Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 33
لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍۙ
لِنُرْسِلَ : تاکہ ہم بھیجیں عَلَيْهِمْ : ان پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں
لنرسل ........ للمسرفین (15 : 43) ” تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لئے نشان زدہ ہیں۔ “ یہ مٹیالے پتھر ، تیار شدہ اور نشان زدہ تھے اور اللہ نے ان کو مسرفین کے لئے تیار کیا تھا اور یہ مسرف قوم لوط کے لوگ تھے جنہوں نے حدود سے تجاوز کرلیا تھا۔ وہ فطرت کی راہ سے تجاوز کرکے غیر فطری عمل کرتے تھے۔ جو حق اور دین کے خلاف راستہ تھا۔ ان پتھروں کے بارے میں کوئی بات اس سے مانع نہیں ہے کہ وہ آتش فشانی کے عمل کے نتیجے میں برسنے والوے پتھر ہوں کیونکہ گرم لاوا جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پتھر بن جاتا ہے اور یہ رب تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوتا ہے اور اس کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے مطابق کام کرتا ہے اور اسی شخص پر جاکر پڑتا ہے جس کے بارے میں حکم الٰہی ہو اور ہر پتھر کے لئے اللہ نے اپنے علم سے زمان ومکان مقرر کردیا ہے کہ اس نے اس جگہ فلاں کو گھیر لینا ہے اور ہر پتھر کو فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے پھینکنا طے کردیا ہے پھر ہمیں فرشتوں کی حقیقت کا بھی تو پوری طرح علم نہیں ہے اور یہ بھی ہمیں معلوم نہیں کہ اس کائنات کے ساتھ فرشتوں کا تعلق کیا ہے پھر جن قوتوں کو ہم جانتے ہیں اور جن کے انکشافات ہمارے سامنے ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان قوتوں کے اپنی جانب سے نام رکھتے رہتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟ ہماری کیا مجال ہے کہ ہم اللہ کی اس اطلاع پر اعتراض کریں کہ اس نے اپنی بعض قوتوں کو بعض مسرفین پر مسلط کردیا اور کسی خاص جگہ ایسا کردیا۔ ہمیں بہرحال اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کائنات کے بارے میں ہماری معلومات بہت ہی محدود ہیں اور مفروضوں پر مبنی ہیں بلکہ وہ نظریات ہیں اور بالکل ان چیزوں کی سطحی تاویلات ہیں۔ ابھی تک بہت کم معلومات ہیں جو حقائق بن سکے ہیں۔ غرض یہ آتش فشانی کے عمل میں پتھر ہوں یا اور پتھر ہوں۔ بہرحال وہ دست قدرت کا کرشمہ تھے۔ ان کی تخلیق کا عمل تھے اور وہ کیسے تھے یہ بھی ایک غیب ہے۔
Top