” فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الیم “۔ پھر اس تنبیہ کے بعد بھی جس نے حدود سے تجاوز کیا تو اس کے لئے دردناک سزا ہے “۔ اللہ تعالیٰ نے امتحان کی اطلاع دے دی اس کی حکمت سے بھی آگاہ کردیا اور اس بات سے متنبہ کردیا کہ وہ اس آزمائش میں نہ پڑیں اس لئے کہ کامیابی کے تمام اسباب بھی اس کے لئے فراہم کردیئے گئے ۔ اب بھی اگر کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے لئے درد ناک سزا کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔ اس کے سوا وہ اور کس انجام کا مستحق ہے اس لئے کہ وہ خود اپنے لئے یہ سزا اختیار کرتا ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی پھر خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر عائد شدہ کفارے کی تفصیلات دے دی جاتی ہے ۔ دوبارہ بطور تاکید ممانعت بھی کردی جاتی ہے ۔
Top