Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
الْكَعْبَةَ
: کعبہ
الْبَيْتَ الْحَرَامَ
: احترام ولا گھر
قِيٰمًا
: قیام کا باعث
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ
: اور حرمت والے مہینے
وَالْهَدْيَ
: اور قربانی
وَالْقَلَآئِدَ
: اور پٹے پڑے ہوئے جانور
ذٰلِكَ
: یہ
لِتَعْلَمُوْٓا
: تاکہ تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يَعْلَمُ
: اسے معلوم ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِكُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنادیا) تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔
(آیت) ” جَعَلَ اللّہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلاَئِدَ ذَلِکَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَأَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(97) اعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(98) مَّا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ وَاللّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ (99) ” اللہ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنادیا) تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ خبردار ہوجاؤ ۔ ! اللہ سزادینے میں بھی سخت ہے اور اسکے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے ۔ رسول پر تو پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ‘ آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا ہے ۔ بیت الحرام کے اندر یہ حرمتیں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کے دائرے میں انسان ‘ پرندے ‘ حیوان اور حشرات الارض سب آتے ہیں اور اگر کوئی احرام کی حالت میں حرم کے حدود میں پہنچا ہو ‘ تب بھی اس کے لئے یہ سب چیزیں ممنوع ہیں۔ اس کے علاوہ چار مہینوں کو بھی اشہر حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں قتل و قتال سخت ممنوع ہے ۔ یہ چار مہینے ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ محرم اور رجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کے دل میں ان چار مہینوں کا احترام بٹھا دیا تھا ‘ یہاں تک کہ ہو دور جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کرتے تھے ۔ ان مہینوں میں وہ کسی نفس کا ڈراتے دھمکاتے بھی نہ تھے ۔ ان مہینوں میں وہ خون کا بدلہ بھی نہ لیتے تھے اور نہ ہی ان میں کوئی شخص انتقام کی توقع کرتا تھا یہاں تک کہ ایک شخص اپنے باپ بیٹے اور بھائی کے قاتل کو پاتا مگر اسے کوئی اذیت نہ دیتا ۔ چناچہ اس عرصے میں لوگ کھلے بندوں پھرتے اور تجارتی سفر کرتے اور رزق حلال تلاش کرتے ۔ یہ امن کے احکامات اللہ نے اس لئے بھی جاری کئے کہ اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کو خطہ امن وسلامتی قرار دینا چاہتے تھے جہاں لوگوں کے اندر ٹھہراؤ پیدا ہو اور کوئی خوف اور بےچینی نہ ہو ۔ کعبے کی طرح ان چار مہینوں کو اللہ نے زمانہ امن قرار دیا تھا جس طرح کعبہ مقام امن تھا ۔ اس کے بعد اس امن کی حدود کے اندر مزید توسیع کردی گئی اور اس ہدی کو بھی مامون اور محفوظ کردیا گیا ہے جسے خانہ کعبہ کی طرف روانہ کردیا گیا ہو ۔ یہ جانور حج اور عمرہ کے موقع پر چلائے جاتے تھے ۔ چناچہ دور جاہلیت میں بھی ان جانوروں کو نہ چھیڑا جاتا تاھ ۔ اسی طرح اس شخص کو بھی ماموں قرار دے دیا گیا جو خانہ کعبہ میں پناہ لے لیتا ہے اور اپنے گلے میں بیت الحرام کے درختوں کا ہار ڈالتا ہے ۔ خانہ کعبہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حرمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کے تعمیر کے وقت ہی سے رکھی تھی اور اللہ نے اس وقت سے خانہ کعبہ کو لوگوں کے آنے جانے کی جگہ قرار دے دیا تھا ۔ یہ اللہ کا وہ عظیم فضل و احسان تھا ‘ جس کی یاد دہانی اللہ نے مشرکین کو بھی کرائی اس لئے کہ ان کے لئے بھی بیت اللہ گھومنے پھرنے اور امن کی جگہ تھا ۔ اس کے اردگرد بسنے والے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ اچک لئے جاتے تھے جبکہ مشرکین یہاں نہایت ہی امن سے رہتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کا شکریہ ادا نہ کرتے تھے ۔ اس خانہ توحید میں الہ واحد کی بندگی نہ کرتے تھے اور حضور ﷺ سے یہ کہتے تھے کہ اگر ہم عقیدہ توحید کو اپنائیں تو ہمیں اپنی جا اور جاگیر چھوڑنی پڑے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کر کے اس کی تردید کی اور انہیں بتایا کہ امن اور خوف ہوتا کیا ہے ۔ (آیت) ” وقالوا ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرت کل شیء رزقا من لدنا ولکن اکثرھم لا یعلمون “۔ (28 : 57) ” وہ کہتے ہیں ‘ اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو انکے لئے جائے قیام بنادیا جس کی طرف ہر طرف کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں ‘ ہماری طرف سے رزق کے طور پر مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ “ صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن یہ فرمایا ” یہ شہر حرام ہے ‘ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں گے ‘ اور یہاں کے سبزے کو بھی خراب نہ کیا جائے گا ‘ یہاں کے شکار کو نہ بھگایا جائے گا اور یہاں کی گمشدہ چیز کو نہ اٹھایا جائے گا مگر وہ شخص جو اعلان کرنا چاہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے حرم میں محرم کے لئے زندہ چیزوں میں سے صرف کوے ‘ چیل ‘ بچھو ‘ چوہے اور کاٹنے والے کتے کو مستثی فرمایا ۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے ” حضور اکرم ﷺ نے پانچ چیزوں کے قتل کا حکم دیا ۔ یہ مضر چیزیں ہیں اور حالت حلت اور احرام دونوں میں یہ حکم دیا ۔ کوا چیل ‘ بچھو ‘ چوہا اور کاٹنے والاکتا۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ سے سانپ کا اضافہ آیا ہے ۔ حضرت علی ؓ کی روایت کی رو سے یہی حرمت مدینہ کے لئے بھی عائد ہے ۔ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ” عیر “ سے لے کر ” ثور “ مدینہ کو حرم قرار دیا ہے ۔ اور صحیحن ہی میں ایک دوسری روایت ہے ۔ یہ حضرت عبادہ ابن تمیم سے وارد ہوئی ہے۔ کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لئے دعا فرمائی اور میں نے مدینہ کو اسی طرح حرم کردیا ہے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا ۔ “ اس کے علاوہ مزید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ علاقہ اور یہ مہینے ہی صرف امن کے لئے مخصوص نہیں اور صرف یہ بات نہیں ہے کہ اس امن وامان کا دائرہ صرف انسان اور حیوان تک ہی محدود ہے بلکہ اس امن اور سکون کا دائرہ انسانی ضمیر تک وسیع ہوجاتا ہے اس لئے کہ انسانی ضمیر انسانی نفس کی گہرائیوں کے اندر ایک معرکہ کار زار ہے ۔ ضمیر کے اندر جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں تو اس کے شعلے اور اس کا دھواں زمان ومکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ پھر تمام انسان اور حیوان اس کی زد میں آجاتے ہیں حرمین اس اندرونی معرکہ کار زار میں بھی امن کا سامان پیدا کردیتے ہیں اور جب ضمیر کے اندر امن و سکون پیدا ہوجاتا ہے تو ایک محرم کسی جاندار کی طرف ہاتھ بڑھانے میں بھی حرج محسوس کردیتے ہیں اور جب ضمیر کے اندر امن و سکون پیدا ہوجاتا ہے تو ایک محرم کسی جاندار کی طرف ہاتھ بڑھانے میں بھی حرج محسوس کرتا ہے اگرچہ یہ شکار حرم سے باہر ہو ۔ یہ عرصہ نفس انسانی کی تربیت کا عرصہ ہے تاکہ وہ صاف و شفاف ہوجائے ۔ وہ ہلکا ہوجائے اور بلند ہو کر ملاء اعلی سے واصل ہوجائے اور ملاء اعلی کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔ یہ انسانیت ‘ یہ خوفزدہ ‘ مصیبت زدہ ‘ پسی ہوئی انسانیت کس قدر محتاج ہے ‘ اس علاقہ امن کی ۔ وہ منطقہ امن جس کو اللہ نے اس دین کے پیروکاروں کے لئے بنایا ہے ‘ اور جس کا اعلان عام قرآن کریم کے اندر کردیا گیا ۔ (آیت) ” ذَلِکَ لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَأَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ(97) ” تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ اس جگہ یہ عجیب اختتامیہ ہے ۔ یہ بات معلوم ہے کہ اللہ جو شریعت مقرر کرتا ہے اور لوگوں کے لئے یہ جائے امن جو قرار دیتا ہے ‘ یہ اس لئے بتاتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ ان تمام حالات سے باخبر ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے اندر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ‘ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ انسانوں کے مزاج سے باخبر ہے ‘ وہ انکی خفیہ نفسیات سے بھی خبردار ہے ۔ وہ انکی روح کی پکار کو سنتا ہے اور وہ ایسا قانون بناتا ہے جس کے ذریعے ان کے مزاج کے تقاضے ‘ انکی ضروریات اور ان کے میلانات پورے ہوتے ہیں ۔ جب لوگ یہ محسوس کریں گے کہ قانون سازی میں اللہ نہایت ہی شفیق ورحیم ہے ۔ اور جب لوگوں کے دلوں نے اس شریعت اور ان کی فطرت کے درمیان پوری ہم آہنگی کا مزہ چکھا تو انکو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ان تمام امور کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے اندر ہیں اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ دین اسلام انسانی فطرت اور اس کے میلانات اور خواہشات کے پورے پورے تقاضے ملحوظ رکھنے میں بہت ہی عجیب ہے ۔ وہ انسانوں کی تمام ضروریات کا لحاظ رکھتا ہے ۔ اسلامی شریعت کی اسکیم انسانی فطرت کی اسکیم کے عین مطابق ہے ۔ شریعت کی تشکیل اور انسان کی فطرت کے اندر مکمل ہم آہنگی ہے ۔ جب انسان کو اس دین کے بارے میں شرح صدر ہوجاتا ہے تو پھر وہ جس قدر غور کرتا ہے اسے کمال و جمال ہی نظر آتا ہے ‘ پھر اسے انس و محبت ہی نظر آتی ہے اور اسے وہ سکون ملتا ہے جس کا تصور وہ شخص نہیں کرسکتا جس کو شریعت پر شرح صدر حاصل نہ ہو ۔ اب حالت احرام اور حالت غیر احرام میں جائز وناجائز امور کا خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ کا عذاب سخت ہے اور دوسری جانب وہ غفور ورحیم بھی ہے ۔ (آیت) ” اعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(98) خبردار ہوجاؤ ۔ ! اللہ سزادینے میں بھی سخت ہے اور اسکے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے ۔ “ اور اس ڈراوے کے ساتھ ساتھ بتا دیا جاتا ہے کہ اپنے کئے کی ذمہ داری ہر شخص کے کاندھوں پر ہے اور جو راہ راست پر نہ ہو وہ خود اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہے ۔ (آیت) ” مَّا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ وَاللّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ (99) ” رسول پر تو پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے ‘ آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا ہے ۔ اب یہ مضمون ایک عام پیمانے اور اصول پر ختم ہوتا ہے اور یہ پیمانہ تمام اصول واقدار کے وزن کے لئے ایک ترازو ہے ۔ اس کے مطابق ایک مسلم فیصلے کرتا ہے اس میزان میں طیب بھاری رہتا ہے ۔ اور خبیث ہلکا ہوجاتا ہے تاکہ خبیث اپنی ظاہری اور جسمانی کثرت کی وجہ سے کسی مسلم کو کسی بھی وقت متاثر نہ کرسکے ۔ (آیت) ” قُل لاَّ یَسْتَوِیْ الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُواْ اللّہَ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (100) ” اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں ‘ خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو ‘ پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو ‘ اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو ‘ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ۔ یہاں پاک وناپاک کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ اس سے پہلے حلال و حرام اور جائز وناجائز کا مضمون چل رہا تھا ‘ شکار میں سے حلال و حرام کا ذکر ظاہر ہے ۔ کہ حلال طیب ہوتا ہے اور حرام خبیث ہوتا ہے ۔ طیب اور خبیث برابر نہیں ہو سکتے اگرچہ خبیث اپنی کثرت کی وجہ سے انسان کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور عجیب معلوم ہوتا ہے ‘ لیکن طیب نہایت ہی خوشگوار ہوتا ہے اور اس کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اس کے نتیجے میں امراض اور آلام سے بھی زیادہ لذت ہوتی ہے اور طیب کا انجام دنیا وآخرت میں اچھا ہوتا ہے ۔ جب نفس انسانی خواہشات نفسانیہ سے آزاد ہوجاتا ہے اور نفس پر تقوی اور دل کی نگرانی قائم ہوجاتی ہے تو وہ خبیث کے مقابلے میں طیب کو اختیار کرتا ہے اور اس طرح وہ دنیا وآخرت میں کامیاب رہتا ہے ۔ (آیت) ” فَاتَّقُواْ اللّہَ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (100) ” پس اے صاحبان عقل وخرد اللہ ہی سے ڈرو ‘ امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے) یہ تو تھی ظاہری مناسبت لیکن اس آیت کا افق اور مطالب اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں ۔ یہ تمام زندگی کو اپنے دائرے میں لیتی ہے اور اس کے مفہوم کو تصدیق مختلف مقامات پر ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس امت کو میدان میں لایا اور اسے خیر امت قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ اسے ایک عظیم امر کے لئے تیار کیا جائے ۔ یہ عظیم امر یہ تھا کہ یہ امت اس کرہ ارض پر اسلامی نظام کی امانت کی حامل ہوگی ۔ وہ اسلامی نظام حیات پر اس طرح قائم ہو کہ اس سے پہلے کوئی امت اس طرح قائم نہ ہوئی ہو ۔ وہ اس نظام کو لوگوں کی زندگیوں میں اس طرح قائم کرے کہ کبھی کسی دوسری امت کے اندر یہ نظام اس طرح قائم نہ کیا جاسکا ہو ۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ اس امت کو اس قدر طویل تربیت دی جائے کہ اس سے پہلے کسی امت کو نہ دی گئی ہو ۔ پہلی تربیت یہ ہو کہ اسے آثار جاہلیت سے مکمل طور پر نکال دیا جائے اور اسے جاہلیت کی گراٹوں سے اٹھا کر سیدھا اعلی منزل مقصود تک بلند کردیا جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسلام کی بلند ترین چوٹی پر فائز ہوجائے ، اس کے بعد یہ امت اپنے تصورات و افکار کو درست کرے ‘ اور اپنی عادات ‘ اپنے شعور اور اپنے افکار کو جاہلیت کے آثار اور آلودگیوں سے پاک کرے ۔ اس کے بعد اس کے اندر اس قدر عزم پیدا کردیا جائے کہ وہ اس سچائی قبول کرلے اور پھر اس قبولیت کے نتیجے میں آنے والی ابتلاؤں کو برداشت کرے ۔ اس کے بعد وہ پوری زندگی کو اسلامی اقدار اور پیمانوں کے مطابق استوار کرے یہاں تک کہ یہ ایک ربانی امت بن جائے اور اس کی انسانیت اعلی مدارج انسانیت تک بلند ہوجائے جب یہاں تک اس کی تربیت ہوجائے تو پھر اس کی نظروں میں اچھا اور برا برابر نہ ہوں گے ۔ اگرچہ خبیث وناپاک زیادہ اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والا ہو اور آنکھوں کو چکا چوند کردینے والا ہو ۔ لیکن جب انسان طیب اور خبیث میں فرق کرلیتا ہے اور اشیاء کو الہی میزان میں تولتا ہے تو اس وقت باوجود کثرت اور حجم کے خبیث کا وزن طیب کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور طیب کا پلڑا باوجود قلت کے بہت بھاری ہوتا ہے ۔ اس مقام پر آکر یہ امت امین اور امانت دار بن جاتی ہے ۔ وہ درست اور قابل اعتماد ہوتی ہے ۔ اب وہ تمام انسانیت کی نگہبان ہوتی ہے ۔ اب وہ لوگوں کے لئے اللہ کا ترازو استعمال کرتی ہے اور اللہ کی قدر کے ساتھ اقدار کا تعین کرتی ہے ‘ وہ طیب کو اختیار کرتی ہے اور اس کی آنکھیں خبیث کو دیکھ کر خیرہ نہیں ہوتیں ۔ بعض اوقات ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ان میں یہ میزان نہایت ہی مفید ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ جب باطل پھولا ہوا ہو ‘ اور انسان یہ سمجھتا ہو کہ شاید یہ ترقی کر رہا ہے آنکھیں صرف یہ دیکھتی ہیں کہ بظاہر وہ پر قوت اور صاحب کثرت ہے ۔ ایک مومن اس پھولے ہوئے باطل کو اللہ کے ترازو میں تولتا ہے ۔ اس طرح اس کے ہاتھ مضطرب نہیں ہوتے ‘ نہ اس کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں ‘ نہ اس کا معیار خراب ہوتا ہے چناچہ وہ اس باطل کے مقابلے میں سچائی کو اختیار کرتا ہے جس میں کوئی جھاگ اور کوئی سو جن نہیں ہے ۔ نہ اس کے اردگرد کوئی زاد وعتاد ہے ۔ بس وہ تو فقط حق ہے ۔ وہ مجرد حق ہے اور اس کے سوا اس کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہے ۔ اللہ کے ترازو میں اس کا وزن زیادہ ہے اور ذاتی طور پر وہ حسین و جمیل ہے ۔ اس کی ذات کے اندر ایک قوت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی تربیت عین قرآنی منہاج کے مطابق کی ۔ اور امت پر رسول اللہ ﷺ کو قیم اور نگران مقرر کیا ۔ پھر وہ اس سطح پر پہنچی کہ وہ اللہ کے دین پر ایمان لانے والی تھی ۔ محض نفسیاتی ایمان نہیں اور نہ دل کے اندر کا ایمان بلکہ اپنی عملی زندگی میں ایمان اور اس کرہ ارض پر اپنی تمام سرگرمیوں کے اندر ایمان ۔ زندگی کے تمام اضطرابات میں ‘ تمام خواہشات اور امیدوں میں ‘ تمام رغبتوں اور مسلکوں میں ‘ تمام مفادات اور مصالح میں اور افراد اور گروہوں کی تمام کشمکشوں میں ایمان ‘ غرض اس کا ایمان اس طرح ہو کہ وہ اس پوری کائنات کے اوپر نگہبانی میں بھی ایماندار ہو ‘ اور اس زندگی کے اتھاہ سمندر میں اپنی عظیم ذمہ داریوں کے اندر بھی وہ ایماندار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو مختلف ہدایات ‘ مختلف موثرات ‘ مختلف آزمائشوں اور مختلف ضابطہ بندیوں کے ذریعے تربیت دی اور ان تمام امور کو ایک ہی مجموعی شکل میں ایک گٹھڑی کی طرح ایک نظام بنا دیا جس کے آخری مقاصد ایک ہی تھے ۔ یعنی اس امت کو اپنے عقائد و تصورات ‘ اپنے شعور اور میلانات اپنے طرز عمل اور اخلاق اور اپنی شریعت اور نظام اس طرح تیار کرنے چاہئیں کہ وہ اللہ کے دین کے اوپر قائم ہو ‘ وہ اس پوری انسانیت پر نگران ہو ‘ اور یہ اللہ کا حق ہے کہ وہ اپنے بندوں سے جو کام لینا چاہے وہ لے ۔ اللہ اپنے معاملات میں خود مختار ہے ۔ چناچہ اس کرہ ارض پر اسی روشن شکل میں اللہ کا دین چمکتا ہوا قائم ہوا۔ ہو ایک تصور تھا جس نے زندگی میں واقعیت اختیار کی اور یہ رسم ڈالی گئی کہ جب بھی اس دین کے قیام کے لئے یہ امت جہاد کرے گی اللہ کی مدد اسے حاصل ہوگی ۔ اس کے بعد جماعت مسلمہ کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بعض آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ حضور ﷺ نے جو کچھ نہیں بتایا اس کے بارے میں آپ سے سوالات نہ کئے جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ سوال کریں اور حضور ﷺ جواب دیں تو آپ لوگوں کو وہ جواب پسند نہ آئے اور یاحرج واقعہ ہوجائے اور جواب کے ذریعے ایسے فرائض عائد ہوجائیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ یا یہ ہو کہ کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ نے وسعت کی تھی اور سوال کی وجہ سے تنگی ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ آزاری دیتے ہیں ۔
Top